”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے
اوقات“یہ ایک مصرعہ ہے جو کہ عام استعمال میں ہے اور جسے دیکھو اس مصرعے کو
لازمی پڑھتا بولتا یا لکھتا ہے کہ جب بھی مزدوروں غریبوں یا ناداروں کے
حوالے سے بات کی جاتی ہے ارور اس میں دکھاوا زیادہ اور خلوص کم دکھائی دیتا
ہے۔ لیکن اگر اس مصرعے کی گہرائی اور تلخی کو محسوس کیا جائے تو نوے فیصد
لوگ بالخصوص پاکستانی اس تلخ تجربے سے ہر ورز گزرتے ہیں جبکہ ہم صرف اور
صرف ایک دن یکم مئی لیبر ڈے(مزدوروں کا عالمی دن) کے طور پر مناکر اپنا فرض
ادا کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں اس دن ٹی وی چیلنز پر اینکرز حضرات چند بڑے
بڑے لیڈرز سیاستدانوں یا مراعات یافتہ طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ٹاک شوز کا
انعقاد کرتے ہیں اور گرما گرم بحث و مباحثہ ہوتا ہے مزدوروں کے سب سے زیادہ
خیر خواہ اور ٹھیکیدار ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ان میں سے
کوئی ایک بھی غربت کی چکی میں پسا ہوتا ہے اور نہ ہی فاقے کی رات یا دن
گزارا ہوتا ہے اس لئے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ غربت و افلاس کس عفریت
کے نام ہیں اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں ان کی زندگی کا گزر بسر کیسے ہوتا
ہے؟ کیسے ایک ماں اپنے بچوں کو بہلانے کیلئے پانی کی دیگچی چولہے پر چڑھا
کر دلاسا دیتی ہے؟ کہ تم سو جاﺅ جیسے ہی کھانا تیار ہوگا تمہیں جگادوں گی ۔
جب کہ وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر جو کہ رزق حلال کمانے کی خاطر منہ اندھیرے
گھر سے نکل گیاتھا اسے مزدوری کا کام یا دیہاڑی ملی بھی ہے کہ نہیں اس آس و
امید کی کشمکش میں تمام دن گزرجاتا ہے اور اگر شوہر خالی ہاتھ آجائے تو
کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور دل کرتا ہے کہ زندگی یہیں ٹھہر جائے بقول
شاعر
یہاں مزدور کومرنے کی جلدی کچھ یوں بھی ہے محسن
کہیں اس زندگی کی کش مکش میں کفن مہنگا نہ ہوجائے
ویسے پاکستان میں تو اب لوگوں کو اتنا used to ہوہی جانا چاہئے کیونکہ ہم
سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں او ر ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں ۔ لکھنے
بولنے سے لیکر دعوے کرنے تک ایک ہی کردار کے حامل لوگ ہیں آرٹیکل لکھنا
ڈاکومنٹری بنانا رپورٹ بنانا ریلی نکالنا تقاریر کرنا ہم سب کیلئے بے حد
آسان اور انجوائے منٹ کا حصہ ہے لیکن ان ننھی جانوں اور معصوم ہاتھوں کی
طرف دیکھئے اور سوچئے کہ ہم میں سے کتنے کس حد تک اپنا فرض ادا کررہے ہیں
ان لوگو ں کا تصور کیجئے کہ جن کے گھروں میں دو دو دن تک چولہا نہیں جلتا
اوروہ ماسٹرز کی ڈگریاں ہاتھ میں لئے کسی فیکٹری مل کارخانہ میڈ ملازمت کی
بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور چھ سات ہزار روپے ماہانہ پر احسان عظیم کرتے
ہوئے نوکری دی جاتی ہے اور پھر اور پھر اس کی رگوں سے سارا خون نچوڑ لیا
جاتا ہے۔
اس ٹھوس حقیقت سے بھی انکار اور مفر ممکن نہیں کہ دنیا میں بالخصوص پاکستان
میںسب سے زیادہ جسمانی مشقت صرف مزدور ہی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود معاوضہ
سب سے کم ملتا ہے اوور اس بنا پر کسم پرسی کی زندگی گزارنا ان کا مقدر بن
جاتا ہے بقول شاعر
تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز جگر تشنہ ہے فرہاد
ہماری حکومت نے 2010 میں لیبر پالیسی کے تحت غیر تربیت یافتہ ورکرز کا
ماہانہ معاوضہ سات ہزار روپے مقرر کیا اس کے باوجود یہ کہ یہ ایک نہایت ہی
کم اور غیرمناسب معاوضہ ہے لیکن پھر بھی اس پر حکومت کے رولز کے مطابق بھی
عمل نہیں ہورہاہے ہر کوئی اپنی من مانی کررہا ہے۔سوال یہ پیدا ہواتا ہے کہ
کیا سات ہزار روپ میں کوئی محنت کش کیسے اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ
پال سکتا ہے اور رف پیٹ پالنا ہی ان کی زندگی کا محور و مقصد نہیں ہے اس کے
علاوہ دوا دارو خوشی غمی کے معاملات بلائے ناگہانی کی طرح آدھمکتے ہیں اور
بندہ مزدور کے تلخی کے اوقات مزید تلخ ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یومیہ اجرت
پر کام کرے والے پیشہ ور مزدور کی یومیہ ا جرت تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے
مترادف ہے اور جس دن دیہاڑی نہیں لگتی ان کا گھر کانے کو دل نہیں کرتا بہت
سی منتظر نگاہیں اس کی جیب اور ہاتھ میں موجود کھانے پکانے کے لوازمات کے
شارپر پر مرکوز ہوتی ہیں۔ یہ دل خراش منظر اسے دہلائے دے رہا ہوتا ہے اور
وہ دعا کررہا ہوتا ہے کہ الہی کاش زمین کا سینہ چاک ہوجائے اور میں اس میں
سما جاﺅں کیونکہ میں ان بے بس منتظر نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتا-
رہی سہی کسر بجلی اور توانائی کے بحران نے پوری کردی ہے کہ بجلی اور کیس کی
بندش اور کمی نے ملوں کے پہیے جام کردیئے ہیںکارخانوں میں مزدوروں کو
روزگار نہیں ملتا۔ ماکان نقصان کے اندیشے کے تحت اپنے یونٹس بند کردیتے ہیں
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لیبر ڈے (یکم مئی) کو صرف جلسے جلوسوں ریلیوں
تقاریر اورٹاک شوز تک ہی نہ محدود رہا جائے بلکہ مزدوروں کے مفادات کیلئے
عملی اقدامات کئے جائیں۔ ان کے قوانین عالمی سطح پر1886 اور بعد ازاں بننے
والے معاش اور روزگار کے قوانین کے تحت بناکر مزدوروں کو ہر طرح سے سہولیات
سے مستفید کیا جائے۔شکاگو میں مرنے والے مزدوروں کی روح کو سکون و آرام اس
قت نصیب ہوگا کہ جب آج کامزدور خوشحال ہوگا اور اس سلسلے میںمزدور پیشہ
افراد کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں (سرکاری و غیر سرکاری)
اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا کام کریں۔ اور معاشرہ کی ترقی و خوشخالی کیلئے بھی
ضروری ہے کہ ہمارا آج کامزدور طبقہ خوشحال ہوکیونکہ یہ ایک مرا ہوا اووبیبا
طبقہ ہے بقول شاعر
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں |