بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(21ربیع الثانی :یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)
حضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ،لمبے
لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی
خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے
بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس
کااپنانام ’’ہرقل‘‘تھاجو مذہباََ عیسائی تھااور گزشتہ آسمانی کتب کا عالم
تھادربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں
لے گیا جس کی دیوار وں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے
نبی کی شبیہ پہچانو،ایک پر انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ
کی شبیہ مبارک ہے۔ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ
کلبی ؓنے کہا کہ یہ حضرت ابوبکرؓاوریہ حضرت عمرؓ کی ہے۔ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب
میں لکھاہے کہ اﷲ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔اس واقعہ
سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی
تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔
محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود
اس کے اولین حکمران بنے،حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے
اولین سیاسی جانشین بنے۔573ء میں مکہ مکرمہ میں پیدائش ہوئی،اسلام لانے سے قبل
آپ کا نام ’’عبدالکعبہ‘‘تھا،مسلمان ہونے پر محسن انسانیتﷺ نے آپ کو ’’عبداﷲ‘‘سے
موسوم کیاتاہم آپ کی کنیت ہی آپ کی پہچان رہی اور آپ کو ’’ابوبکر‘‘کے نام سے
یاد کیاجاتارہا،عربی میں بکر’’جوان اونٹ ‘‘کوکہتے ہیں ،حضرت ابوبکر چونکہ
اونٹوں میں نہ صرف یہ کہ گہری دلچسپی رکھتے تھے بلکہ ان کی عوارض و علاج معالجہ
اور دیگر امور میں بھی گہرا درک وشغف تھا اس لیے اہل مکہ آپ کو ’’ابوبکر‘‘یعنی’’
اونٹوں سے محبت کرنے والا‘‘کہاکرتے تھے۔آپ کے والد کانام ’’عثمان‘‘اور کنیت
ا’’بوقحافہ‘‘ تھی ،والدہ محترمہ کا اسم گرامی’’ام الخیر سلمی‘‘تھا۔والد اور
والدہ دونوں کی طرف سے چھٹی پشت پر حضرت ابوبکرصدیق کانسب محسن انسانیتﷺسے مل
جاتاہے۔قریش کے قبیلہ ’’بنوتمیم‘‘سے تعلق تھااور اپنے قبائلی منصب ،خون
بہااوردیت کی رقوم کی جمع و ادائگی و ضمانت ،پر آپ زمانہ جاہلیت سے فائز رہے
تھے اور قتل کے مقدمات میں آپ کی رائے وثالثی آخری فیصلے کے طور پر تسلیم کی
جاتی تھی۔بچپن سے ہی شریف النفس اورشرک وکبائر سے مجتنب تھے،محسن انسانیت ﷺ سے
دو سال چھوٹے تھے اور اوائل عمری سے ہی دونوں کے درمیان گہرے مراسم رہے جو بعد
میں ایمان سازاور جنت کے سنگ ہائے میل بن گئے۔
مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،حضرت بلال رضی اﷲ تعالی عنہ سمیت
متعددمسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا، سفر معراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے
’’صدیق‘‘کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ ،ثانی الثنین کا شرف بھی آپ
کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے
شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے
بعد والے حج میں امیرحج مقررہوئے،علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت
کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم
پرمرہم رکھا۔مسلمانوں کے خواص نے نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن
لیااور عوام نے اس فیصلے کی تائید کردی۔ اگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان
کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوں نے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر
اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر
تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارک دھرتے تھے،حضرت ابوبکر احترام
نبوی میں وہاں بیٹھے جہاں قدمین ہوتے تھے،آج تک علماء ممبر کی آخری سیڑھی پر
نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت
صدیقی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا
شروع کردیا۔محسن انسانیت ﷺ نے انیس سالہ نوجوان ’’اسامہ بن زید‘‘کی قیادت میں
ایک لشکر تیار کیا تاکہ رومیوں سے سفیررسولﷺ کے قتل کا قصاص لیاجاسکے،یہ لشکر
روانگی کے لیے پابہ رکاب تھا کہ وصال نبوی کا سانحہ بجلی بن کر مسلمانوں پر آن
گرا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ نے اقتدارکی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اس
لشکر کی روانگی کے احکامات صادر کر دیے،بہت سے لوگوں نے اختلاف کیااور حالات کی
نزاکت کے باعث اس لشکرسپاہ کو دارالخلافہ میں رہنے کی رائے پیش کی۔حضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ نے فیصلہ نبویﷺ سے ایک بال برابر بھی روگردانی سے
انکارکر دیااور ایک منزل تک پاپیادہ اس لشکر کے ہمراہ دوڑتے ہوئے
گئے۔امیرلشکرحضرت اسامہ بن زید کو نصیحتیں فرمائیں کہ’’عورتوں،بچوں اور بوڑھوں
کو قتل نہ کرنا،لاش کا مثلہ نہ بنانا،دشمن کے ساتھ خیانت،بدعہدی اور دھوکہ بازی
نہ کرنا،پھل دار درختوں اور فصلوں کو نہ کاٹنا،جانوروں اور آبادیوں کو ہلاک نہ
کرنا،عبادت گاہوں اور ان میں مصروف عابدوں سے کوئی چھیڑچھاڑ نہ کرنااور جولوگ
اسلام قبول کر لیں ان کے جان ،مال اور عزت و آبرو کا خیال رکھنا‘‘۔
وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم
کھلااسلام سے بغاوت کردی،اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر
مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوۃ
دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر
چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو
خود قرآن نے سورۃ حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں
ہوا،عرب کے بدوی قبائل فتح مکہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی
تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔ پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو
دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی
جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجؤں کی
طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات
ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔اکثر قبائل نے
زکوۃ کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم اداکردیاکرتے تھے
لیکن ان کے خلفا کو زکوۃ ادانہیں کریں گے۔ بنوعبس، بنوذیبان اور بنوبکر اس
انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوۃ کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے
مدینہ طیبہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوۃ سے ہمیں رخصت دے
دی جائے ،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی
مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ
حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین کے حق میں تھی لیکن حضرت
ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوۃ کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں
لڑوں گا۔اس وقت اگر خلیفہ اول زکوۃ میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج
کہا جاسکتا تھا کہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی
ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن
حضرت ابو بکر کی ایک ’’ناں‘‘ نے قیامت تک کے لیے تحریف دین کے دروازے بند کر
دیے۔منکرین زکوۃ اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی
چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے
قبائل تک انکا تعاقب کیا۔
طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے
ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت
آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور
شکست خوردہ منکرین زکوۃ بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر
ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک
لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا’’بزاخہ‘‘کی وادی میں گمسان کا رن پڑا ،مرتدین
کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے
توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت
بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا
رہنے والا تھا۔اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر
دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ’’کذاب‘‘کالقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت
مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل کوالگ الگ دستے دے کرمسیلمہ
کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید
اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی
تیاریاں شروع کر دیں۔مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود
بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان
مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے
کہ جس ’’وحشی‘‘نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے
کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔ |