بلوچستان : سرداری نظام کا عمل دخل

بلوچستان کے مسائل کی وجوہات میں ایک وجہ وہاں کا سرداری نظام بھی ہے۔ یہ سرداری نظام لوگوں کی سوچ اور معاشرتی رہن سہن پر پوری طرح سے حاوی رہاہے ۔ پہاڑی اور ریگستانی علاقہ میں دُور دُور آبادیوں کے ہونے کی وجہ سے مختلف قبیلوں کے الگ الگ خود ساختہ سردار ہیں ۔ قبیلے کے لوگوں کو سردار کا حکم مانناہوتا ہے۔ اور وہ اس کے زیر تسلط رہتے ہیں۔ قبائل کے اندرونی اور بیرونی ذرائع آمدنی پر سردار کا مکمل کنڑول ہوتا ہے۔یہ سردار کی صوابدید ہے کہ وہ کس کو کیا مراعات دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب سرداری نظام مضبوط ہو ا تو دولت کی فروانی اور طاقت کے غرور میں قبیلے کے دیگر لوگ غریب ہوتے گئے اور ہر کام میں سرداروں کی محتاجی اور آزاد ہونے کی جبلت نے اُن میں بغاوت کی سوچ کی بنیاد رکھی۔ لیکن بے بسی اور مجبوری کی وجہ سے وہ اگر آواز اُٹھاتے بھی تو اُن کی آواز دبادی جاتی۔ سرداروں کی نفسیات ُحکمرانی کی طرف مائل ہوگئی ۔ اُنہیں کسی کے دُکھ سُکھ سے کوئی غرض نہ رہی ۔ مظلوموں کے اندر غُصہ اُبھرتا رہا اور اسی غُصے کو ان سرداروں نے ہتھیار بنالیا۔ وہ لوگ جو سرداری نظام کے خلاف تھے اُنھیں ہتھیار دے کر قتل و غارت گری اور توڑ پھوڑ کی طرف مائل کر دیا۔ اس طرح سرداروں نے اپنی سرداری کو بھی مضبوط کیا اور یہ تاثر دیا کہ اُن کے لوگ حکومت سے بات چیت کرنے کے حق میں نہیں یا اتنے باغی ہوچکے ہیں کہ اُن کے کنڑول میں نہیں ہیں۔ دوسری طرف اُن لوگوں کو ورغلایا اور بہکایا اور غلط تاثر دیا کہ حکومت اُن کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہے جب کہ وہ مظلوم اور حق بجانب ہیں ۔ یہ سردار مُسلسل حکومت میں بھی رہے اور کروڑوں روپے رائلٹی بھی حاصل کرتے رہے جس کا بہت کم علم اُن کے قبیلے کے لوگوں کو ہے۔ خود یہ سردار حکومت کے ساتھ اپنی مرضی کے معائدے کر کے فائدہ اُٹھاتے رہے اور حکومت کو یقین دلاتے رہے کہ وہ حالات کو ٹھیک کر لیں گے۔حکومتیں بھی یہ غفلت کرتی چلی آئیں کہ اُس نے لوگوں کو الیکشن میں آگے آنے کے لیے ہمت افزائی نہ کی اور نہ ہی منتخب نما ینٔدوں کو اہمیت دی ۔اس طرح وہ سرداروں کی باتوں میں آکر اُن کو مراعات اور وقت دیتی رہیں اور وہاں کے لوگوں کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ حکومت نے جو بھی ترقیاتی منصوبے شروع کئے اِن سرداروں نے اُ ن پر بھی اعتراض کر کے یا ردوبدل کر کے اُنہیں یا تو ناکام بنا دیا یا اُن میں دیر کردی ۔ اس طرح لوگوں کے لئے خوشحالی کے منصوبے سبوتاژ کر دئیے ۔

یہ سردار اتنے طاقتور ہیں کہ کسی کی نہیں سُنتے ۔ اپنے روایتی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے کبھی اپنی قدروں، ثقافت اور کبھی غیرت کے نام پر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ۔ترقی کے ہر منصوبے کو روکنے اور رخنہ ڈالنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر بلوچستان کے نوجوانوں کو نوکریاں مل گئیں اور اُن کے گھروں میں خوشحالی آئے گی ۔اُنہوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تو وہ ان سرداروں کی قید سے آزاد ہو جائیں گے۔ اُن کی خود ساختہ حکومت ختم ہوجائے گی۔افواج پاکستان میں جوق در جوق نوجوانوں کی شمولیت نے یہ ثابت کر دیاکہ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور جری ہیں ۔ وہ اپنے پاکستان کی حفاظت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور اپنے صوبے میں امن و امان کے خواہاں ہیں ۔ بلوچستان میں اگر معدنیات اور گیس کے وسائل کا اندازہ لگایا جائے تو پاکستان کا سب سے امیر ترین صوبہ بلوچستان ہے۔ گوادر کی تعمیر نے بھی بلوچستان کو ایک بین الاقوامی مقام دیا ۔اس طرح بلوچستان نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم ہے۔ ذرائع ابلاغ نے جس طرح بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی کی ہے اُس سے لوگوں کو یہ شعور ہونے لگا ہے کہ اُن کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ وہ بھی حقوق رکھتے ہیں اور اُنہیں بھی موقع ملنا چاہیے ۔ لیکن یہ احساس صرف اُن لوگوں تک محدود ہے جن کی رسائی ان ذرائع ابلاغ تک ہے ۔ ورنہ وہ غر یب طبقہ جو پِس رہا ہے اُن کو تو سردار کے علاوہ باقی دنیا میں کیا ہورہا ہے علم ہی نہیں ہے۔

اب جب کہ الیکشن قریب ہیں مرکزی حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے مائل کریں اور سہولت بھی فراہم کریں ۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ صدقِ دل سے بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اسی سرداری نظام کو جو رکاوٹیں پیدا کررہا ہے مثبت انداز میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنے کے طریقے سوچے جائیں ۔ جتنا زیادہ لوگوں کو علم اور شعور ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اچھے فیصلے کر سکیں گے۔ بلوچستان کے ہر مسئلے کا حل نیت کے نیک ہونے اور عملی قدم اُٹھانے پر ہے ۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 47173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.