راجہ ماجد جاوید علی بھٹی
گزشتہ چند دہائیوں سے بھارت کی طرف سے بہنے والے پاکستانی دریاﺅں میں پانی
کی شدید قلت کا سامنا کررہا ہے جس کے نتیجے میں آبپاشی اور ہائیڈرل پاور کی
پیداوار میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ بھارت نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے دریائی پانی کے ذخیروں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا رہا ہے
بلکہ موجودہ ڈیموں کی اپ لفٹنگ میں بھی مصروف ہے۔ دریاﺅں کا رُخ تک موڑا جا
رہا ہے۔ حتیٰ کہ افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے حوصلہ افزائی ہی نہیں
مالی معاونت بھی کررہا ہے تاکہ دریائے کابل سمیت دریائے سندھ اور پاکستانی
دریاﺅں میں پانی کی صورتحال سنگین تر ہو جائے۔
بدقسمتی سے سندھ اور خیبرپختونخوا میں ایسے قوم پرست عناصر موجود ہیں جو
ایک طرف پاکستان میں ڈیموں کے ذخائر کی تعمیر کالا باغ ڈیم وغیرہ کی مخالفت
کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت اور افغانستان میں پاکستانی دریاﺅں پر ڈیموں
کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپریل 2013ءمیں عوامی نیشنل پارٹی کے
چیئرمین اسفند یار ولی نے ریڈیو پاکستان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے
افغانستان میں بھارتی اپ لفٹ منصوبوں پر نہ صرف تنقید نہیں کی بلکہ یہ کہا
کہ پاکستان افغانستان میں بھارتی کردار پر اعتراضات اور سرگرمیوں کی مخالفت
ترک کردے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اسلام آباد
بلوچستان میں چین کی طرف سے تعمیر کردہ گوادر کی بندرگاہ پر کابل کی تنقید
برداشت کریگا؟۔
اے این پی کے ہی لیڈربشیر بلور 9مئی کو کہا کہ پاکستان میں مسلمان بھارت سے
زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ نجانے کیوں انہیں کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی
میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کی شہادتیں کیوں نظر نہیں آتیں؟۔
ویسے بھی پاکستان میں امریکی بھارتی سرپرستی میں طالبانی دہشت گردی ہو رہی
ہے۔ افغانستان میں بھارتی فوج کا ایک میجر جنرل پاکستان میں ”را“ کی تخریب
کاری کی نگرانی اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کی سرپرستی کررہا ہے جو
کہ پاکستان کے وجود اور آئین کو چیلنج کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی خاص طور پر کراس بارڈر دہشت
گردی اور افغان فورسز کے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ افغانستان کی معاونت سے
ہی تحریک طالبان کے گروپ افغان سرزمین کو محفوظ جنت کے طور پر استعمال کرتے
ہوئے پاکستان میں ہر طرح کی دہشت گردی پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں ،
مسجدوں اور جنازوں میں بم دھماکوں اور حساس مقامات پر حملوں میں براہ راست
ملوث بھی ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ جہاں تک افغانستان میں
سڑکوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کا تعلق ہے تو اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں
کہ فلاحی منصوبوں کی آڑ میں بھارت افغان سرزمین کوپاکستان مخالف خفیہ
آپریشنز (Covert Anti Pakistan Operations) کے لئے استعمال کررہا ہے۔ اے
این پی کے رہنماﺅں کی طرف سے افغانستان میں بھارتی منصوبوں کی حمایت سے
پاکستان کے سٹرٹیجک مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملک کے اندر اس طرح کی
تقسیم نہ صرف پاکستان کے بارے میں منفی تاثر پیدا کررہی ہے بلکہ افغانستان
اور بھارت کے ساتھ بنیادی مسائل اور معاملات پر پاکستان کی گرفت کمزور
کررہے ہیں۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت مدد سے واٹر
پراجیکٹس اور ڈیموں کی تعمیر کا صاف مطلب دریائے سندھ اور کابل میں پانی کے
بہاﺅ میں کمی کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ پاکستان سے چکانا
چاہتا ہے۔ گو کہ امریکہ کبھی پاکستان کا دوست نہیں رہا اس کی اصل دوستی روز
اول سے بھارت سے رہی ہے مگر اب افغانستان میں عبرت ناک شکست نے امریکہ اور
بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں مزید ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے جس کا
بھارت پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کیونکہ بھارت کی ہمیشہ خواہش رہی ہے
کہ پاکستان میں عدم استحکام رہے تاکہ پاکستان میں جمہوری قوتیں مسئلہ کشمیر
کے حل کی طرف قدم نہ بڑھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور امریکہ دہشت گردی
کے خلاف جنگ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی
تخریب کاری میں ”را“ اور سی آئی اے ملوث ہےں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، کوئٹہ
میں بم دھماکے، سوات ، دیر اور فاٹا میں حالات خراب کرنے میں بیرونی طاقتیں
ملوث ہیں۔ اگر امریکہ واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو اسے بھارتی
وزیر داخلہ کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہئے تھا جس میں بھارتی وزیر داخلہ نے
اعتراف کیا کہ ”بھارت میں دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں اور یہ تنظیمیں دہشت
گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں“۔ اب بھی پاکستان میں انتخابی دفاتر،
جلسوں اور امیدواروں پر حملوں کا پاکستان تحریک طالبان برملا اعتراف کرتی
ہے جس کے ٹھکانے کنٹر، نورستان میں ہیں۔ |