سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے والد ماجد کا نامِ گرامی حضرت سید
احمد بخاری علیہ الرحمة ہے۔ ان کا آبائی وطن بخارا تھا۔سید احمد بخاری علیہ
الرحمة اپنے والد حضرت سید علی بخاری کے ہمراہ 607ہجری میں بعد عہدِ شمس الدین
التمش بدایوں تشریف لائے۔ اپنے والد کے مرید و خلیفہ بھی تھے۔ بدایوں میں محلہ
پتنگی ٹیلہ (قاضی ٹولہ) میں سکونت اختیار کیا۔ آپ بدایوں میں جامع مسجد شمسی کے
پہلے امام مقرر ہوئے۔ سلطان التمش نے بدایوں کے منصب قضا پر فائز کیا۔شب و روز
یادِ الٰہی میں مشغولیت ان کا شیوہ تھا۔ آپ کی شاد ی خانہ آبادی بی بی زلیخا
بنت سید عرب بخاری سے انجام پائی۔ جن کے بطن سے اپنے وقت کے امام الاولیاءمحبوبِ
الٰہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءتولد ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام
محمدرکھا تھا۔ ابھی آپ کمسن طالب علم ہی تھے، ایک روز آپ نے دروازے پر مولانا
نظام الدین کی صدا سنی۔ آپ نے باہر آکر دیکھا تو باہر ایک شخص کھڑا تھا اس نے
آپ کو سلام عرض کیا۔ السلام علیکم! مولانا نظام الدین ، اُسی دن سے آپ کی
مشہوری نظام الدین کے نام سے ہوئی۔آپ پانچ سال کے ہوئے تو والد ماجدکا وصال
ہوگیا۔سیدہ بی بی زلیخا جو خدا شناس و پارسا خاتون تھیں ۔وہ اپنی بیوگی اور لختِ
جگر کی یتیمی سے بے حد پریشان ودل گرفتہ نہ ہوئیں بلکہ انہوں نے نامساعدحالات
سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور فرزند دل بند کی تعلیم و تربیت کے لیے کمر بستہ
رہیں اور ان کی پرورش اور دینی و اخلاقی تربیت مادرانہ شفقت اور پدرانہ حوصلہ
مندی کے ساتھ کرنے لگیں۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ زلیخا رحمة اللہ علیہما نے
انتہائی افلاس اور تنگ دستی کے باوجود سوت کاٹ کاٹ کر اپنے ہونہار فرزند کی
تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ مرکوز رکھی۔ حضرت اس قدر ذہین تھے کہ سولہ سال کی
عمرِ شریف میں بدایوں شریف کے اکابر علماءو مشائخ سے دستار فضیلت حاصل کر لی ۔سولہ
سال ہی کی عمر تک سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءبدایوں میں رہے آپ نے چھ
پارے کلام اللہ کے اور تین کتابیں (ایک کو پڑھا اور دو سنیں) اور چھ باب عوارف
کے شیخ الشیوخ عالم حضرت گنج شکر بابا فرید الدین ؒ) سے پڑھے۔تمہید ابو شکور
سالمی بھی ساری کی ساری شیخ الشیوخ سے پڑھی۔ چنانچہ تمہید ابو شکور سالمی کے
درس دینے کا اجازت نامہ پایا۔ آپ کی دینی، فقہی اور دنیاوی علوم میں قبولیت اور
لیاقت کا یہ عالم تھا کہ اس دورکے بڑے بڑے علماءاور اہلِ شریعت و طریقت آپ کے
معترف تھے۔ ثقہ راویوں سے منقول ہے کہ جن دنوں سلطان المشائخ اجودھن میں شیخ
الشیوخ فرید الدین گنج شکر کے پاس رہتے تھے، آپ کے کپڑے بڑے میلے کچیلے رہتے
تھے ، وجہ یہ تھی کہ صابن نہ تھا کہ انہیں دھویا جائے ایک دن سید محمد بن مبارک
کرمانی کی دادی محترمہ نے سلطان المشائخ سے کہا،بھائی تمہارے کپڑے بہت میلے
کچیلے ہیں، پھٹ بھی گئے ہیں اگر مجھے دے دو تو میں انہیں دھو دوں اور ان میں
پیوند بھی لگا دوں۔سلطان المشائخ نے بڑی نرمی سے معذرت چاہی، دادی محترمہ نے
معذرت قبول نہ کی اور اپنی چادر پیش کی کہ اسے پہن لو جب تک میں کپڑے دھو
لوں۔سلطان المشائخ نے ایسے ہی کیا۔ دادی محترمہ نے کپڑے دھو کر اور پیوند لگا
کر شیخ المشائخ کو کپڑے واپس دیئے۔ شیخ المشائخ نے بڑی معذرت کرتے ہوئے، احسان
مندی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کپڑے پہنے۔سلطان المشائخ حضرت نظام الدین
اولیاءفرماتے ہیں کہ بچپن میں مولانا علاﺅ الدین سے بدایوں میں ”اصول “ پڑھ رہا
تھا ۔ ایک دن مسجد میں خلوت و تنہائی تھی وہ سبق پڑھ رہا تھا اس اثناءمیں میں
نے دیکھا کہ سنہری سانپ پھنکار تے ہوئے جا رہے ہیں۔ میں تجربتاً دیکھنے لگا ان
سب میں سے آخری سانپ چھوٹا سا تھا، وہ جا رہا تھا میں نے کہا کہ ذرا دیکھوں تو
سہی کہ یہ کیا ہے میں نے اس چھوٹے سانپ پر اپنی پگڑی ڈال دی۔میں نے دیکھا کہ
پگڑی کے نیچے سنہری تنکوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، میں نے پگڑی اٹھائی اور ان سنہری
تنکوں کو وہیں چھوڑ دیا۔
بدایوں شریف سے والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے اوریہاں
سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی
اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماءو فضلاءمیں ہونے لگا۔شروع دن سے ہی
آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھی تمام تر دینی و دنیوی علوم میں
اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفت کی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی
تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کے لیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی ایک
بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے
آستانہ عالیہ کی زیارت کے لیے وہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی
آپ نے ان سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ
پر فائزکر دے ان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں
دینِ حق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگے
کہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہت بڑے
ولی کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرت محبوبِ الٰہی
سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتا ہوں اور پھر ایک دن
ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کی زبانی حضرت خواجہ فرید الدین
چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات و کمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے
محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہ بیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے
اور اجودھن پہنچ کرحضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے
مشرف ہوئے۔حضرت صاحب علیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی
خصوصیات کا علم تھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے
کہ نظام الدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدین
بابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر ان کی
خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی اور خرقہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکر دہلی واپس
تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میں مشغول ہوکرمادی
دنیاکی تمام خواہشات اور آرزﺅں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے عبادات
اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اور اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی
انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگی کا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت
ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنے لگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے
لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دن موضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ
الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاں آپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں
رہنا نہیں چاہتاجہاں تیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری
جگہ ہے (واللہ علم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاءکا
شاندارعلاقہ ہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگاﺅں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس
متبرک مقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطان
آپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کی لیکن آپ
نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہ خلق بنا۔دور
دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعاﺅں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے حاضر ہونے لگے
یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت ہندوستان ہی نہیں بلکہ
دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔
حضرت محبوبِ الٰہی کی بارگاہ میں غریبوں اور عام انسانوں کو ہروقت حاضرہونے کی
عام اجازت تھی لیکن بڑے بڑے بادشاہوں کی یہ جرات نہیں تھی کہ آپ کے حضور حاضر
ہو سکیں۔ آپ بادشاہوں کے قرب کو پسند نہیں فرماتے تھے، سلطان بلبن جو ایک
دیندار حکمراں اور آپ کا معتقد تھا اسے بھی بالمشافہ ملاقات و زیارت کا شرف
کبھی حاصل نہیں ہوا۔ بادشاہ معز الدین کےقباد نے تو صرف اس وجہ سے حضرت کی
خانقاہ کے قریب اپنا محل تعمیر کروایا تھا کہ اسی طرح حضرت کا قرب حاصل ہوتا
رہے۔ سلطان کی بنوائی ہوئی جامع مسجد میں آپ نماز کے لیے تشریف لےجاتے تھے لیکن
سلطان سے ملاقات کے لیے آپ اس کے محل میں کبھی نہیں گئے۔ سلطان جلال الدین خلجی
بھی آپ کا بے حد عقیدت مند تھا لیکن اسے بھی کبھی ملاقات کا موقع آپ نے عطا
نہیں فرمایا۔ اپنے زمانہ کے طاقتور شہنشاہ ہند علاءالدین خلجی نے آپ کی زیارت
کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ جب علاءالدین کا تیسرا بیٹا مبارک شاہ اپنے ولی
عہد بھائی خضر خان کو قتل کرکے بادشاہ بن گیا تو حضرت کو بے حد صدمہ پہنچا
کیونکہ شہزادہ حضرت کا جان و دل سے معتقد اور مرید تھا ۔مبارک شاہ کو حضرت سے
اس لیے بھی عداوت تھی۔چونکہ آپ کی خانقاہ میں محافل سماع کا اہتمام ہوتارہتا
تھا اس لیے آپ کی بزرگی اور مقوبلیت سے حسد کرنے لگا۔ علماءدربار سماع کے جواز
و عدم جواز کی بحث کیاکرتے تھے اور حضرت سے اختلاف کے بہانے بادشاہ کے کان
بھرتے رہتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دنیا پرست اور دربار دار علماءکی
حضرت محبوبِ الٰہی جیسی علمی و روحانی شخصیت کے سامنے عوام میں کوئی قدروقیمت
نہ رہ گئی تھی۔مبارک شاہ حضرت سے عداوت پر اتر آیا اس نے حکم جاری کیاکہ فلاں
تاریخ کو نظام الدین شاہی دربار میں حاضر ہوکر ان پر عائد علماءکے الزمات کا
جواب دیں۔
محبوبِ الٰہی کی روحانی طاقت کا کرشمہ ایسا ہواکہ اسی تاریخ کو مبارک شاہ کو اس
کے معتمد غلام خسرو خان نے قتل کر دیا اور جب غیاث الدین تغلق ہندوستان کا
بادشاہ بنا تو اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز پر ایک مذہبی مجلس منعقد کی
تاکہ اس میں حضرت کے مخالف درباری علماءکے ذریعے حضرت کو نیچا دکھایا جا
سکے۔حضرت محبوبِ الٰہی اس مجلس میں تشریف لے گئے اور مباحثے میں علماءکے
الزامات کا ایسا مدلل جواب دیاکہ وہ جید علماءجو اپنے علم و فضل پر نازاں تھے
لاجواب ہو کر رہ گئے۔بادشاہ غیاث الدین تغلق کو بے حد شرمندگی ہوئی چونکہ اسی
دن اسے ایک مہم میں بنگال روانہ ہونا تھا اس لیے اس نے جاتے جاتے حکم جاری
کیا۔حضرت اس کے دہلی واپس آنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں آپ کے
عقیدتمندوں کو اس شاہی حکم نے رنجیدہ و فکر مند کر دیالیکن آپ نے اس کو کوئی
اہمیت نہ دی اور بدستور اپنے معمولات میں مشغول رہے لیکن اس وقت آپ کے مریدوں
اور حلقہ بگوشوں کی پریشانی حد سے بڑھ گئی جب بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ کر ایک
عارضی محل میں مقیم ہواکیونکہ اگلے دن اس کے فاتحانہ استقبال کے لیے شہر میں
زبردست تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ عقیدت مندوں کے فکر و تشویش ظاہر کرنے پر آپ نے
فرمایا” ہنوز دلی دور است“ اسی رات کو وہ عارضی محل گر پڑا اور بادشاہ ملبے میں
دب کر مر گیا۔ آپ کا تاریخی جملہ ہنوز دلی دور است ضرب المثل بن گیا۔حضرت کا
دستر خوان اتنا وسیع تھاکہ خانقاہ کے لنگر میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا کھانا
تیار ہوتا تھا۔آپ کے دستر خوان سے لاتعداد مہمان و مسافر طرح طرح کی نعمتوں سے
سیر ہوتے تھے لیکن خود محبوبِ الٰہی ہمیشہ روزے سے رہتے تھے اور تھوڑی سی جو کی
روٹی اور اُبلی ہوئی سبزی کے علاوہ کبھی کسی عمدہ غذا کو ہاتھ نہیں لگایا،
فرماتے تھے دنیا میں ہزاروں غریبوں کو کھانا میسر نہیں ایسے میں انہیں کیسے
بھول سکتا ہوں۔آپ کے دربار سے غریبوں محتاجوں اور ضرورتمندوں کی دل کھول کر
امداد کی جاتی تھی لنگر خانہ کا خرچ شاہانہ تھا لوگ حیران تھے کہ یہ سب کیسے
چلتا ہے آپ کی عظمت و محبوبیت حاسدین کے لیے بہت تکلیف دہ تھی وہ لوگ حیران
رہتے کہ محبوبِ الٰہی کو آخر اتنی دولت ملتی کہاں سے ہے۔مریدوں اور عقیدتمندوں
کے نذرانوں سے تو اتنا بڑا نظا م چلنے سے رہا۔ حضرت نے خانقاہ میں پانی کے
مناسب انتظام کے لیے باولی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ تعمیر کا کام تیزی سے شروع
ہوگیا، پانی نکل چکا تھا اب تعمیر کا کام چل رہا تھا ہزاروں مزدور کاریگر کام
کر رہے تھے دن کو ہی نہیں رات کے وقت بھی بڑے بڑے چراغوں کی روشنی میں کام
چلتارہتا تھا ایک دن بادشاہ نے شہر میں تیل کے تاجروں کو حکم دیاکہ خانقاہ میں
تیل کی فراہمی نہ کی جائے ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔ بازار سے تیل ملنا بند ہوا
تو رات کو روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث کام روکنے کی نوبت آگئی آپ کے علم
میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے باولی کا پانی چراغوں میں بھر کر روشنی کر
دی۔پانی آپ کی کرامت سے تیل بن گیا۔
حضرت شیخ نصیر الدین روشن چراغ ؒ سے روایت ہے کہ اپنے وقت کے بڑے عالم دین اور
بزرگ حضرت قاضی کاشانی ایک دن اس قدر بیمار ہوگئے کہ ان کے بچنے کی کوئی امید
باقی نہی رہی حضرت محبوبِ الٰہی کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا توعیادت کے لیے
تشریف لے گئے اس وقت قاضی صاحب بیہوش تھے لیکن حضرت کے قریب آتے ہی ہوش میں
آگئے اور اس طرح صحت مند نظر آنے لگے کہ جیسے کبھی بیمارہی نہ ہوئے ہوں،
حالانکہ تھوڑی دیر پہلے تک ان کی ایسی حالت تھی کہ لوگ ان کی زندگی سے مایوس ہو
چکے تھے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے ایک مرید نے آپ کی دعوت کی اس موقع پر محفلِ
سماع کے لیے مرید نے کچھ قوالوں کو بلوایا جب محفلِ سماع شروع ہوگئی تو بہت سے
لوگ وہاں جمع ہوگئے، کھانے کا وقت ہوا تو میزبان کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کھانا
تو صرف چند مہمانوں کے لیے ہی تیار کرایا تھا جب کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع
ہو گئے ان میں زیادہ تر اصحاب حضرت محبوبِ الٰہی کے ارادتمند اور خود میزبان کے
شناسا تھے۔ حضرت نے میزبان کی پریشانی محسوس کر لی اور فرمایا سب کے ہاتھ
دھلواﺅ اور دستر خوان پر کھانے کے لیے بیٹھاﺅ۔ پھر اپنے دستِ مبارک سے آپ نے
روٹیوں کے چار چار ٹکرے کرکے دستر خوان پر رکھے اور فرمایا ”بسم اللّٰہ !“اس کے
بعد پورے مجمع نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بھی بہت سا بچ گیا۔قصبہ سرساوا
میں ایک رئیس اور عالم و فاضل شخص کے مکان میں ایک دن اچانک آگ گئی جس میں ان
کی جاگیر کے کاغذات اور شاہی فرمان بھی جل گئے۔ اس حادثہ سے پریشان ہوکر وہ
صاحب بھاگے بھاگے دہلی آئے تاکہ جاگیر کی دوسری سند اور شاہی فرمان حاصل کر
سکے۔ بڑی کوششوں سے انہیں مطلوبہ فرمان اور کاغذات مل گئے ۔وہ خوشی خوشی دربار
سے واپس آئے لیکن راستے میں دہلی کی بھیڑ بھاڑ میں ان کے کاغذات کہیں گر گئے
،بہت تلاش کیا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا۔بےحد رنجیدہ ہوئے کہ کسی نے انہیں حضرت
محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔رنج و غم میں ڈوبے ہوئے وہ
صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدد کی درخواست کی۔حضرت نے ان کی روداد سن
کر خوشدلی سے فرمایا: مولانا کچھ نذر کرو تو تمہارا کام کروں، مولانا نے عرض
کیا جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ قبول فرمائیں، حضرت نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں
البتہ بازار جاکر تھوڑا حلوہ خرید لاﺅ ۔ مولانا دوڑے ہوئے خانقاہ کے قریب ایک
حلوائی کی دکان پر پہنچے اور کچھ درہم اسے دے کر کہا۔اس رقم کا جتنا حلوہ آتا
ہو دے دو۔ حلوائی نے حلوہ تولا اور پاس پڑے ردی کاغذوں سے ایک کاغذ اٹھایا اور
چاہاکہ اسے پھاڑ کر حلوہ باندھ دے کہ انہوں نے دیکھاکہ وہ انہیں کاکاغذ تھاجسے
وہ کھو چکے تھے۔فوراً وہ کاغذ اور حلوہ لے کر حضرت رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں
حاضر ہوئے اور جوشِ عقیدت سے قدم بوس ہوگئے۔آپ کی زبان مبارک سے جو بات نکل
جاتی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری ہو جاتی تھی۔سیر الاولیاءمیں مذکور ہے کہ
آپ کے یہاں حاضری دینے والے اکثر مٹھائیاں وغیرہ خرید کر تحفتاً آپ کی نذر کیا
کرتے تھے ۔ایک بار اس ارادے سے کچھ لوگ آپ کے پاس آ رہے تھے، ان میں ایک مولانا
صاحب بھی تھے، انہوں نے سوچا کہ سب کے تحفے ایک ساتھ پیش ہوں گے، شیخ صاحب کا
خادم سب کو اٹھا کر لے جائے گا، ایسے میں کسی کو کیا پتہ چلے گاکہ کس نے کیا
دیا۔انہوں نے ایک پڑیا میں بہت سی خاک بھر کر ہاتھ میں لے لی۔جب یہ لوگ حضرت کی
خدمت میں حاضر ہوئے تو سب نے اپنے اپنے تحفے ایک جگہ رکھ دیے۔خادم یہ سب اٹھاکر
لے جانے لگا تو آپ نے مولانا صاحب کی پڑیا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔اسے چھوڑ
کر سب لے جاﺅ، اس میں میری آنکھوں کا سرمہ ہے۔مولانا صاحب نے توبہ کی اور
مریدوں کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ حضرت محبوبِ الٰہی کے روحانی دربار میں ہندو
مسلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں تھی، آپ کا فیضانِ رحمت سب کے لیے تھا۔آپ ساری
عمر تجر و بسر کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ آج دنیا داری سے لے کر اللہ تعالیٰ کی
عبادت اور لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور ان کے دکھ درد دور کرنے میں مشغول
رہے، البتہ آپنے اپنی ہمشیرہ کی اولاد کو اولاد کی طرح پالا اور تعلیم و تربیت
سے آراستہ فرمایا۔آپ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت خواجہ نصیر الدین روشن چراغ کو
اپنا خلیفہ نامزد فرما دیا تھا۔انہیں خرقہ خلافت اور تبرکات تفویض فرماتے ہوئے
فرمایا تھاکہ تمہیں ان ہی لوگوں میں رہنا اور لوگوں کے ظلم و ستم کو برداشت
کرنا ہے۔آپ نے 18 ربیع الثانی 725 ہجری بمطابق 1324 عیسویں کو اس دارِ فانی سے
پردہ فرمایا۔ |