۱۱ مئی کے الیکشن کا نتیجہ سب کے سامنے
آگیا جس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس الیکشن میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ
گئے ہیں اور اٰن سیاسی لیڈروں کو عوام نے مزید قبول کرنے سے انکار کر دیا
ہے اور یوں جمہوریت کی صحیح لفظوں میں فتح ہوئی ہے۔نتائج سے واضح ہو گیا ہے
کہ اب عوام نے ان کرپٹ ترین سیاستدانوں کو اٹھا پھینکا ہے۔ان بڑے بڑے سیاسی
برجوں میں پہلا نام جناب سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا ہے جنہوں نے
2008کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی مگر اب عوام نے انہیں اپنا نمائندہ
تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جس سے انہیں اپنے آبائی حلقہNA-51 گوجر خان
سے بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے مد مقابل مسلم لیگ نواز کے
امیدوار نے 121067ووٹ حاصل کیے جبکہ راجہ پرویز اشرف نے صرف 67146ووٹ حاصل
کیے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سابق وزیر اعظم پچاس ہزار ووٹ سے ہار گئے جو کہ
ایک بہت بڑی تعداد ہے اور تو اور راجہ صاحب اپنے آبائی پولنگ سٹیشن سے بھی
چند ووٹوں سے ہار گئے جہاں انہوں نے اپنا ووٹ بھی ڈالا تھی۔سابقہ وزیر اعظم
راجہ پرویز اشرف کا اپنے آبائی حلقے سے ہار جانا یہ واضح پیغام دے رہا ہے
کہ عوام اب تبدیلی چاہتی ہے ۔تبدیلی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تبدیلی صرف
تحریک انصاف کے اقتدار میں آجانے سے ہی آئے گی ۔
راجہ پرویز اشرف کے مد مقابل راجہ جاویداخلاص نے مسلم لیگ کے ٹکٹ سے پہلی
مرتبہ قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور شائد یہی تبدیلی
ہے ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی اپنے دو
حلقوں سے ہار گئیں۔ایک حلقے سے تو وہ پہلے ہی تحریک انصاف کے امدوار عثمان
ڈار کے حق میں دستبردار ہو گئی تھیں کیونکہ انہیں اپنے شکست واضح دکھائی دے
رہی تھی جبکہ دوسرے حلقے سے بھی نتائج موصول ہونے کے بعد ہار گئیں۔قمر
الزمان کائرہ کو بھی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ میاں منظور وٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما ہونے کے باوجود اپنی سیٹ کھو بیٹھے۔اس
طرح 2013کے الیکشن میں پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا جبکہ
پاکستان کے ایک اور صوبے خیبر پختونخوا سے اے این پی کا بھی صفایا ہو
گیاکیونکہ اے این پی خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہ لے
سکی۔ان بڑے بڑے الٹنے والے سیاسی برجوں میں مسلم لیگ ن کے امیدوار بھی شامل
ہیں جن میں سر فہرست NA-56سے شکست کا سامنا کرنے والے حنیف عباسی بھی ہیں
جن پر عمران خان واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اسی طرح راولپنڈی
کے حلقہNA-55سے شیخ رشید احمد نے نواز لیگ کے شکیل اعوان پر برتری حاصل کی
جبکہ چوہدری نثار علی خان بھی ایک حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار
غلام سرور سے شکست کھا گئے۔شکست کا سامنا کرنے والے مایہ ناز سیاستدانوں
میں راجہ ریاض،بشیر احمد بلور،احمد مختیار،ثمینہ گھرکی،اسفند یار ولی اور
سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹے شامل ہیں۔ْ
اب اگربات کی جائے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تو ثبوت اور شواہد یہی
بتا رہے ہیں کہ کراچی میں سر عام جعلی ووٹ ڈالے گئے اور عام عوام سے زبر
دستی ایک سیاسی پارٹی کے کارندوں نے اپنے امیدواروں کے انتخابی نشان پر
ٹھپے لگائے اور وہ انتخابی نشان پتنگ تھی کیونکہ یہ انتخابی نشان سوشل
میڈیا پر دھاندلی کی ویڈیو ز میں نمایاں دیکھی گئی اور اسی بنا پر اِس
پارٹی کے امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی قائم
کیا۔سوشل میڈیا پر موجود تمام دیڈیوز میں واضح نظر آرہا ہے کہ کراچی کے
تمام حلقوں میں زبر دست دھاندلی سے کام لیا گیا۔میڈیا کے نمائندوں نے جب
خواتین سے پوچھا کہ آپ نے کیسے ووٹ کاسٹ کیا تو ان خواتین کا کہنا تھا کہ
ہمیں تو بیلٹ پیپر پر ٹھپا لگانے ہی نہیں دیا گیا اور وہاں موجود لوگوں نے
خود ہمارے بیلٹ پر ٹھپا لگا کر بیلٹ پیپر ڈبے میں ڈال دیا۔اسی طرح ایک اور
ویڈیو میں دیکھا کہ کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن کے باہر کھڑے رینجرز کے
اہلکاروں کو ایک عورت پہننے کے لیے چوڑیان دے رہی ہے اس عورت کا کہنا ہے
پولنگ کہ اندر دھاندلی ہو رہی ہے اور آپ لوگ باہر کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں
آپکو چاہیے کہ یہ چوڑیاں پہن لیں۔ہو سکتا ہے کہ اسی طرح کے بے شمار واقعات
پاکستان کے دوسرے پولنگ سٹیشن پر بھی ہوئے ہوں مگر وہاں سے کوئی ٹھوس شواہد
موصول نہیں ہو سکے اس دھاندلی کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اب بھی چیف الیکشن
کمیشن فخروالدین جی ابراہیم یہ کہیں کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں تو یہ بڑے
افسوس کی بات ہو گی۔ |