سیاست کی الف، بے۔۔۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست کی الف، بے کا بھی پتا نہیں ، شائد وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں سچائی ، ایمان داری، حب الوطنی ا ور قانون کی بالا دستی جیسے بے معنی الفاظ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ نہ بکنے والا ، نہ جھکنے والا کے دعوے صرف نعروں تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔ جو بکنا اور جھکنا جانتے ہیں وہ خریدنا اور جھکانا بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ووٹروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح خرید لیا جاتا ہے اور جو نہ بکنا چاہے اُسے جھکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے سیاست کی الف اور بے۔ جسے سب پرانے پاپی سیاست دان تو جانتے ہیں لیکن عمران خان نہیں جانتا۔ اُسے نہیں معلوم کہ اپنے مخالف کو کیسے ڈرا دھمکا کر اپنے حق میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ یہ جانتا ہے کہ ایک مجبور یا بے ضمیر کے ایک ووٹ کی کیا قیمت ہے۔وہ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ لوگ تبدیلی کے نام پر اُس کے ہاتھ میں بعیت کیئے ہوئے ہیں اور یہ لوگ آخری دم تک اُس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔لیکن ۔۔۔!!! یہ عمران خان کی بھول ہے ۔ لوگ راتو رات اپنی وفاداریاں کیسے بدلتے ہیں یہ بات عمران خان کو یا تو معلوم نہیں یا پھر وہ ان باتوں پر کان نہیں دھر رہا۔

ابھی کل کی بات ہے ۔ میری ملاقات ایک چوہدری صاحب سے ہوئی ۔ بات سیاست کی طرف چل نکلی ۔ میں نے موصوف سے اُس کی سیاسی وابستگی جاننے کے لیئے پوچھا کہ آپ کس کی حمایت کر رہے ہیں؟ فرمانے لگے کہ کل تک تو ہم PTI کے ساتھ تھے لیکن اب ہم PML(N) کے ساتھ ہیں۔میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ ایک دن میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی؟ آپ تو PTI کو بھر پور سپورٹ کر رہے تھے۔(میں اُن کی PTI سے وابستگی کا پہلے سے علم رکھتا تھا) چوہدری صاحب نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے۔ PML(N) کی حمائت کرنا میری مجبوری بن گئی تھی۔ ۔۔ مجبوری۔۔۔؟؟؟ کیسی مجبوری۔۔۔!!! میں نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔چوہدری صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے۔۔۔کل رات کو میرے دروازے پر تین سو کے قریب بندہ آکر کھڑا ہو گیا تھا جس میں اس علاقے کے چند بڑے معتبر لوگ بھی شامل تھے اور وہ ایسے لوگ تھے جو کبھی اپنے رشتہ داروں کے جنازوں پر بھی جانا گوارہ نہیں کرتے۔جب میں نے ان کو اپنی چمچماتی لینڈ کروزر گاڑیوں سے اُتر کر اپنے دروازے پر کھڑا پایا تو مجھ سے انکار نہیں ہو سکا۔اس لیئے میں نے اپنے پانچ سو کے قریب رشتہ داروں اور ساتھیوں سمیت اُن کی حمائت کا اعلان کر دیا۔۔۔ لیکن اس میں اس قدر مجبور ہونے والی کون سی بات تھی؟؟؟۔میں نے ایک بار پھر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔تم نہیں جانتے ان سیاست کے کھلاڑیوں کو۔ یہ آج تو میرے دروازے پر ووٹ مانگنے آئے ہیں کل کو اگر یہ جیت گئے تو مجھے ان کی مخالفت کے بدلے میں معافیاں مانگنے کے لیئے ان کے دروازوں پر جانے کتنی بار جانا پڑے۔۔۔ معافی کس بات کی۔؟ میں نے پھر سوال کیا۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ دریا میں رہنا ہو تو مگرمچھوں سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے۔یہ سیاسی لوگ مگر مچھ ہوتے ہیں اس کے ساتھ پنگا نہیں لینا چاہئے۔ میں اس علاقے کارہنے والا ہوں میرے عزیز رشتہ دار اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میرے بچے سکول، کا لج جاتے ہیں اس لیئے مجھے اپنی عزت اور جان کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزو اقارب کی عزت اور جان کی پرواہ بھی کرنی پڑتی ہے۔بس یہی میری مجبوری ہے۔انسان اتنا کمزور اور بزدل ہوتا نہیں جتنا اُسے اُس کے ساتھ جڑے ہوئے رشتے بنا دیتے ہیں۔۔۔

چوہدری صاحب واقع ہی نا تو اتنے کمزور تھے اور نہ ہی بزدل لیکن آج وہ مجھے کمزور بھی لگ رہے تھے اور بزدل بھی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سیاست کی الف، بے جاننے والے یہ باعزت شرفاءمستقبل میں اُن کے لیئے کبھی بھی کوئی مشکل پیدا کر سکتے ہیں۔ تھانے کچہریوں میں اُن کا بڑا اثرورسوخ ہے جسے وہ کبھی بھی استعمال کر کے اُنہیں رسوا کر سکتے ہیں۔جو سیاست دان ایک بار اسمبلی میں پہنچ جائے وہ چاہے کسی معمولی خاندان سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو پھر وہ معمولی نہیں رہتا۔اسمبلی ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سب کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ سائیکل پر ووٹ مانگنے والے اسمبلی سے واپسی پر پراڈو سے اُترتے ہیں۔ جس کا پہلے پانچ مرلے کا گھر ہوتا ہے وہ چند سالوں میں ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک بن جاتا ہے۔ جس کی پہلے دودھ دہی کی دوکان ہوتی ہے وہ اپنی فیکٹری لگا لیتا ہے۔جو ایک چپراسی تک بھرتی نہیں کروا سکتا وہ اپنے کئی رشتہ دار پولیس، انکم ٹیکس، ایکسائز،کسٹم اور دیگر مال بنانے والے اداروں میں بڑی آسانی سے بھرتی کروا لیتا ہے۔کیونکہ وہ سیاست کی الف ،بے کو جان چکا ہوتا ہے اور یہی الف، بے ایک معمولی سے انسان کو بہت بڑا آدمی بنا دیتی ہے ۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100778 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.