ماں کے پیٹ میں کیاہے ؟۔(عاشقِ اکبر)۔

مختصر سوانح حیات:
علامہ عبد المصطفے اعظی علیہ رحمۃ اللہ القوی کرامات صحابہ میں بیان فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام''عبدا للہ'' آپ کی کنیت ''ابوبکر '' اور لقب ''صدیق و عتیق''ہے ،آپ قریشی ہیں او رساتویں پشت میںآپ کا شجرہ نسب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتاہے ،آپ عام الفیل کے ڈھائی برس کے بعد مکہ مکرمہ میںپیدا ہوئے ، آپ اس قدر جامع الکمالات ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے لوگوں میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں،آزاد مردوں میں سب سے پہلے اِسلام قبول کیا اور تمام جہادوںمیں شریک ہوئے اور تمام فیصلوںمیں شہنشاہ مدینہ ،قرار قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وزیرو مشیر رہے ،دو برس تین ما ہ گیارہ دن مسند خلافت پر رونق اَفروز رہے اور22جمادی الآخر 13ھ منگل کی رات وفات پائی ،آپ کی نماز جنازہ امیر المؤمنین حضر ت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور روضئہ منورہ میںحضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پہلوئے اَقدس میںدفن ہوئے۔
(کرامات صحابہ ،ص43)

ماں کے پیٹ میں کیاہے ؟:
اللہ ربّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی عنایت سے صَحابہئ کرام علیہم الرضوان کے بھی غیب کی خبریں بتانے اوران کی کرامتوں کے واقِعات کتابوں میں ملتے ہیںچُنانچِہ کروڑوں مالِکیّوں کے عظیمُ المرتبت پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام مالک بن اَنس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مشہورِ زمانہ مجموعہ احادیث'' مُوَئطّاامام مالِک'' میں فرماتے ہیں،حضرتِ سیِّدُنا عُر وہ بن زُبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ا ُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا،خلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اپنے مرضِ وفات میں انہیں وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، میری پیاری بیٹی ! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج مِیراث کا مال ہے تمہارے دو بھائی( عبدالرحمٰن ا ور محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور تمہاری دو بہنیں (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قراٰنِ مجید کے حکم کے مطابِق تقسیم کر لینا ۔ یہ سُن کر حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی، ابّا جان! میری توایک ہی بہن'' بی بی اَسمائ'' ہیں، یہ میری دوسری بہن کون ہے؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ارشاد فرمایا ، وہ (تمہاری سَوتیلی والِدہ)'' حبیبہ بنتِ خَارِجَہ'' (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے پیٹ میں ہے، میرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔
( المُؤطّالِلامامِ مالک ج ٢ ص ٢٧٠ حدیث ١٥٠٣ )

اِس حدیث کے تَحت حضرتِ سیِّدُنا علّامہ محمد بن عبدُالْباقی زُرْقانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانیتحریر فرماتے ہیں ، چُنانچِہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام'' اُمِّ کُلثُوم'' رکھا گیا۔( شرحُ الزُّرقانی علی المُؤَطّا ج٤ص٦١)
محترم قارئین!ا ِس حدیث مبارَک کے بارے میں حضرتِ علّامہ تاجُ ا لدّین سُبکی علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی حجۃ اللہ علی العالمین میں بیان فرماتے ہیں کہ اس حدیث سےخلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتیں ثابِت ہوتی ہیں:
(١) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبل از وفات ہی یہ علم ہو گیا تھا کہ میں اِس مرض میں دنیا سے رِحلَت( یعنی کُوچ) کرجاؤں گا ، اسی لیے توبوقتِ وصیّت فرمایا، میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج میراث کا مال ہے'' (٢) جو بچّہ پیدا ہوگا وہ لڑکی ہے۔
( حُجَّۃُاللّٰہِ علَی العالَمِین ص٦١٢ مرکز اہلسنّت برکاتِ رضا گجرات ہند)

نگاہ کرامت:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اِزالۃ الخفاء میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامت کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری وفات کے بعد جو قبائل عرب اسلام سے پھر گئے ان میں قبیلہ کندہ بھی تھا چنانچہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہنے اس قبیلہ والوں سے بھی جہادفرمایا اورمجاہدین اسلام نے ا س قبیلہ کے سردار اعظم یعنی اَشْعَثْ بن قَیْس کو گرفتار کر لیا اورلوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کو دربار خلافت میں پیش کیا،امیر المؤمنین کے سامنے آتے ہی اشعث بن قیس نے بآواز بلنداپنے جرم اِرتِداد کا اقرار کرلیا اورپھر فوراً ہی توبہ کر کے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا امیر المؤمنین نے خوش ہو کراس کا قصور معاف کر دیا اوراپنی بہن حضرت ام فرو ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا نکاح کر کے اس کو اپنی قسم قسم کی عنایتوں اور نوازشوں سے سر فراز کر دیا،تمام حاضرین دربار حیران رہ گئے کہ مرتدین کا سردار جس نے مرتد ہوکر امیر المؤمنین سے بغاوت اورجنگ کی اور بہت سے مجاہدین اسلام کا خون ناحق کیا ، ایسے خونخوار باغی اوراتنے بڑے خطر ناک مجرم کو امیر المؤمنین نے اس قدر کیوں نوازا ؟ لیکن جب حضرت اشعث بن قیسرضی اللہ تعالیٰ عنہنے صادق الاسلام ہو کر عراق کے جہادوں میںاپنا سر ہتھیلی پررکھ کر ایسے مجاہدانہ کارنامے انجام دیے کہ عراق کی فتح کا سہرا انہیں کے سر رہا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میںجنگ قادسیہ اورقلعہ مدائن و نہاوند کی لڑائیوں میںانہوںنے سرفروشی و جانبازی کے جو حیر ت ناک مناظر پیش کیے انہیںدیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرناپڑا کہ واقعی امیر المؤمنین حضر ت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہکی نگاہ کرامت نے حضرت اشعث بن قیسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات میںچھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا ، وہ کسی اور کو نظر نہیںآئے تھے یقینا یہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے ۔(ازالۃالخفاء ،مقصد٢ ،ص٣٩)

اسی لئے مشہورصحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام طور پر فرمایا کرتے تھے کہ میرے عمل میںتین ہستیاں ایسی گزری ہیں جو فراست کے بلندترین مقام پر پہنچی ہوئی تھیں،

اول :۔۔۔۔۔۔امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ ان کی نگاہ کرامت کی نوری فراست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات کوجانچ لیا اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہکو اپنے بعد خلافت کے لئے منتخب فرمایا ،جس کو تمام دنیا کے مورخین اوردانشوروں نے بہترین قرار دیا۔

دوم :۔۔۔۔۔۔حضرت موسی علیہ السلام کی بیوی حضرت صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روشن مستقبل کو اپنی فراست سے بھانپ لیا اور اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ ا س جوان کوبطور اجیر کے اپنے گھر پر رکھ لیں جبکہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں فرعون کے ظلم سے بچنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے ہجرت کر کے مصر سے مدین پہنچ گئے تھے چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کواپنے گھر پر رکھ لیا اوران کی خوبیوں کو دیکھ کر اوران کے کمالات سے متاثر ہوکر اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ان سے نکاح کر دیا اوراس کے بعد اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت و رسالت کے شرف سے سرفراز فرمادیا۔

سوم :۔۔۔۔۔۔عزیز مصر کہ انہوںنے اپنی بیوی حضرت زلیخا کوحکم دیا کہ اگر چہ حضرت یوسف علیہ السلام ہمارے زرخرید غلام بن کر ہمارے گھر میںآئے ہیں مگر خبردار تم ان کے اعزاز و اکرام کا خاص طور پر اہتمام و انتظام رکھنا ،کیونکہ عزیز مصر نے اپنی نگاہ فراست سے حضرت یوسف علیہ السلام کے شاندار مستقبل کو سمجھ لیا تھا کہ گویا آج غلام ہیں مگر یہ ایک دن مصر کے بادشاہ ہوں گے ۔(کرامات صحابہ کرام ،ص٤٩)

مہمان نوازی:
حضرت عبدا لرحمن بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہبارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر لائے اورخود حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوگئے اورگفتگو میں مصروف رہے ،یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ نے دسترخوان نبوت پر کھا لیااور بہت زیادہ رات گزر جانے کے بعد مکان پر تشریف لائے ان کی زوجہ نے عرض کی کہ آپ مہمانوں کو گھر پر چھوڑ کر کہاں تشریف لے گئے تھے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیااب تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا ؟ توزوجہ نے عرض کی کہ کھانا پیش کیاتھا مگر انہوںنے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کر دیا ،یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے عبدالرحمن پر بہت زیادہ خفاء ہوئے پھر آپ خود مہمانوں کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھ گئے اورسب نے خوب شکم سیر ہو کر کھانا کھالیا، ان مہمانوںکا بیان ہے ،کہ جب ہم کھانے کے لئے برتن سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتاتھا اس سے کہیںزیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اورجب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہو گیا جب یہ معاملہ آپ کی زوجہ نے دیکھا تو قسم کھا کر کہا یہ کھانا تو پہلے سے کئی زیادہ گناہے،پھر آپ ا س کھانے کو لے کر بارگاہ رسالت میں لے آئے جب صبح ہوئی تو اَچانک مہمانوں کا ایک قافلہ دربار رسالت میںحاضر ہواجس میںبارہ قبیلوں کے بارہ کے سردار تھے ،اور ہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے شُتَر سوار بھی تھے ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایا اور قافلہ کے تمام سردار اور تمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے سے سیراب ہوا ،لیکن پھر بھی اس برتن سے کھانا ختم نہیں ہوا۔ (بخاری شریف ج ا ص ٥٠٦)

مدفن:
حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ کو کہاں دفن کیاجائے ؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو شہدائے کرام کے قبرستان میںدفن کرنا چاہیے اوربعض حضرات کاخیال تھا کہ آپ کی قبر جنت البقیع میں بنائی جائے لیکن میر ی خواہش تھی کہ آپ میرے اِسی حجرہ میں سپرد خاک کیے جائیں جس میںحضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر اَنور ہے یہ گفتگوہو رہی تھی کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا اورخواب میں یہ آواز میں نے سنی کہ کوئی کہہ رہاہے کہ'' ضَمُّوا لْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ !(یعنی حبیب کو حبیب سے ملا دو )خواب سے بیدار ہو کر میںنے لوگوں سے اس آواز کا ذکر کیاتو بہت سے لوگوںنے کہا یہ آواز ہم لوگوں نے بھی سنی ہے اور مسجد نبوی کے اندر بہت سے لوگوں کے کانوںمیںیہ آواز آئی ہے اس کے بعد تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اس بات پر اتفاق ہو گیاکہ آپ کی قبر اطہر روضہ منورہ کے اندر بنائی جائے ،اس طرح آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پہلوئے اقدس میں مدفون ہو کر اپنے حبیب کے قرب خاص سے سرفرازہوگئے۔(کرامات صحابہ ،ص٥٢)
اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہم سب کی بے حساب مغفرت ہو:امین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371055 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.