ہفتے کے روز ملک بھر میں قومی
اسمبلی کی 272 عام نشستوں میں سے 269 پر ووٹ ڈالے گئے۔ملک میں کل رجسٹرڈ
ووٹروں کی تعداد آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ نوے ہزار کے لگ بھگ تھی۔الیکشن کمیشن
آف پاکستان کے فراہم کردہ ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح
قریباً ساٹھ فی صد رہی ہے۔الیکشن کمیشن نے ’شفاف الیکشن‘ کے لیے کافی عرصے
سے انتظامات شروع کردیے تھے،الیکشن سے قبل چیف الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ
عوام الیکشن میں بھرپور حصہ لے کیونکہ اب کی بار تاریخ کے شفاف تریں الیکشن
ہوں کے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بارفوج کی مدد بھی لی ہے اس لیے دھاندلی
ہونے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ نادرا کے سربراہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی
کے ماہر طارق ملک نے بھی الیکشن سے قبل کہا تھا کہ ’ہر ووٹر کمپیوٹرائزڈ
قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) سے منسلک ہے اور ہر ایک سی این آئی سی
بایومیٹرک شناخت سے منسلک ہے۔ اس لیے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی
کہ کوئی آپ کا ووٹ ڈال دے یا پھر اپنا ووٹ ہی ایک سے زیادہ بار ڈال سکے۔‘
ماضی کی طر ح اگر جعلی ووٹ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی تو اسے آسانی کے ساتھ
پکڑ لیا جائے گا۔ ’ہر ووٹر کی ڈیجیٹل فوٹو ووٹر لسٹ میں موجود ہے اور بیلٹ
پیپر حاصل کرنے سے قبل اسے اپنے نام کے سامنے اپنے بائیں انگوٹھے کا نشان
لگانا ضروری ہے۔‘اگر اس بابت کوئی شکایت ہوتی ہے تو بایومیٹرک ڈیٹا کے
ذریعے اس مخصوص ووٹر یا کسی خاص پولنک سٹیشن کے ووٹروں کے بارے میں آسانی
سے جانچ ہو سکتی ہے۔
شفاف انتخابات کے یہ تمام دعوے اس وقت ہوا میں روئی کے گالے کی طرح اڑ گئے
جب دھاندلی کے باعث الیکشن کے روز جماعتِ اسلامی، مہاجر قومی موومنٹ اور
سنی تحریک اور سنی اتحاد کونسل نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور
مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرے
گی۔ان جماعتوں کے سربراہوں نے الیکشن کے دن ایک پریس کانفرنس بلائی جس میں
کہا کہ کراچی اور حیدر آباد میں تاریخی دھاندلی ہوئی ہے، لہٰذا ہم انتخابات
کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔جماعت اسلامی نے الیکشن کے روز ہی تاریخی دھاندلی کے
رد عمل میں اپنے تمام امیدواروں کو کراچی اور حیدرآباد سے دستبردار
کردیا۔ہفتے کے روز شام کے وقت الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا اور
پیر کے روز کراچی ا ور حیدرآباد میں ہڑتال کی کال دے دی،لیکن اتوار کے روز
ہڑتال کی کال واپس لیتے ہوئے پیر کے روز یوم سوگ منایا۔ دوسری جانب پاکستان
تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے
کہا کہ ہمارے امیدواروں کا مارا پیٹا گیا ہے۔ ہمارے مطالبے کے باوجود پولنگ
اسٹیشن پر فوج تعینعات نہیں کی گئی۔بیشتر سیاسی جماعتوں نے ملک کے سب سے
بڑے شہر کراچی میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی شکایات کی ہیں اور انھوں نے
الزام عاید کیا ہے کہ وہاں مسلح افراد نے پولنگ عملے اور اسٹیشنوں کو
یرغمال بنا رکھا تھا اور وہ بلاخوف وخطر بیلٹ پیروں پر انتخابی نشان پر
ٹھپے لگا رہے تھے۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بعض پولنگ مراکز
پر بیلٹ پیپروں پر بڑے منظم انداز میں مہریں لگانے کی ویڈیوز بھی سامنے آ
گئی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والی ویڈیو میں دو چار لوگ کراچی
میں ایک پولنگ اسٹیشن میں پولیس کی نگرانی میں بیلٹ پیپروں پر مہریں لگا کر
انھیں بیلٹ باکس میں ڈال رہے ہیں۔ حیدرآباد میں بھی اسی طرح بعض خواتین
قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں بیلٹ پیپروں پر مہریں لگا کر بیلٹ باکس میں
ڈال رہی ہیں۔سوشل میڈیاانتخابات میں دھاندلی کی ناخوشگوار وڈیوز اور تصاویر
کے ساتھ گرم میدان بن چکا ہے۔انتخابی یوم میں دھاندلی پاکستان میں کوئی نئی
چیز نہیں لیکن ان واقعات کی فلم بنانا اور دھاندلی کو بے نقاب کرنا پوری
دنیا میں اک نیا طریقہ ہے۔گو کہ پولنگ بوتھس کے اندر موبائل فون لے جانے کی
اجازت نہ تھی، لیکن مشاہدہ کیا گیا کہ پریزائیڈنگ افسران نے ووٹرز کو
موبائل فونز لے جانے سے منع نہیں کیا۔ اور اس کے نتیجے میں کیمرے والے
موبائل سے لیس ہر فرد نے پولنگ اسٹیشن میں ہونے والی دھاندلی کی وڈیوز
بنائیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات کے دوران دھاندلی کی بیشتر وڈیوز کراچی
اور حیدرآباد سے سامنے آئی ہیں۔
کراچی میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کے کارکنان نے بھرپور
احتجاج کیا اور الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا۔ان کا کہنا
تھا کہ ہمیں زبردستی ہرانے کی کوشش کی جارہی ہے، الیکشن کے دن بے تحاشہ
جعلی ووٹ ڈالے گئے۔الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر
دھاندلیوں کے الزامات کے پیش نظر کراچی میں انتخابات پر تحفظات کا اظہار
بھی کیا۔میڈیا سے گفتگو میں سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کہا
کہ انہوں نے قوم سے شفاف انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا تاہم کراچی
میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے پیش نظر اس کی شفافیت
پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ دھاندلی سے بہتر ہے کہ انتخابات نہ ہوں، تمام
حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ کہیں سے شکایت نہیں
آئی لیکن کراچی اور حیدرآباد میں تو شکایتوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔
دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے ایک حیرت انگیز فیصلے کی ایک اور مثال! کراچی
میںصوبائی اسمبلی کےحلقہ پی ایس 128لاندھی میں متحدہ دینی محاذ کے امیدوار
مولانا اورنگزیب فاروقی نے بائیس ہزار ووٹ لے کر شاندار کامیابی حاصل کی،
تمام چینلز نے ان کی کامیابی کی خبر بھی نشر کردی لیکن اس خبر کے اگلے روز
الیکشن کمیشن نے اس حلقے سے ان کی شکست کا اعلان کردیا۔عام انتخابات کے
دوران کراچی میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 128 لانڈھی میں دھاندلی اور
نتائج میں تبدیلی کے خلاف شہر کے متعدد علاقوں میں متحدہ دینی محاذ نے داﺅد
چورنگی، ملیر 15، سپر ہائی وے اور غنی چورنگی پر متحدہ دینی محاذ کے
کارکنان کا احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھر دیا۔ متحدہ دینی محاذ کے مرکزی
رہنما مولانا اورنگزیب فاروقی کا کہنا تھا کہ پی ایس 128 پر متحدہ دینی
محاذ کی واضح فتح کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔ 11 مئی کوکئی پولنگ اسٹیشنز
پر پولنگ نہیں ہوسکی۔ان پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کے بغیر الیکشن کمیشن کیسے
نتائج کا اعلان کرسکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن معاملے کا
سنجیدگی سے نوٹس لے۔
لاہور میں بھی تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگایا اوردھاندلی کے خلاف
دھرنا بھی دیا،اسی طرح جھنگ میں ملی بھگت سے بے مثال دھاندلی کی گئی۔جھنگ
کے حلقہ این اے 89 سے مولانامتحدہ دینی محاذ کے مولانا احمد لدھیانوی نے
انتخابات میںحصہ لیا تھا،اس سیٹ پرالیکشن سے قبل ہی ان کے جیتنے کے سو فیصد
امکانات ظاہر کیے جارہے تھے۔متحدہ دینی محاذ کے مرکزی رہنما امیدوار حلقہ
این اے89 پی پی 78 جھنگ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے حلقہ این اے 89 کے
نتیجے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور ہزاروں کی تعداد میں دھرنے میں موجود
خواتین و مردوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2008ءکا الیکشن بھی دھاندلی کے
ذریعے جیتا گیا تھا اور موجودہ الیکشن میں دوسرے دن شام 4 بجے رزلٹ کا
اعلان کرکے ہمارے مخالف کو ملی بھگت سے جتوایا گےا ہے ہم اس فیصلے کو کسی
صورت قبول نہیں کرتے اور کہا کہ ہمارے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے گرفتار
کیا جاتا رہا ہے اور پولنگ پر ہمارے سیاسی مخالف غنڈا گردی کے ذریعے جعلی
ووٹ کاسٹ کرتے رہے ہیں، پریزائیڈنگ آفیسر آج صبح 11 بجے تک بیلٹ پیپر کچہری
لے کر آتے رہے ہیں جن سے کسی آفیسر نے نہیں پوچھا کہ بیلٹ پیپر کے بنڈل رات
بھر کہاں رکھے گئے ہیں۔ ریٹرننگ آفیسر ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے
ان کی حمایت میں بولتے رہے کہ یہ کم تعلیم یافتہ تھے اور وہ اپنا کام رات
کو مکمل نہیں کرسکے۔ واضح رہے کہ جھنگ کے حلقہ این اے 89 کا رزلٹ دوسرے دن
بھی نہ سنایا جاسکا۔ پولنگ پریزائیڈنگ آفیسر دوسرے دن 11 بجے تک بیلٹ پیپر
لے کر ریٹرننگ آفیسر کے پاس پہنچتے رہے جس سے حلقہ این اے 89 میںشفاف
الیکشن پر سوالیہ نشان ثبت ہوگیا۔ جھنگ کے حلقہ این اے 89 کی حالت قبائلی
علاقوں کی طرح بنادی گئی اس حلقہ میں متحدہ دینی محاذ کے مرکزی رہنما علامہ
محمد احمد لدھیانوی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے جبکہ ان کے مد مقابل سابق
وفاقی وزیر شیخ وقاص اکرم کے والد شیخ محمد اکرم تھے جبکہ الیکشن کے دن شام
7 بجے سے میڈیا پر شیخ محمد اکرم کی کامیابی کا اعلان کیاگیا۔
گزشتہ روز فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے 11 مئی کے انتخابات کے بارے میں
اپنے مشاہدہ کاروں کی ابتدائی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
بہت سارے علاقوں میں امیدواروں کے حامیوںکی جانب سے پولنگ بوتھ پر قبضہ کیا
گیا، 3500 پولنگ اسٹیشنوں پر ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے جن میں سے 693
پولنگ سٹیشنوں پر سنجیدہ نوعیت کے تشدد کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ 36 پولنگ
اسٹیشن ایسے تھے جہاں پولنگ بوتھ پرامیدواروں کے حامیوں نے قبضہ کرکے
دھاندلی کی جبکہ 121 پولنگ سٹیشنوں کے اندر فافن کے مشاہدہ کاروں کو داخلے
کی اجازت نہ ملی اور 93 پولنگ سٹیشنوں پر فافن کے مشاہدہ کاروں کو باقاعدہ
طور پر ہراساں کیا گیا یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فافن کے چیئرمین
زاہد اسلام نے 41 ہزار مشاہدہ کاروں کی جانب سے ملک بھر سے بھیجے گئے
تجزیوں کی ابتدائی رپورٹ ریلیز کردی۔ہیومن رائٹس نیٹ ورک کراچی کے صدر
انتخاب عالم سوری نے کہا ہے کہ کراچی میں الیکشن دوبارہ فوج کی نگرانی میں
کرائے جائیں، بندوق کے زور پر تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی، فہرستوں میں
اتنی بے ضابطگیاں پائی گئیں کہ عوام دن بھر اپنا نام تلاش کرنے کے لیے
پریشان رہے۔ کئی ووٹر ووٹ ڈالے بغیر چلے گئے۔ انتظامیہ اور الیکشن کمیشن
خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا ہے کہ الیکشن
کمیشن کراچی میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، خون
خرابے سے بچنے کے لیے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔ جماعت
اسلامی تمام تحفظات اور احتجاج کے باوجود جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے
انتخابات کے عمل میں شامل ہوئی مگر بدقسمتی سے 11مئی کو الیکشن کے نام پر
جس طرح ڈھونگ ہوا ہے وہ کراچی اورحیدرآباد کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق
ہے۔جمعیت علماءاسلام کراچی کے امیر قاری محمد عثمان نے کہا کہ کراچی میں
تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے جدید طرز انتخاب کے دعوے
دھرے کے دھرے رہ گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کراچی کی حساسیت کا احساس کریں۔
ریٹرننگ افسرعرفان میو ¿کا اتوار کی شام 5 بجے تک کا موقف تھا کہ 40 پولنگ
اسٹیشنوں کا نتیجہ غائب ہوگیا ہے۔ قاری محمد عثمان نے کہا کہ ریٹرننگ افسر
کا یہ انکشاف معنی خیز ہے، ہم کسی صورت میں ایسے نتائج کو تسلیم نہیں کریں
گے۔ مزدور رہنما لیا قت علی ساہی نے 11 مئی2013ءکو ملکی سطح پر ہونے والے
تاریخی الیکشن پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی سیاسی پارٹیوں نے
کراچی کے حلقوں میں الیکشن سے دستبر دار ہو کر دھاندلی اور ٹھپا مافیا کے
چہرے بے نقاب کر دیے ہیں۔جب کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن سے قبل بہت
سے دعوے کیے جارہے تھے کہ عوام کو ہر طرح کا پولنگ اسٹیشن پر تحفظ فراہم
کیا جائے گا اور الیکشن پر مامور عملے کو بھی با اختیار بنا دیا گیا ہے اگر
کوئی ڈیوٹی پر تعینات شخص بھی کسی منفی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اس کے
خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، الیکشن کے روز جو کچھ ہوا ہے
الیکشن کمیشن کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں بلکہ ماضی کے بھی تمام
ریکارڈ دھاندلی کے ٹوٹ گئے ہیں لیکن سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن اس کے
باوجود دعوے کیے جارہا ہے کہ کراچی میں شفاف الیکشن ہوئے ہیں ہم ان کے اس
غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کرتے ہیں۔اس سب کے باوجود الیکشن کمیشن نے
اپنے تئیں ان عام انتخابات کو شفاف قرار دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ انتخابی
نتائج میں کوئی کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا اس حوالے سے قومی نمائندگی
ایکٹ کے تحت طریقہ کار واضح کیا گیا ہے اور قوم بے فکر رہے ہم نے فول پروف
سسٹم بنایا ہے۔سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے کہا ہے کہ ملک میں شفاف
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمشن کی جیت
ساری قوم اور جمہوریت کی جیت ہے۔ |