بڑے دکھ اور دلی کرب کے ساتھ یہ محسوس
ہواکہ جس اتحاد امت ،یکدلی ، یکجہتی کو وجود میں لانے اور ترقی دینے کے لئے
پاکستان بنا تھا خود ہی مفقود ہے۔ قد م قدم پر انتشار اور بات بات میں
اختلاف اور سب سے مہلک زہر رگ رگ میں سرایت کیا ہوا صوبائی تعصب! حسرت ہی
رہی کہ کسی پنجابی کی زبان سے کسی بنگالی کے حق میں کلمۂ خیر سنا ہوتا ،
کسی بنگالی نے کسی سندھی کا نام خوشدلی سے لیا ہوتا، کسی سندھی نے کسی
سرحدی پر اعتماد ظاہر کیا ہوتا۔ حدیہ ہے کہ مہاجرین تک ٹولیوں میں بٹے ہوئے
ایک دوسرے پر بجائے محبت واخوت !رقابت بلکہ دشمنی کی نظر سے دیکھنے والے ’’رحماء‘‘
کے بجائے ’’اشداء‘‘ کے مصداق ، یوپی والے، بمبئی والے، بہاری،دکھنی الگ الگ
پارٹیوں میں تقسیم ، تنظیم سے کوسوں دور۔ اس زہر کا توڑ صرف ایک ہی تھا ،ایمانی
اخوت، یہی سب کو ایک سانچہ میں ڈھال سکتی ہے اور وہی ناپید ، پھر یہ تفریق
تو صرف وطنی بنیاد پر تھی ، خود مذہبی حیثیت سے بھی ایک انتشار کا عالم
طاری، نئے اور پُرانے ملاکر خدا معلوم ! کتنے فرقے تیار اور کس کثرت وتنوع
کے ساتھ دینی دعوتیں بڑے بڑے زبردست داعیوں کی طرف سے جاری،بعض جدید
تحریکیں، یقینااصلاح اتحاد ومرکزیت کا مقصد لے کر اٹھیں لیکن دیکھتے ہی
دیکھتے وہ ایک مستقل فرقہ اور ایک تخریبی عنصر بن گئیں، شکوہ کس کس کا کیا
جائے اور کس ایک گروہ یا جماعت کا نام لے کر ذمہ داری اس کے سر پر ڈال دی
جائے، کسی میں اخلاص ہے تو تدبر نہیں اورکہیں اگر جوش ہے تو وہ ہوش سے
عاری۔(سیاحت ماجدی۱۹۵۵)
یہ مذکورہ اقتباس مولانا عبدالماجد دریابادی ؒکے پاکستان کے سفرنامہ کی
روداد کا ایک حصہ ہے جس کو مولانا دریابادیؒ نے اپنی کتاب ’’سیاحت ماجدی‘‘
میں پاکستان کے حاصل سفر کے عنوان سے لکھا ہے، اس میں مولانادریابادیؒ نے
پاکستان کی صورت حال کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جس میں پورے پاکستان اور
پاکستانی معاشرہ کا نقشہ واضح طور پر دیکھاجا سکتا ہے۔ او ر اندازہ
لگایاجاسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی یہ ریاست اب سے پچاس
سال پہلے جن مرحلوں سے گزرہی تھی، نصف صدی گزرجانے کے بعد بھی یہ مملکت
انہی راستوں پر رواں دواں ہے بلکہ ہردن اس میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملتا
ہے، شاید ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتاہے کہ پاکستان کا نام بھی تاریخ
میں ان دیگر اسلامی ممالک کی طرح رہ جائے جن کا اپنا وجود تو ختم ہوچکا ہے
اور صرف نام باقی ہے، کیوں کہ جو قوم اپنے پاس کوئی مضبوط منصوبہ نہیں
رکھتی اور ماضی کی غلطیوں سے سبق اورعبرت حاصل نہیں کرتی تو اس قوم کا
انجام بربادی، ذلت ورسوائی پر آکر ختم ہوجاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ
قوم دنیا کے نقشے سے اپنے وجود کو ہمیشہ کے لئے ختم کرلیتی ہے۔ ہماری اس
بات سے شاید کسی کو اتفاق نہ ہولیکن تاریخ کے ہزاروں اوراق اس بات پر شاہد
ہیں کہ جن قوموں نے سستی ، کاہلی اور ماضی سے سبق اور مستقبل کے لئے کوئی
لائحہ عمل تیار نہیں کیا توان کا انجام کیا ہوا؟
آج پڑوسی ملک پاکستان کی جو صورت حال ہے، اس پر ہر صاحب ایمان رنجیدہ وملول
ہے، کیوں کہ پاکستان میں ہر دن کسی نہ کسی حادثہ میں بہت سے لوگ موت کی
نیند سوجاتے ہیں، اورہر دن اخبار کا کچھ حصہ پاکستان کے بے گناہ لوگوں کے
خون سے سرخ ملتا ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان میں کب تک چلے گا اور اس سلسلہ کی
سرپرستی کون کررہا ہے کہ ہر دن بغیر کسی ناغہ کے پاکستان میں بم یا اس کے
علاوہ کوئی اور حادثہ یقینی صورت کی شکل اختیار کرچکا ہے تو ظاہر ہے کہ
مذکورہ کارنامہ انجام دینے والے پاکستان ہی کے اپنے لوگ ہیں اور وہی اس کی
سرپرستی کر رہے ہیں۔ کیوں کہ باہر کے لوگوں کی یہ ہمت اور جرأت نہیں کہ وہ
اس کا م کو براہ راست انجام دیں ،یا اگر وہ باہری لوگ ہیں تو ان میں مقامی
لوگ ضرور شامل ہیں۔ بہر حال بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان میں جو کچھ
ہورہاہے ، مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں اور دونوں ہی صاحب ایما ن
ہیں اور دونوں ہی کے پاس قرآن اور شریعت محمدی موجود ہے۔ تو جب ان کے پاس
وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک مسلمان کے پاس ہونا چاہئے تو پھر ان کو کیا یہ
معلوم نہیں کہ ایک مسلمان کا ناحق قتل کرنا اسلام میں کتنا بڑاجرم ہے؟
پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر لاکھوں صحابہ کی
موجودگی میں جو فرمان جاری کیا تھا، اس میں بھی آپﷺ نے واضح طور پر یہ
بتلادیاتھا کہ ایک مسلمان کا ، مسلمان کے اوپر کیا حق ہے۔آپنے فرمایا’’
لوگو! توجہ سے سنو اور یا د رکھو،ممکن ہے کہ آئندہ مجھے تم سے ملنے کا
موقعہ نہ مل سکے، جس طرح تم اس دن ، اس مہینہ اور اس مقام کی حرمت کرتے
ہواسی طرح ایک مسلمان کا خون ، مال وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اﷲ
تعالیٰ تمہارے ہر ایک کام کا حساب لے گا۔ دیکھو! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا
کہ باہم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔‘‘
اگر وہ لوگ پیغمبر اسلام ﷺ کے اس فرمان اور قرآن کریم کو جو اسلام قوانین
کا ایک جامع مجموعہ ہے مانتے ہیں اور یقینا وہ مانتے ہوں گے (کیوں کہ اگر
وہ محمدﷺ کی باتوں کو نہیں مانتے تو اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔) تو
پھر ان کی یہ جرأت اور ہمت کیسی کہ مسلمان ،مسلمان کے خون سے اپنی خونی
تشنگی بجھائے! یا پھر وہ لوگ جو اس برادرکشی میں مشغول ہیں کیا ان کے پاس
ایسے دلائل وشواہد موجود ہیں کہ وہ جن لوگوں کو مارہے ہیں ان کے نزدیک وہ
مسلمان نہیں۔یا وہ مسلمان تو ہیں لیکن ان کا تعلق کسی اور جماعت یا فرقہ سے
ہے ۔ بہر حال ان کا نظریہ کچھ بھی ہولیکن اسلام میں ان کے اس فعل کی گنجائش
نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟ کیا اس میں امریکہ
یا دیگر کسی ملک کا ہاتھ ہے؟ اور اس میں پاکستان کی خود قیادت اور وہاں کی
عوام ذمہ دار نہیں ہے، یہ کسی بھی ملک ،قوم یا قائد کی سب سے بڑی کمزوری
ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بربادی وناکامی کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے
ہیں اور اپنا احتساب شاید وباید ہی کوئی کرتا ہے۔آج ہر آدمی پاکستان یا اس
کے علاوہ جہاں بھی اس طرح کی صورت حال ہے اس کے تعلق سے بڑی آسانی سے یہ
کہہ دیتا ہے کہ اس میں امریکہ یااسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور
اس کے پس پشت وہی کام کر رہی ہیں ۔دوسری اہم وجہ جس نے پاکستان کے ماحول کو
سب سے زیادہ خراب کیا وہ یہ ہیکہ پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ جب اپنے
شعور کی طرف بڑھتا ہے تو اس کو اپنے ماں باپ اور اساتذہ سے یہ سبق ملتا ہے
اور بچپن ہی سے اس کی یہ تربیت جاری ہوتی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن
ہندوستان ہے۔ اس سوچ اور فکر کو لے کر وہ بچہ بڑاہوتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا
ہے کہ وہ بچہ کسی دوسرے کا تو کچھ نہیں بگاڑ پاتا اور اس کا وہ غصہ پھر
اپنے ہی گھرکی بربادی کا سبب بنتا ہے اور اسی کا ہم مشاہدہ رات دن پاکستان
کے تعلق سے کررہے ہیں کہ وہ بچے جن کو ہندوستان کی دشمنی پر پالا اور پرورش
کیا جاتا ہے تو وہ خود پاکستان کو ہی تباہی وبربادی کا مرکز بنائے ہوئے ہیں
۔ جب بھی پاکستان میں کوئی حادثہ کسی عبادت گاہ کے اندر یا کہیں بھی پیش
آتاہے اور بعد میں ان حملہ آوروں کی فہرست جاری ہوتی ہے تو ان میں تمام نام
عبدالرحمن، جاوید عالم، عبداﷲ وغیرہ سے شروع ہوتے ہیں اور یہ وہی بچے ہوتے
ہیں جن کی تربیت صرف ہندوستان کی دشمنی کے نام پر ہوا کرتی تھی۔ تو ہم
اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے میں امریکہ کا ہاتھ کم
اور پاکستان کے لوگ خود زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اس لئے ہر قوم کی تباہی وبربادی
میں اس کا اپنا کردار ضرور شامل ہوتا ہے۔
بات لمبی ہوتی جارہی ہے ، کس کس کو مورد الزام ٹھہرائیں اور ہمیں یہ حق بھی
نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے تعلق سے کچھ لب کشائی کریں لیکن مسلمان ہونے کی
حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے ۔ کیوں کہ مملکت پاکستان کو وجود میں لانے
کے لئے جو بہت سی جانیں گئیں وہ سب مسلمان ہی تھے اور خودہمارے اسلاف کوبہت
سے مسائل ومشکلات سے گزرکر یہ مملکت ملی ہے۔ اس لئے ہمیں ملی مسائل کے تعلق
سے اپنی ذمہ داریوں کابھر پور احساس ہے، لیکن افسوس کہ اہل پاکستان نے نہ
صرف اپنے معماروں کی امیدوں کا خون کیا ہے بلکہ اپنے کردار سے ان کی روح کو
تکلیف پہنچائی ہے۔ آج شاید پاکستان کے لوگوں کو یہ یاد نہیں کہ تحریک
پاکستان کے بانیوں کے اس ریاست کو بنانے کے پیچھے کیا خواب تھے ؟اور پوری
دنیا کے مسلمانوں کو خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس ریاست سے کتنی اور
کیسی کیسی امیدیں وابستہ تھیں؟وہ سب اس بات کو بھو ل گئے کہ اس ریاست کا
قیام اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔خود ایک مرتبہ پاکستان کے بانی و محرک
مسٹر علی جناح نے ایک تقریر میں جو انہوں نے گیارہ اکتوبر ۱۹۴۷ کو کی تھی
اور اس میں پاکستان کی بنیاد کا مقصد بیان کرتے ہو ئے کہا تھا کہ ’’پاکستان
کا قیام جس کے لئے ہم دس سال سے کو شاں تھے بفضلہ تعالی اب ایک زندہ حقیقت
ہے لیکن خود اپنی مملکت کا قیام ہمارے مقصد صرف ایک ذریعہ تھا ، اصل مقصد
نہیں تھا منشاء یہ تھا کہ ایسی مملکت قائم ہو جس میں ہم آزاد انسانوں کی
طرح رہیں جس کو ہم اپنے مزاج اور ثقافت کے مطابق ترقی دیں اور جس میں
اسلامی عدل و اجتماعی کے اصول آزادی کے ساتھ برتے جائیں (بحوالہ اسلامیت
اور مغربیت کی کشمکش)اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے تحریک پاکستان کے بانیوں
کے پاکستان کو بنانے کے کیا خواب اور عزائم تھے ۔ایک مرتبہ فلسطین کے مفتی
اعظم نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں کے اسرائیل سے شکست کھانے کے بعد روالپنڈی
میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد عالم اسلام کی
نگاہیں پاکستان کی طرف لگی ہوئی ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان پاکستان کو
اپنی امنگوں اور آرزوں کا مرکز سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہ تنہا ایک ایسی ریاست
ہے جو صرف اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اور یہ پاکستان کی عوام اور حکام
کا فریضہ ہے کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق لے کر دنیا بھر کے مسلمانوں
کی ان توقعات کو پورا کریں اور تقلید مغرب کے پامال راستہ پر چلنے کے بجائے
اپنے لئے اسلام کی بتائی ہوئی وہ راہیں اختیار کریں جو نہ صرف پاکستان کو
صلاح وفلاح سے ہمکنار کرنے والی ہوں بلکہ دوسرے اسلامی ممالک کو بھی موجودہ
دلدل سے نکال کر امن وسکون عطا کریں۔ پاکستان میں طبقۂ علماء کے سرخیل شیخ
الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
تھا کہ’’ خواہ ارباب اقتدار ہمارے ساتھ کچھ بھی برتاؤکریں ہم خالص خدا کی
خوشنودی ، اسلام اور اہل اسلام کی برتری وبہتری کے لئے اپنی اس نئی مملکت
کو مضبوط ومحفوظ بنانے میں امکانی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔‘‘
بہر حال ان مذکورہ تمام حوالوں سے پاکستان کے لوگ اور حکمران اپنے تئیں
اپنی ذمہ داریوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اپنا احتساب کر سکتے ہیں کہ
پانی کہاں مر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں امن کیسے قائم ہو اور اہل پاکستان اس روزمرہ
کی ہلاکت خیزی سے اپنے آپ کو کیسے بچائیں؟ کیا پاکستان میں پائیدار امن کے
لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے نظام میں غیر ملکی طاقتیں کسی قسم کی
مداخلت نہ کریں۔ یاپاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط ومستحکم کیاجائے،
کیاان مذکورہ باتوں پر عمل کرنے سے پاکستان میں امن وسکون قائم کیا جاسکتا
ہے؟ اگر یہ ممکن ہے تو ضرور کیا جائے لیکن اب اس فارمولہ کوپاکستان میں
نافذ کرنا آسان نہیں۔ کیوں کہ نہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں باہری
طاقتوں کی مداخلت فوری طور پر روک دی جائے اور نہ یہ ممکن ہے کہ پاکستان
میں جمہوری نظام مضبوط و مستحکم ہوپائے۔ اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ
پاکستان میں جمہوری نظام مستحکم ہونے کے بعد کچھ انقلاب آسکتا ہے تو اب بھی
پاکستان میں جمہوری نظام قائم ہے اور تقریباً تین سال سے وہاں جمہوری طرز
حکومت ہے لیکن جو صورت حال ہے اس کو سب جانتے ہیں تو پھر اس صورت میں بھی
یہ ممکن نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہونے کے بعد بھی کچھ تبدیلی آئے۔یہ
تمام باتیں اپنی جگہ لیکن جب تک پاکستان کی عوام پاکستان میں امن کے لئے
خود کو تیار نہیں کرے گی تو ان روز مرہ کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔وہاں
کیسی بھی جمہوریت قائم کر دی جائے لیکن امن اسی صور ت میں ممکن ہوگا جب
عوام خود اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریگی ۔اس لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے
کہ عوام کے اندر صحیح شعور پیدا کیا جائے کیونکہ جو قوم شعوری انحطاط کا
شکار ہوتی ہے تو اس قوم کو کوئی بھی اپنے مذموم مقصد کے لئے آلہ کے طور پر
استعمال کر سکتا ہے۔جیسے ایک کم سن بچہ جو اپنے بچپن کے لاشعوری دور سے گزر
رہا ہوتا ہے اس کو کوئی بھی آدمی بھہلا اور پھسلا کر کچھ بھی کروا سکتا ہے
۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اچھے برے کو
سمجھ سکے اور اس بات کو جان سکے کہ کون سی چیز اور کون ساکام میرے لیے مفید
اور مضر ہے ۔لیکن جیسے جیسے اس کا شعور بیدار ہوتا ہے تو وہ اچھے برے کی
تمیز آسانی سے کرنے لگتا ہے ۔اسی طرح پاکستان میں بھی اس بات کی اشد ضرورت
ہے کہ وہاں کی عوام اور خاص طور سے نئی نسل کے اندر دینی شعور اور غور و
فکر کا ملکہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ہمارا اس سے مقصد یہ نہیں کہ
پاکستانی عوام دینی شعور نہیں رکھتی۔ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن پھر
بھی اس بات کی ضرورت وہاں کے معاشرے میں لازمی طور پر محسوس کی جارہی ہے۔
کچھ سچّایاں ایسی ہوتی ہیں جن کا اعتراف مجبوراً نہیں بلکہ حقیقتاً کرنا
پڑتا ہے ۔ایسی ہی سچائی اور حقیقت پاکستان کے تعلق سے یہ ہے کہ پاکستان کا
وجود اسلامی ریاست کے نام پر ہوا۔پاکستان کے لوگ اور حکمراں خواہ اس سے
کتنا ہی انحراف کریں لیکن ان کے لئے آج نہیں توکل پسندیدگی یا ناپسندیدگی
سے یہ ضروری ہوگا کہ وہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ کریں اور اپنے
تمام داخلی اور خارجی معاملات میں قران و سنت کو عملی طور پر داخل کریں
۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پاکستان میں امن کی تمام کوششیں اور تدبیریں بے
کار ثابت ہوگی۔ایک امریکی مصنف اس مذکورہ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا
ہے ۔
’’شاید پاکستانی کسی وقت یہ خیال کریں کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر کا کام ان
کے ابتدائی اندازہ سے کہیں زیادہ دشوار طلب ہے لیکن سوچا جائے تو اب ان کے
لئے کوئی راہِ مفر باقی نہیں، ان کے وعدے اور دعوے اتنے بلند بانگ اور واضح
تھے کہ ان کی تکمیل سے گریز ناممکن ہو گیا ہے، ان کی تاریخ اب ’’تاریخ
اسلام‘‘ ہوگی، ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے، اب خواہ وہ اسے
پسند کریں یا اس پر نادم ہوں، بہرحال وہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے تصور کو نظر
انداز نہیں کر سکتے اور نہ اسے زیادہ دیر سردخانہ ہی کی نذر کر سکتے ہیں،
کیونکہ اس وقت اسلامی ریاست کے نظریہ کو ختم کرنے کا فیصلہ محض طریق کارکی
تبدیلی کا فیصلہ ہی نہیں ہوگا، یہ تو گویا اپنے دین اور وطن کی اساس پر
کلہاڑ اچلانے کے مرادف ہوگا اور تمام دنیا اس گریز سے یہی مطلب اخذ کرے گی
کہ اسلامی ریاست کا نظریہ لایعنی اور اس کا نعرہ محض فریب نظر تھا، جو حیات
جدید کے تقاضوں سے نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا یہ کہ پاکستانی بحیثیت
ایک قوم کے اسے اپنی قومی زندگی پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس صورت
میں دنیا کے نزدیک خود مسلمانوں کے معتقدات ایمانی ہی مشکوک اور قابل تنقید
ٹھہریں گے۔‘‘(اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش) |