ہم تمام دوست رات کوبیٹھے گپ شپ کررہے تھے ۔کہ میرے موبائل پر ایک ایس ایم ایس آیا
جس کو پڑھ کرمجھے بہت زور سے شوق لگا۔ ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ عمران خان 16فٹ
بلندی سے گر کر شدید زخمی،دماغ پر چوٹیں لگی ہیں۔ یہ پڑھتے ہی میرے ذہن میں الٹے
سید ھے وسوسے آنے لگے اور بے نظیر کی شہادت والی فلم میرے ذہن میں گردش کرنے لگی۔
اس وقت بھی میں ایسے ہی گھر سے باہر تھا جب مجھے بے نظیر کے زخمی ہونے کی اطلاع
میرے دوست نے دی اور آج پھر وہی دوست عمران خان کے زخمی ہونے کی اطلاع دے رہا تھا۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے ایک امیدوار قومی اسمبلی کامجھے ایس ایم ایس آیا جس میں
عمران خان کے لیے دعا کی اپیل کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد پاکستان بھر میں عمران
خان کے لیے دعائیں شروع ہوگئیں۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی عمران خان کی تندرستی کے لیے
فوٹیج پوسٹ کرنے لگا۔ عمران خان کے مخالفین ہوں یا حمایتی سب ان کے صحت کے بارے میں
فکر مندہونے لگے۔ ہر طرف عمران خان کے حادثے کے بارے میں گفت وشنید کی جاری تھی۔ ہر
گھر میں عمران خان کا ذکر ہورہا تھا ۔ مائیں بہنیں اور بیٹیاں سب اس کے لیے دعاگو
تھیں۔
سیاستدان بھی اس وقت کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ سب نے اپنے ساتھی سے بھر پور اظہار
ہمدردی کی۔ سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے سب سے زیادہ حریف مسلم لیگ ن کے صدر
نوازشریف نے عمران خان سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اپنے اگلے دن کی تمام سیاسی
سرگرمیاں منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔جماعت اسلامی کے سید منور حسن، ایم کیو ایم کے
الطاف حسین، صدر آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں نے بھی اس واقعے پر دلی دکھ کا
اظہار کیا ۔
یہاں پر میں میاں نواز شریف کا ذکر نہ کروں تو ان سے زیادتی کے مترادف ہوگا کیونکہ
عمران خان کی سب سے زیادہ سیاسی حملے بازی (کیونکہ یہ تنقید صرف جلسے جلسوں تک ہوتی
ہے) نواز شریف کے خلاف ہوتی ہے مگر میاں صاحبان نے اپنے کشادہ دل کی طرح کشادہ
خیالات کااظہار عمران خان سے یکجہتی کے لیے نہ صرف سیاسی سرگرمیاں منسوخ کیں بلکہ
رات کو ہی میاں شہباز شریف عیاد ت کرنے شوکت خانم ہسپتال پہنچ گئے۔ اس سے پتہ چلتا
ہے کہ ان میں ایک دوسرے کے لیے کتنی محبت ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ اس وقت ہمارے شہر میں تحریک انصاف کے جلسے ہورہے تھے اوروہ
بھی ایک نہیں دو۔ ایک طرف ایم پی اے کے امیدوار اور دوسری طرف ایم این اے کے
امیدوار جلسہ کررہے تھے مگر انہوں نے نہ تو اپنا جلسہ منسوخ کیا اور نہ ہی کوئی
ایسی خاص عمران خان سے ہمدردی والی بات کی ۔ ان کو تو بس اپنے ووٹوں سے غرض تھی
البتہ ن لیگ کے خاص کارکن نے عمران خان کے حق میں نعرہ لگایا تومیں نے کہا کہ آج
عمران خان سے بہت محبت عیاں ہورہی ہے تو اس نے کہا کہ ”دل نواز شریف ہے اور دھڑکن
عمران خان“جب میں نے وضاحت کرنے کو کہا تو اس نے بتایا کہ دونوں لیڈر ملک کے خیر
خواہ ہیں۔ اگر عمران خان نے ورلڈکپ جیت کر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے تو
میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر
بنادیا ہے۔ اب کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے نواز شریف دل ہے
اور عمران خان ہماری دھڑکن ہے۔اس لیے دونوں ہستی پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
اگر ان میں سے کسی ایک کوکچھ ہوتا ہے تو وہ ہم سب کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
اس نے کہا کہ یہ تو سیاسی حریف ہیں مگر انسانیت کے ناطے تو ہم سب آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔
مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے ۔ویسے بھی تمام
سیاستدان اند ر سے ایک ہوتے ہیں مگر صرف عوام کودھوکا دیتے ہیں۔ اب الیکشن ہونے
والا ہے اور ہم لوگ ایک ایک ووٹ پر پاگل کتوں کی طرح جھپٹےں گے اور لڑیں گے کہ نوبت
یہاں تک آپہنچتی ہے کہ ہم ایک دوسرے قتل کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے مگر کبھی کسی
سیاستدان کو دیکھا ہے کہ سر عام ایک دوسرے کے سامنے گالم گلوچ ہوئے ہوں یا کسی کو
تھپڑ بھی مارا ہو۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو جہاں بھی ملیں گے بڑے پر تپاک اندازسے
ملیںگے اور ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنا تو درکنار ایک دوسرے کے فوتیدگی پر بھی جانا
پسند نہیں کرتے۔ اس میں کس کا قصورہے؟ فیصلہ آپ خود کریں۔ اگر یہ سیاستدان کسی
لیڈرکی وفات پر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکتے ہیںجیسا کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد کل
کے دشمن یعنی پی پی اور ن لیگ ایک ہوگئے اسی طرح آج عمران خان کے حادثے کی وجہ سے ن
لیگ نے نہ صرف پروگرام منسوخ کیے گئے بلکہ جو ایک دوسرے خلاف زبانی جنگ لڑ رہے تھے
وہ عیادت کرنے سب سے پہلے ہسپتال تک پہنچ گئے۔
اگریہ لوگ سب ملک کی خاطر ایک ہوجائیں تو میںحلفاً کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کیا
امریکہ بھی ہمارے قدموں میں ہوگا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ معدنیات
سے مالا مال ہے۔تعلیمی میدان سے لیکر کھیل کے میدانوں تک اس ملک کا نام روشن ہے ۔ان
سب سے بڑھ کر ایٹمی طاقت بھی ہے پھر یہ ملک دوسرے ملکوں سے پیچھے کیوں؟ صرف اور صرف
اس کی ایک وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ اگر پاکستان کو دنیا میں نمبر 1ملک بنا نا ہے تو
ملکی قیادت کو اپنے کرسی کے چکر اور اناکی لڑائی چھوڑ کر اس عوام کی خاطر ایک ہونا
پڑے گا اور پھر دیکھنا پاکستان کس طرح دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ شہادت
یا حادثات کی سیاست کو چھوڑ کر ملک اور عوام کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا
ہوگاورنہ عمران خان آئے یا نوازشریف ، زرداری آئے یا فضل الرحمن،سیدمنورآئے یا
الطاف حسین سب غیر ملکی قرضے تلے دبے ملک کے آقا بنیں گے مگر ان پر حکمرانی وہی ملک
کریں گے جنہوں نے پاکستان کو قرضہ دے رکھا ہوگا۔
مجھے کالم لکھنے پر جس بات نے مجبور کیاوہ یہ ہے کہ سیاستدان فوتیدگی یا حادثے پر
اکٹھے ہوسکتے ہیں توپھر ملک وقوم کے مفاد کے لیے اکٹھے کیوں نہیں چل سکتے؟ کیا
ہمارے اتحاد اور اتفاق کے لیے ہمیشہ کوئی حادثہ یا سانحہ ضروری ہے؟ہم کب تک ان
سیاستدانوں کو ہمدردی کے ووٹ دیتے رہیں گے۔ یہ لوگ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی
کرسکتے ہیں ۔ اس لیے یہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا کر ووٹ لے جانے میں کامیاب ہوجاتے
ہیں مگرہم کب اپنی عقل سے سوچ کر ووٹ کا استعمال کریں گے؟ کبھی ان لوگوں کو ہماری
غریبی پر ترس آیا یا کبھی انہوں نے ہماری ہمدردی میںکسی بھی چیزکی قیمت کم کیں؟
کبھی ہماری فوتگی یا حادثہ پر ہمارے لیے کچھ کیا ۔ نہیں تو پھر ہم اتنی جلدی کیوں
جذباتی ہو کر فیصلہ کر جاتے ہیں کہ پھر پانچ سال تک ان گناہوں کی سزا بھگتتے رہتے
ہیں۔ووٹ ڈالنے سے پہلے ذرا سوچئے یہ آپ کے اور آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے کسی
سے ہمدردی یا صلہ رحمی کا نہیں۔ |