طالبان دہشتگردوں کو پاک فوج کا پیغام

پاکستان جمہوری طریقے سے حاصل کیا گیا اور یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ اس ملک کو حاصل کرنے کی وجہ مسلمانوں کی اپنی ایک خود مختار ریاست تھا، جس میں انکومذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔ مگر آج بدقسمتی سے ہم کو نہ ہی مذہبی آزادی ہے اورنہ ہی سیاسی۔ معاشی اور معاشرتی آزادی جب ہوتی ہے جب مذہبی اور سیاسی آزادی ہو۔ آج مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کا راج ہےاور سیاسی آزادی کے نام پر گذشتہ پانچ سال لیٹروں کا راج رہا۔ بڑی مشکل سے چھیاسٹھ سال بعد آج ہم جمہوریت کے تسلسل کو رواں رکھنے کے لیے 11 مئی کو انتخابات کے عمل سے گذرنے جارہے ہیں۔ عام انتخابات میں صرف چند روز باقی ہیں،مگر انتخابی گہما گہمی کے مناظر صرف پنجاب میں نظر آرہے ہیں باقی تین صوبے دہشتگردی کا شکار ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ خاصکرکراچی میں اے این پی ، متحدہ قومی مومنٹ اور پیپلز پارٹی کے الیکشن دفاتر یا اُنکی کارنرمیٹنگ پر ہونیوالے بم دھماکوں نے عام لوگوں کو خوف زدہ کیا ہوا ہے اور طالبان دہشت گردوں کا اصل مقصد بھی یہ ہی ہے۔ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے دہشت گردکارروائیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے،تاکہ لوگ اپنے ووٹ کا استمال کم سے کم کرپایں، اور ملک جمہوری طور پر مستحکم نہ ہونے پائے۔

پاکستان میں دہشتگردوں اور فسادیوں کو لانے کا سہراتو پاکستان کے سب سے وحشی آمر جنرل ضیاالحق کوجاتا ہے جس نے امریکہ کے ڈالروُں اور اپنی حکومت کو طویل کرنے کےلیےروس کے ساتھ افغانستان میں کرائے کی جنگ لڑئی۔اور جب امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ کا سابق ایجینٹ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ اُس وقت افغانستان میں جاہل ملا عمر کی طالبانی حکومت تھی جسکو امریکہ کی رضا مندی سےصرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہواتھا یعنی پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جس نےکہا تھا کہ 9/11 کے واقعہ میں 17 سعودی عرب اور 2 متحدہ عرب عمارت کے باشندئے شامل ہیں سیدھا دوڑا افغانستان کیوں چلا آیا۔ اسکی وجہ اسامہ بن لادن تھا جسکو ملاعمر نے پناہ دی ہوئی تھی اور بقول امریکہ اسامہ اور اسکے ساتھی اس دہشت گردی کے ماسٹر ماینڈ تھے اور امریکہ اپنے پالتو کو کبھی نہیں چھوڑتا ، جدید تاریخ میں صدام حسین اسکی ایک مثال ہے۔اور جب پاکستان کی افواج اور عوام اس جنگ میں اپنی سرزمین کو بچانے کےلیےحرکت میں آئے تو یہ پاکستان کی افواج اور پاکستانی عوام کے خلاف دہشت گردی پر اترآئے۔طالبانی حکومت بنوانے کا سہرا جماعت اسلامی، مولانہ فضل الرحمان اوربے نظیر کو جاتا ہے۔ یہ سانپ اِن کے ہی پالے ہوئے ہیں اور سانپ چونکہ کسی کے نہیں ہوتے اسلیے جب بے نظیر کو ہوش آیا اور انکی شدت سے مخالفت کی تو 2007 میں بے نظیر کو ڈس لیا۔ گذشتہ گیارہ سال سے یہ دہشتگردی اتنی بڑھ گی ہے کہ اب پاکستان کا کوئی باشندہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ اب جبکہ انتخابات میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں،حال یہ ہے کہ ملک کے تین صوبوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت ابھی تک جلسے جلوسوں کی سیاست شروع نہیں کرسکی ہے، صرف پنجاب میں ایسا لگتا ہے کہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ اے این پی ، متحدہ قومی مومنٹ اور پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم نہیں چلاپارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادی اپنی گذشتہ پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے سیاسی طور پر ختم ہونے جارہے ہیں اور بقول عمران خان کہ آصف زرداری تو پیپلز پارٹی پرخودکش حملہ کرچکا ہے۔ اس دہشت گردی میں جس میں صرف عام لوگ اپنی جان سے جارہے ہیں ، اگر دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہا توان جماعتوں کو سیاسی موت کی جگہ سیاسی شہادت مل جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کا صرف ایک ماہ باقی تھا کہ اچانک طالبان دہشتگردوں کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی سیدمنور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت مانگی تھی۔ میاں نواز شریف نے تو چپ سادھ لی مگر مولانہ فضل الرحمان اورجماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بہت پرجوش تھے۔جماعت اسلامی کے امیرسیدمنور حسن نے تو فوج کو نصیحت بھی فرمائی کہ وہ طالبان سے کوئی وعدہ خلافی نہ کریں اورحکومت کو حکم فرمایا کہ وہ فورا مذاکرات کرے اور طالبان کو ایک ٹی وی انٹرویو میں سلام بھی پیش کیا۔ اس مشروط مذکرات کی پیشکش کا مطلب حکومت سے مذکرات کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ اپنے امیدواروں کا بتانا تھا۔ نواز شریف کا نام تو رسما لیا گیا تھا، اصل مقصد جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مدد کرنا تھا۔ لیکن چونکہ نہ حکومت نے اس کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی عام لوگوں نےلہذا دہشتگردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آپ نوٹ کریں جب بھی سیدمنور حسن یا مولانہ فضل الرحمان سے طالبانی دہشتگردی کے حوالے سے کوئی سوال کیا جاتا ہے یہ دونوں کبھی طالبان کی مذمت نہیں کرتے اور نہ ہی دہشتگردی کا شکار ہونے والوں سے ہمدردی۔

طالبان کے مذاکرات کی پیشکش کا جواب 30 اپریل کی شب یوم شہدا پر پاکستان کے فوجی سربراہ نے بھرپور انداز میں دیا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہاہے کہ "الیکشن گیارہ مئی کوہوں گے، دہشتگردی کیخلاف جنگ کوصرف فوج کی جنگ سمجھناہمیں انتشارکی طرف لے جائے گا،پاکستان مزیدکسی انتشار کامتحمل نہیں ہوسکتا،۔ اُن کا کہنا تھاکہ ایک اہم سوال دہشت گردی کیخلاف جنگ ہے،کبھی یہ سوال نہیں اٹھایاگیاکہ یہ ہماری جنگ ہے،ایک سپاہی کاذہن اورمشن اس قسم کے شکوک کامتحمل نہیں ہوسکتا،کئی حلقے اس بحث میں الجھناچاہتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اورپاکستانی عوام آج اس جنگ کانشانہ ہیں،دہشت گردی کاناسوراب تک ہزاروں پاکستانیوں کی جان لے چکاہے،شہیدوں کے لواحقین اورزخمیوں کوشامل کرلیں توتعدادکئی گنابڑھ جاتی ہے،اگرکوئی ٹولہ ہم پراپنے نظریات مسلط کرناچاہے تواسے کس طرح برداشت کیاجاسکتاہے،ملک اورآئین سے بغاوت کبھی برداشت نہیں کی گئی،پاکستان اس کاہرگزمتحمل نہیں ہوسکتا، ہتھیاربندقومی دھارے میں شامل ہوناچاہتے ہیں توآئین کوتسلیم کریں تو انہیں خوش آمدید کہیں گے"۔

یہ پیغام ویسے تو جنرل کیانی کا ہے مگر یہ پیغام پوری پاک فوج کا ہے اور پوری پاکستانی قوم کا ہے۔ اس پیغام میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ ہماری جنگ ہے پوری قوم کی جنگ ہے اسلیے طالبان دہشتگردوں کی دہشتگردی ، ملک اورآئین سے بغاوت کبھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ طالبان دہشتگرد اور ان کے ہمدردوں کو پاکستانی قوم کی طرف سے یہ کھلا پیغام ہے کہ پہلے اپنی دہشتگردی بند کرو، ہتھیار ڈالو اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرو تو خوش آمدید ورنہ طالبان دہشتگردوں کو پاک فوج کا پیغام پوری پاکستانی قوم کا پیغام ہے۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485216 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More