سربجیت سنگھ کی موت پاکستانی حکومت کی غیر ذمہ داری، نااہلی اور ناقص کارکردگی کا
ثبوت ہی نہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں میں ایسے عناصر موجود ہیں
جو ہند۔پاک دوستی کے دشمن ہیں جو جب بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں خوش گوار قربتوں
کے آثار دیکھتے ہیں اپنا کمال دکھادیتے ہیں۔ ماضی میں ایسا کئی بار ہوا ہے اور نہ
جانے کب تک ہوتا رہے گا؟
سربجیت کی موت پر جوہنگامہ اٹھاہے اسی کے شور میں ہم کو پولیس کی حفاظت میں دوران
سفر ہلاک کئے جانے والے شہید انجینئر محمد یونس یاد آئے۔ پونے کی جیل میں مارے جانے
والے قتیل صدیقی کی شہادت یاد آئی۔ محمد یونس کو شہید کرنے والے پولیس کے ملازمین
تھے جو شہید محمدیونس کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ سربجیت کو مارنے والے اس کی حفاظت
کے ذمہ دار نہ تھے لیکن پولیس سربجیت کو بچانہ سکی۔ بچانے میں ناکامی بھی سنگین جرم
ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سربجیت کی ہلاکت اور قتیل صدیقی کی ہلاکت میں کوئی فرق نہیں
ہے۔ قارئین کو تو یادہی ہوگا کہ قتیل صدیقی صرف مشتبہ ملزم تھے سربجیت کی بے گنا ہی
ثابت نہیں تھی اس کو مشکوک بنانے والی اس کی وہ حرکت ہے جو اس نے خود کو مسلمان
بتانے کے لئے نہ صرف اپنا نام اسلامی رکھا تھا بلکہ ختنہ بھی کروالی تھی۔ اخبار
’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بتایا ہے کہ سربجیت ’را ‘(RAW)‘کا خاص ایجنٹ تھا لیکن حکومت
ہند اِس کو نہیں مانتی ہے۔ لیکن ہمارا میڈیا اس تعلق سے جان کر بھی انجان بنارہا۔
اگر مان لیا جائے کہ سربجیت پاکستانی سپریم کورٹ کے غلط فیصلے کا شکار ہوا تو افضل
گرو سپریم کورٹ کی وضع کردہ اصطلاح ’’اجتماعی ضمیر کی تسلی‘‘ کے تحت تختہ دار پر
چڑھادیا گیا تھا۔ شہید قتیل تو کسی عدالت کا فیصلہ تو دور کی بات ہے عدالت میں فرد
جرم عائد کئے جانے کی منزل سے تک گزرا نہیں تھا۔ اب قتیل شہید، افضل گرو اور سربجیت
کی موت پر سرکاری وغیرسرکاری ردِعمل کا تقال کریں تو صاف پتہ چلے گا کہ ملک میں
مسلمان سے کیا سلوک ہورہا ہے اس فرق کو آپ اور ہم پوری طرح سے محسوس نہیں کرتے ہیں
تو غیر کیا محسوس کریں گے؟ قتیل صدیقی کی شہادت پر مسلمان قائدین، علماء اور
دانشوروں کی ’’مصلحت آمیز خاموشی‘‘ کو مجرمانہ کہا جائے گا۔ سربجیت کی موت کے بعد
شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی اگر ضمیر فروشی نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟ فاروق
عبداﷲ اور کئی بے حس مسلمان کانگریسی قائدین درگاہ شریف اجمیر کے دیوان زین
العابدین، مولانا خالد رشید فرنگی محل اور کئی دیگر کم تر درجے کے علماء نے جوزور
خطابت سربجیت کی موت پر دکھایا تو کیا ان اکابرین کو قتیل صدیقی کی شہادت کا علم نہ
تھا یا کچھ کہنا ان کے مفادات اور مصلحتوں کے خلاف تھا؟ اجمیر کی درگاہ کے دیوان
اور شاہی امام جامع مسجد دہلی کو سیاست سے دور رہنا چاہئے جس طرح قانون ساز مجالس
کے اسپیکر غیر جانبدار رہتے ہیں ان کو بھی کم از کم غیر جانبدار رہنا چاہئے۔
سربجیت کی موت پر ٹی وی چینلز کے اٹھائے ہوئے طوفان کے ذکر سے پہلے یہ بتادیں کہ
سردجنگ میں مبتلا حریف ممالک ہی نہیں بلکہ پڑوسی اور دوست ممالک بھی ایک دوسرے کی
جاسوسی کرتے ہیں یہ نظام عام طور پر ہر ملک کی خفیہ اور جاسوسی ایجنسیاں چلاتی ہیں۔
حکومت بظاہر لاتعلق رہتی ہے اور اگر کسی کا جاوس پکڑا جائے تو حکومت اس کو قبول
نہیں کرتی ہے۔ ہندوستان پاکستان میں جاسوس بجھواتا رہا ہے اس کا اعتراف تو پاکستان
سے رہا ہوکر واپس آنے والے جاسوس سرجیت سنگھ نے حال ہی میں کیا تھا۔ ہنگامی حالات
کے بعد جب مرارجی بھائی دیسائی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے جاسوسی ایجنسی ’’راRAW‘‘
کے اخراجات کم کردئے تھے۔ پاکستان جاسوس بجھوانے کی ضرورت پر سوال اٹھایا تھا۔ اسی
طرح ہندوستان میں بھی پاکستانی جاسوس بلاشبہ سرگرم عمل رہتے ہیں اور ہیں۔
سربجیت کی موت پر جو ماتم ہوا بلکہ ہنگامہ ہوا اور ٹی وی چینلز نے جو جنگ کا ماحول
پیدا کردیا تھا اور حکومت ہند کے سربجیت کو قومی ہیرو بنادیا ان ساری باتوں کا کوئی
جواز نہیں ہے۔ اس کی وجہ ٹی وی چینلز پر کو دی جانے والی غیر محدود آزادی ہے اور
حکومت کی سنگھ پریوار کے آگے کمزوری دکھانا ہے۔ بی جے پی منموہن سنگھ پر کمزور
حکومت ہونے کا جو الزام لگاتی ہے وہ اپنی جگہ سچ ہے۔ یو پی اے کا دور اول ہو یا دور
دوم ہر دور میں بی جے پی سے خالف رہی۔ 2004ء میں برسراقتدار آنے کے بعد نریندر مودی
کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے احتراز کیا کیونکہ اسے بی جے پی کے ردِعمل کا
ڈرتھا۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات پر عمل نہ کرنا گجرات کے
مظلوموں ’’انکاؤنٹرس میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمانوں کے بارے میں
تحقیقات سے گریز بٹلہ ہاؤس کی انکوائری نہ کروانا اور افضل گرو کو پھانسی دینے میں
عجلت دکھانا۔ (حکومت کی کمزوری کے ثبوت ہیں)غرض کہ بی جے پی کے مقابلے میں حکومت کی
کمزوری کی فہرست بہت طویل ہے۔ سربجیت کو قومی ہیرو کا درجہ دے کر حکومت نے بی جے پی
کو منفی قوم پرستی میں مات دے دی ورنہ سربجیت اگر عام سے معصوم و مظلوم شہری تھے جو
پاکستان کے مظالم کا شکار ہوئے تو پاکستان کے مظالم کا شکار ہونے والا ہر بھارتی
سرکار کی عزت و احترام کے مستحق تھا تو سوال یہ ہے 1990ء سے 2005ء تک اس قدر قابل
احترام فرزند ہند کی خبر کیوں نہیں لی گئی تھی؟ اگر ظالمانہ انداز میں مارپیٹ کے
ذریعہ جیل میں موت ہوجائے تو نہ صرف قتیل صدیقی بلکہ چند ماہ قبل پاکستانی جیل میں
مارپیٹ سے ہلاک ہونے والے ہندوستانی قیدی چمیل سنگھ کو ان سارے اعزازات کا مستحق
کیوں نہیں سمجھا گیا جو سربجیت کو دئے گئے۔ دہلی کی جیل میں 16دسمبر کو مشہور زنا
باالجبر جرم کے ایک کلیدی مجرم رام سنگھ نے دہلی جیل میں خودکشی کرلی تھی! جیل میں
خودکشی تو قتل سے زیادہ سنگین بات ہے!۔ ہندوستانی جیلوں میں پاکستانیوں پر اور
پاکستانی جیلوں میں ہندوستانی قیدیوں پر مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سربجیت کے
معاملے میں حکومت ہند نہ صرف بی جے پی بلکہ ٹی وی چینلز کے دباؤ میں آگئی۔
سربجیت کی شاندار پیمانے پر آخری رسومات کی خبریں ابھی گرم ہی تھیں کہ جموں کی جیل
میں پاکستانی قیدی ثناء اﷲ پر حملے کی خبر نے ہندوستان کو پاکستان کے برابر لاکھڑا
کیا اس کی ساری ذمہ داری صرف اور صرف ٹی وی چینلز پر ہے۔ جنہوں نے بقول ایک معروف
صحافی کے نیوز روم کو جنگ کے زمانہ کا نیوز روم بنادیا تھا۔ سربجیت کی بہن دلبیر
کور کے جذباتی اور نامناسب بیانات بلکہ بھڑکانے والی باتوں کو بار بار یوں بتارہے
تھے جیسے ملک کی اہم ترین خاتون یہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انصار برنی پر رشوت طلب
کرنے کے رکیک الزامات لگاکر برنی صاحب پر بہتان نہیں لگایا گیا بلکہ درجنوں
ہندوستانی قیدیوں کو پاکستانی جیلوں اور صومالی یرغمالیوں سے رہائی دلانے کے لئے
(چندہ جمع کرکے) کوشاں رہے برنی صاحب پر دلبیر کور نے الزام لگاکر احسان فراموشی کی
لیکن میڈیا کے لئے یہی سب کچھ تھا۔
سربجیت کو منموہن سنگھ کے خراج عقیدت کے علاوہ آخری رسومات کی شان و شوکت سے پتہ
چلتا تھا کہ وہ ایک قومی ہیرو ہے جیسا کہ عرض کیا گیا ہے 2005ء تک اس سربجیت کی فکر
ان کی ڈرامہ باز بہن کو بھی اتنی نہ تھی۔ اگر سربجیت کی اتنی ہی اہمیت تھی تو اس کو
افضل گرو کے بدلے بھی حاصل کیا جاسکتا تھا ۔ کشمیریوں سے پاکستانی حکومت کی محبت کی
بھی آزمائش ہوجاتی۔ افضل گرو مرحوم بہر حال اس قدر خطرناک تو نہ تھے کہ ان کی رہائی
ملک کے لئے مسئلہ بن جاتی۔ جاسوسوں اور ایجنٹوں کا تبادلہ خفیہ مذاکرات اور لین دین
سے حکومتوں کو درمیان میں لائے بغیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ سربجیت کا
بھگت سنگھ سے مقابلہ نہ کریں اور سنگھ پریوار کی جعلی یا منفی قوم پرستی سے حکومت
خود کو دور رکھے ورنہ یہی نام نہاد جذبہ وطن پرستی فاشزم کی راہ پر ملک کو لے
جاسکتا ہے۔ سربجیت، ثناء اﷲ، انجینئر محمد یونس، عشرت جہاں اور قتیل صدیقی سب سے
برابر کا سلوک کرنے میں ہی ملک کی بھلائی ہے۔ |