اب جب کہ الیکشن 2013 کی تیاریاں عروج پر ہیں انعقاد سر
پر اور الیکشن نا ہونے کی قیاس آرائیاں بھی دم توڑتی جارہی ہیں ایسے میں
کچھ علاقوں کی اور پارٹیوں کی پوزیشن بھی واضح ہوتی جارہی ہے ۔
حلقہ این اے 84سے الیکشن 2002 اور الیکشن 2008میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے
عابد شیر علی فاتح تھے اس سیٹ کو ان کی آبائی سیٹ بھی کہا جاتا ہے اور اب
کے بار بھی نواز لیگ نے انہیں پر اعتماد کیا ہے اور عابد شیر علی ہی اس کے
بجا طور پر مستحق بھی تھے اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ الیکشن2002 میں
عابد شیر علی 33455ووٹ لے کر مخالفین پر سبقت لے گئے تھے ان کے مدمقابل فضل
حسین راہی نے 24092اور بدرالدین چوہدری نے 22484 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ
متحدہ مجلس عمل کے قاری غلام رسول نے6629 ووٹ حاصل کئے تھے ۔ رزلٹ گراف
دیکھنے کے بعد یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی 2002میں
اپنے دیرینہ کارکن فضل حسین راہی پر اعتماد کرتی تو نتیجہ کچھ اور بھی ہو
سکتا تھا ۔ الیکشن 2002 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 257162تھی جبکہ کاسٹ
ہونے والے ووٹوں کی تعداد 89310 تھی جو کہ کل ووٹرز کا35.34 % بنتا ہے -
اب آتے ہیں الیکشن 2008 کی طرف جس میں عابد شیر علی نے 59616ووٹ حاصل کر کے
اپنی کامیابی کا جھنڈا ایک بار پھر گاڑھا۔ انکے مدِمقابل تھے مہر عبدالرشید
جنہوں مجموعی طور پر38421ووٹ لے کر رنر اپ رہے تھے جبکہ ق لیگ کے امید وار
رانا زاہد محمود 11,925ووٹ ہی لے سکے تھے۔ مس مہوش چوہدری جو اس بار بھی
این اے 84سے امید وار ہیں کے حصہ میں 2008 کے الیکشن میں 215ووٹ ہی آئے تھے
اب چونکہ مہوش صاحبہ مس سے ترقی کر کہ مسز ہو گئی ہے اس لئے امید کی جاسکتی
ہے کہ اب کہ بار یعنی الیکشن 2013 میں انہیں ایک ووٹ زیادہ مل جائے؟۔2008
رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 249,391 تھی جبکہ کاسٹ ہونے والے ووٹرز کی تعداد
112,068 تھی جو کہ کل ووٹرز کا45.4% بنتا ہے -
حلقہ این اے 84 سے اس بار نواز لیگ کے عابد شیر علی کی سیٹ اتنی آسان نہیں
رہی جتنی کہ ان کے لئے پہلے ہوتی تھی ا ہل حلقہ کو بھی شکوہ ہے کہ عابد شیر
علی نے پچھلے پانچ سال میں عوام سے اس طرح رابطہ نہیں رکھا جس طرح رانا ثنا
ء اﷲ نے عوام سے رکھا تھا۔ ان کے مدِ مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے اصغر
علی قصر ہیں جنہیں آسان لینا عابد شیر علی کی سب سے بڑی غلطی ہو گئی۔عابد
شیر علی حلقہ پی پی 69 سے میاں طاہرجمیل کو ٹکٹ دلوا کر مشکل میں پھنس گئے
ہیں پی پی 69 اور این اے 84 سے سابق ایم پی اے خالد امتیاز بلوچ عابد شیر
علی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں پی پی 69والی سائیڈ تو پہلے ہیppppکی حمایتی
سائیڈ تصور کی جاتی ہے وہاں سے ن لیگ کو ڈاکٹر خالد امتیاز بلوچ جیسے مضبوط
منجھے ہوئے سیاست دان اور pp69سے سابق ایم پی اے کی شدید مزاحمت کا سامنا
کرنا پڑرہا ہے اس کا فائدہ یقینااصغر علی قیصر اٹھا سکتا ہے اصغر علی قیصر
پی پی 70سے بھی اس لئے پُر امید راہ سکتے ہیں کہ یہ ان کا آبائی حلقہ ہے۔
عدنان انور رحمانی کا ٹکٹ کینسل کر کے پاکستان تحریک انصاف نے آرائیں اور
رحمانی برادری کا ناصرف کمبینیشن توڑا ہے بلکہ یہ ان کا فیصلہ جگ ہنسائی کا
باعث بھی بنا ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف عابد شیر علی کو حاصل ہو گا اور
ptiکو اس کے نقصان کا اندازہ بعد میں ہوگااس حلقہ میں آرائیں اور رحمانی
برادری کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے جسکا فائدہ عمران خان پارٹی اُٹھا نہیں سکی
پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان کے ٹکٹ
مسلم لیگ نون کے مفادات کو مدِنظر رکھ کر دئیے گئے ہیں این اے 84سے سردار
ظفر اپنے حصہ کے ووٹ حاصل کریں مگر کسی کو بھی نقصان نہیں دیں گے جماعت
اسلامی کا اپنا علیحدہ ووٹ بینک ہے حلقہ سے رانا سعید خان جو کہ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان صاحب کہ پارٹی تحریک تحفظ پاکستان کے امید وار کے طور میدان
میں ہیں اپنے حصہ ڈاکٹر صاحب کے احسانوں کے بدلے کے طو پر ووٹ مانگ رہے ہیں
۔اب تک کی صورت حال تو یہ ہے کہ عابد شیرعلی جو کہ آسان فتح کو گلے لگانے
کا خواب دیکھ رہے تھے کافی حد تک پریشان بھی ہیں اور اس وقت حلقہ میں
پوزیشن 49 اور 51فیصد پر آگئی ہے عابد شیر علی کا مورال نواز شریف ہی بلند
کر سکتے ہے۔ اس حلقہ سے بھی تمام آزاد امید وار مسلم لیگ ن کے ووٹ حاصل
کریں گے۔ حلقہ میں اس با رجسٹرڈ ووٹرز کے تعداد 308900 اگر عابد شیر علی
کوموجودہ الیکشن میں شکست ہوتی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ڈاکٹر خالد
امتیاز بلوچ کے سر ہو گی۔اس وقت ٹکٹ کے معاملہ میں فتح یاب شیر علی گروپ
الیکشن کمپین میں شدید مشکلات میں گری ہوئی ہے۔اور ہوسکتا ہے کہ شیر علی
گروپ کے کسی امیدوار کو ثناء اﷲ گروپ کی حمایت میں دستبردار ہونا
پڑجائے،جہاں تک بات ہے عابد شیر علی کہ تومیں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ شیر
علی کی سیاست کی بقاء کی لڑائی ہے جو عابد شیر علی لڑ رہا ہے اس میں کون
کامیاب ہوتا ہے اورکون ہارتا ہے اس کا فیصلہ 11مئی کو ہوجائے گا ۔
(یاد رہے یہ کالم نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے )ادارہ |