آج فیصلہ کا دن ہے۔ آج کا دن
عوام کا دن ہے۔ آج کا دن امتحان کا دن ہے ۔ آج کا دن مقابلہ کا دن ہے۔ آج
کادن الیکشن کا دن ہے۔آج بدلہ لینے کا دن ہے۔ آج کسی کو خوش کرنے اور کسی
کو مایوس کرنے کا دن ہے۔ الیکشن مہم کے دوران سب سیاستدان عوام کو اپنا
گرویدہ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ سب نے اپنے طورپر یہی باور کرانے کی کوشش
کی وہ ہی عوام کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ ہر ایک یہی کہتا رہاکہ عوام نے
اس کو کامیاب کرایا تو وہ خوشحالی لے آئے گا۔ الیکشن مہم کے دوران ووٹر کی
توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر کامیابی نہ ہوسکی۔ عوام کو متوجہ
کرنے کے پرانے طریقے بھی ناکام ہوئے اور نئے طریقے بھی۔ اس الیکشن مہم میں
میوزک کے ذریعے ووٹرکو متوجہ کرانے کی کوشش کی جاتی رہی جس کو عوام نے کوئی
اہمیت نہیں دی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے الیکشن آفسز میں بڑے ساﺅنڈ سسٹم لگے
ہوئے تھے۔ سب نے پروجیکٹر بھی لگائے ہوئے تھے۔ سب نے اپنی اپنی پارٹیوں کے
سیاسی ترانے چلائے ہوئے تھے۔ پروجیکٹرز پر ہر پارٹی اپنے اپنے لیڈروں کی
تقریریںسنا رہی تھی۔ الیکشن آفسز میں تو یہ ترانے اور سیاسی لیڈروں کی
تقریریں سننے کیلئے ان پارٹیوں کے مخصوص کارکن ہی موجود ہوتے تھے ۔ اس لیے
ہمارے شہر میں سب ساﺅنڈ سسٹم کی آواز مکمل کھول رکھی تھی۔ تاکہ ٹریفک کے
شور میںآنے جانے والے مسافر بھی سن لیں ۔ آس پاس کے دکاندار بھی سنتے رہے
اور آواز دوردورتک جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سن سکیں۔ اس شور نے عوام
کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا۔ یہ الیکشن مہم کے دن الیکشن آفسز کے آس پاس
رہنے والوں نے جس کرب میں گزارے اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ ہر وقت شور
میں رہنا کیسا ہوگا یہ خود ہی سوچیے۔ کچھ سیاسی جماعتیں نمازوں کے اوقات
میں اپنے ساﺅنڈ سسٹم بند کردیتی تھیں جبکہ کچھ تو نماز کے اوقات میں بھی
ایسا کرنا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ ایمپلی فائر ایکٹ کے تحت ان کیلئے کوئی
ممانعت نہیں تھی۔ میلاد کے پروگراموں میں کہا جاتا ہے کہ آواز کم سے کم
رکھو۔ آواز پنڈال تک ہی محدو درہے۔ اگر کوئی مذہبی پروگرام ہوتا اور اس کے
کرانے والوں نے اتنی آواز کھول رکھی ہوتی ۔تو اس کے منتظمین اور مولوی
حضرات سب سنٹرل جیل پہنچ چکے ہوتے۔ ان سیاسی جماعتوں کو اتنا بھی کسی نے نہ
کہا ہوگا کہ آواز ہی کم کردو۔ ان سیاسی جماعتوں نے اس طرح وہ اودھم مچائے
رکھا کہ اللہ کی پناہ۔ اس بیس روزہ دن رات کے شور سے کون کس طرح متاثر ہو ا
یہ بتانے کی ضرورت نہیں سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس شور میں ان لوگوں نے
اپنے دن کیسے گزارے ہوں گے جو کہتے ہیں کہ اذان جلدی جلدی دیا کریں ۔ہم نے
لیٹرین میں جانا ہوتا ہے۔ اذان کی وجہ سے ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو
ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم نے بات کرنی ہوتی ہے اس شور میں ہم بات
بھی نہیں کرسکتے۔ اس دوران امیدواروں کی اہلیت اور ناہلیت کے فیصلے بھی
ہوتے رہے۔ کسی کو میدان میں آنے کی اجازت مل گئی اور کسی کو میدان سے باہر
کردیاگیا۔ الیکشن مہم لہو لہان بھی رہی۔ سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور کارنر
میٹنگوں پر حملے کیے جاتے رہے جس سے سینکڑوں سیاسی کارکن جان سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں۔ ملتان میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی
حیدرگیلانی کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ ایک پولنگ اسٹیشن بھی دھماکے سے تباہ کر
دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی مسائل حکومت الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کیلئے چیلنج
ہیں۔ ان سے نمٹنے کیلئے انہوں نے انتظامات بھی کررکھے ہیں۔ ایک طرف عوام کو
ووٹ ڈالنے کا کہا جاتا رہا دوسری طرف عوام کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی بھی
کوشش کی جارہی ہے۔ ایک علامہ صاحب کہتے ہیں کہ موجودہ نظام کے تحت ووٹ دینا
حرام ہے جبکہ ایک اور مولوی کہتا ہے کہ جس نے ووٹ نہ دیا وہ گناہ کبیرہ کا
مرتکب ہوگا۔ اب عوام کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ کیونکہ دونوں
صورتوں میں مذہب کی خلاف ورذی ہی ہوتی ہے۔ اس دوران عمران خان اسٹیج پر
چڑھتے ہوئے لفٹر سے گر گئے۔ اس کے بعد شہبازشریف نے لفٹر پر چڑھنے سے انکار
کردیا ان کیلئے ہنگامی طور پر سیڑھیاں بنائی گئیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے
اپنی اپنی الیکشن مہم بھرپورطریقے سے چلائی۔ عوام کو اپنی ہمدردی کا یقین
دلانے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک سیاسی جماعت سے نوے ہزاربیلٹ پیپر برآمد ہوئے۔
انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے خلاف جی بھر کر کیچڑ
اچھالا۔ اہم سیاسی جماعتوں نے اپنی مخالف سیاسی پارٹی کے خلاف اشتہاربازی
کرکے سیاسی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ اس نے اس دن
یہ کہا تھا اس نے اس دن یہ کہا تھا ۔ وہ کہتی رہی کہ اس نے اس دن یہ کہا
تھا اس دن یہ کہا تھا۔ مدمقابل سیاسی پارٹیوں کی منفی باتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر
ان کے خلاف ہتھیار کے طور پر شائع کرائی گئیں۔ تاکہ ووٹروں میں ان کے خلاف
نفرت پیدا ہوجائے۔ کسی کو بھی اپنی کارکردگی پر بھروسہ نہیں تھا۔ کہ وہ صرف
اپنی کارکردگی دکھا کر عوام سے ووٹ مانگ سکتے۔ سب نے مخالفین کے خلاف نفرت
پھیلا کر عوام کو اپنا بنانے کی کوشش کی۔ ایسے امیدوار بھی الیکشن میں حصہ
لیے ہوئے ہیں جو اپنے ووٹروں کا فون سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پہلے تو
اٹھاتے ہی نہیں ۔ اٹھا بھی لیں تو بزی کردیتے ہیں یا کسی اور کے ہاتھ میں
پکڑا دیتے ہیں۔ جو انتخابی مہم کے دوران فون نہیں سنتے وہ منتخب ہو کر کب
کسی کا فون سن لیں گے۔ یہ سیاستدان الیکشن پر تو لاکھوں روپے پانی کی طرح
بہا دیتے ہیں ۔ ان کو کسی مسجد میں پانچ ہزار روپے دینے کا کہا جائے تو ان
کیلئے یہ کام مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی کو عوام سے ہمدردی نہیں ہے۔ جس طرح کہا
جاتا ہے کہ مزار پر چادر چڑھانے سے بہتر ہے کہ کسی مستحق خاتون کے سرپر ڈال
دی جائے۔ میلاد پرچراغاں کرنے پر فضول خرچی کرنے سے بہتر ہے کہ دکھی
انسانیت کی خدمت کی جائے۔ یہاں بھی ہم یہ کہنے کی اجازت چاہیں گے ۔ انتخابی
مہم پر لاکھوں روپے خرچ کرنے سے بہتر ہے اس کو دکھی انسانیت پر خرچ کیا
جاتا۔ ان کو عوام سے ہمدردی ہوتی تو یہ عوام پر بھی خرچ کرتے۔ یہ زیادہ
نہیں اپنے حلقے کے بیروزگار نوجوانوں کو دس دس ہزار بھی دے دیں وہ اس سے
فروٹ ریڑھی لگا کر اپنے گھر کے اخراجات تو پورے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ان سیاسی جماعتوں نے لیپ ٹاپ دیے تو وہ بھی کس طرح دیے ۔یہ سب کے علم میں
ہے انہوں نے ٹیکسیاں دیں تو وہ بھی اپنوں کو دیں۔ رکشے دیے تو وہ بھی اپنوں
کو دیے۔ میرے حلقے کے اکثر امیدوار مجھے جانتے ہیں۔ ہمیں نہ تو کسی نے لیپ
ٹاپ دیا ہے اور نہ ہی کسی نے رکشہ دیا ہے۔ ان میں سے کسی کو ہمارا احساس
نہیں ہے۔ ہم بھی آج کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی
واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ بھی نہیںہیں جو قوم کو ووٹ ڈالنے
سے روک رہے ہیں۔ ایسے امیدوار بھی میدان میں ہیں جنہوں نے ہمارا گھر اجاڑنے
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے گھر آباد کرنے کی کوشش کی تو ہمیں گالیاں
دے کر بھگا دیا ۔ اب ایسے لوگ کیا قوم کی بھلائی کیلئے کام کریں گے۔ کاغذات
نامزدگی کی وصولی سے الیکشن مہم کے اختتام تک سب کاروائی عوام کے سامنے
ہے۔عوام کا کون کتنا خیر خواہ ہے اور کون کتنا عوام کا ہمدرد ہے یہ سب عوام
اچھی طرح جانتے ہیں۔ عوام کی عدالت میں جانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ اب
سب عوام کی عدالت میں ہیں۔سب نے اپنا اپنا مقدمہ پیش کردیا ہے۔ سب نے دلائل
کے انبارلگا دیے ہیں۔ فیصلہ آج عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو چاہے مایوس کردے
اور جس کو چاہے خوش کردے۔میدان سج چکا ہے مقابلہ جاری ہے۔ سب کو عوام کی
عدالت کا فیصلہ سنائے جانے کا انتظار ہے۔ آج کوئی نہ وکوئی تو عوام کی
عدالت سے فتح یاب ہوگا۔ اس انتخابی مہم میں کسی نے اپنی سابقہ غلطیوں کا
اعتراف نہیں کیا۔ اب آج عوام بھی ایسی غلطی نہ کریں اچھی طرح سوچ سمجھ کر
ووٹ ڈالیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر انہیں بھی اپنی یہ غلطی چھپانی پڑے۔
اس الیکشن میں بھٹو اینٹی بھٹو ووٹ کی تقسیم بھی نہیں ہے اور اس الیکشن میں
ردعمل کا ووٹ بھی نہیں ہے۔ آج ہمارے ساتھ آپ بھی انتظار کریں کہ عوام کا
کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ عوام جس امیدواراور جس سیاسی پارٹی پر اپنا اعتماد
کریں تو ان امیدواروں اور ان سیاسی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی عوام کے
اعتماد پر پورا اتریں ۔ پہلے کی طرح عوام کو مایوس نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ
ہو کہ سال دو سال کے بعد ہر ایک کی زبان پر ہو کہ طاہرالقادری سچ کہتے تھے۔
ہم نے ساٹھ سال آزمانے آزمانے میں لگا دیے ہیں۔ آج اس کو آزما لو اور آج اس
کو آزما لیتے ہیں۔ آج اس کو موقع دے دو۔ آج اس کو موقع دے دیں۔ سب کو آزما
لیا سب کو موقع دے دیا۔ کل تک معلوم ہوجائے گا کہ عوام کا انتخاب کیا کہتا
ہے۔ |