مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر ہم
کس ذہنیت کے لوگ ہیں ہمارے سوچ کا معیار کیا ہے ؟ بین الاقوامی اور خارجہ
تعلقات جیسے اہم معاملات میں ناقص سوچ ، ذہنیت اور نا اہلیت کی وجہ سے بعض
اوقات ہم ایسے غلط اور غیر معیاری فیصلے کرنے بیٹھ جاتے ہیں جو مستقبل میں
ہمارے لیئے نقصان دہ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ خارجہ تعلقات میں بھی کیشدگی
کا سبب بن جاتے ہیں پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات تو
روز اول ہی سے کشیدہ اور خراب رہے ہیں جس میں کئی دفعہ اہم پیشرفت بھی ہوئی
ہیں لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان بھارت تعلقات کا آج بھی یہ عالم ہے
کہ ایک قدم دوستی کی جانب بڑھتے ہیں تو معمولی غلطی کی وجہ سے دس قدم پیچھے
چلے جاتے ہیں ۔ہم تو روز افسوناک خبریں سنتے رہتے ہیں ،گھر اجڑ جاتے
ہیں،بچے یتیم،عورتیں بیوہ اور والدین بے آسرا اور بے سہارا ہو جاتے ہیں
لیکن ایک اور افسوناک خبر یہ ملی کہ پاکستانی قیدی ثناءاللہ کو شہید کر دیا
گیا اس میں بھی غلطی ہماری ہے ہم نے ہی ان کے جاسوس سربجیت سنگھ کو وہ سزا
نہیں دی جو انہیں قانونی اور عدالتی طور پر دینی چاہیئے تھی اسے جیسی سزا
ملی وہ نہ قانونی تھی اور نہ آئینی بلکہ ایک نان ایشو کو ہم نے ایشو بنا کر
عالمی خبر بنادی اور خود بھارت کو ایک جاسوس کو قومی ہیرو بنانے اور عالمی
سطح پر خود کا مذاق ا’ڑانے کا موقع فراہم کیا بھارت تو روز اول ہی سے
پاکستان کا دشمن بنا ہو اہے اور پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے
ثناءاللہ کو شہید کرکے انہوں نے دل کا بھڑاس نکال کر اپنا انتقام لے لیا
اگر ہم سربجیت سنگھ کے خلاف عدالتی کاروائی کرتے اور جرم ثابت ہونے پر
پھانسی بھی دیتے اور اس کی لاش کو بھارت کے حوالے کرتے تو بھارت اس طرح اسے
قومی ہیرو نہیں بناتا لیکن پتہ نہیں ہم ماضی سے کیوں نہیں سیکھتے ؟ اگر آپ
کو یاد ہو تو ممبئی حملوں کے بعد اجمل قصاب کو خود ہماری میڈیا نے دہشتگرد
ٹھرایا اس کے حوالے سے سارے ثبوت سامنے لیکر آگئے وہ بھی ہم نے خود کیا
لیکن بھارت نے عدالتی کاروائی کے بعد اسے پھانسی کی سزا دی تو دنیا کے
سامنے ہمارا سر فخر سے بلند ہوا یا پھر شرم کے مارے جھک گیا؟ آج بھارت بھی
ثناءاللہ کو ٹارگٹ کرتا نہ سربجیت کو قومی ہیرو بناتا البتہ ان کے سر بھی
شرم کے مارے جھک جاتے ۔ |