ملک بھر میں 11مئی کو قومی اسمبلی اور
چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مجموعی طور پر پرامن اور عوامی جوش و
جزبے سے بھرپور رہے۔تمام دن پولنگ سٹیشنز پر ووٹروں کی لائینیں لگی رہیں
اور لوگوں نے ملک میں بہتری کے عزم و یقین کے ساتھ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے
کا اظہار کیا۔الیکشن کی خاص بات مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی اور پنجاب
اسمبلی میں نمایاں کامیابی،پیپلز پارٹی کی حسب توقع نمایاں شکست اور ملک
بھر میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی)کا متبادل قوت کے
طور پر سامنے آنا ہے۔پی ٹی آئی سے متعلق رائے تھی کہ یہ بیس پچیس سیٹیں لے
سکے گی لیکن عمران خان کے زخمی ہونے سے پی ٹی آئی کے حمایتی عوام میں مزید
جوش و خروش پیدا ہوا جس سے تحریک انصاف کو تیس سے چالیس کے درمیاں سیٹیں مل
سکیں۔صوبہ خیبر پختون خواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کا صفایا کرتے ہوئے تحریک
انصاف نے صوبائی حکومت قائم کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔کراچی میں اکثر
سیٹوں پر تحریک انصاف کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے جس سے ایم کیو ایم پر
عوامی سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔الیکشن کے دن تک یہی نظر آ رہا تھا
کہ تمام سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں خصوصاپیپلز
پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان پنجاب میں چند مقامات پر ’’ انڈر سٹینڈنگ‘‘
بھی دیکھنے میں آئی۔ہر کسی کا خیال تھا کہ تحریک انصاف خصوصا پنجاب میں
مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچائے گی لیکن انتخابی نتائج کے اعتبار سے پی ٹی
آئی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا صفایہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے
لئے بھی بڑا خطرہ بن گئی ہے ۔ سابق آمر صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی
حمایت سے ماضی میں قائم مسلم لیگ(ق) کا بھی الیکشن میں صفایہ نظر آیا جسے
کئی افراد مسلم لیگ ق کا تحلیل ہونا بھی کہتے ہیں ۔الیکشن میں پی ٹی آئی کے
حق میں نوجوانوں اور نابالغ بچوں کی حمایت اور جوش و جذبہ بھی اس الیکشن کی
ایک نمایاں بات ہے۔ان انتخابات میں امیدواروں کی کسی حد تک قانونی تقاضے
پورے کرنے سے متعلق چھان بین اور نادرا کی کمپیوٹرائیز ووٹر لسٹوں کی وجہ
سے الیکشن پروسیس سے متعلق عوامی اعتماد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اس الیکشن
میں ان شہریوں نے بھی جوش و خروش سے ووٹ دیئے جو الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کے
بجائے ’’پک نک ‘‘ منانے نکل جاتے تھے۔ ابھی تک کے اندازے کے مطابق الیکشن
میں ساٹھ فیصد سے زائد ووٹ پول ہوئے ہیں جو عوام کی طرف سے عوامی جمہوری
نظام اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر یقین و اعتماد کا واضح اظہار ہے۔
تحریک انصاف نے الیکشن میں جہاں ملک بھر میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا
وہاں راولپنڈی میں قومی اسمبلی کی دو اہم نشستوں این اے55 ، این اے56 اور
دو صوبائی نشستوں پی پی11اور پی پی12میں مسلم لیگ (ن ) کے امیدواران کی
ناکامی ،ان سیٹوں پر تحریک انصاف کی کامیابی سے بڑا موضوع ہے۔وفاقی
دارلحکومت میں بھی پی ٹی آئی نے غیر متوقع فتح کے جھنڈے گاڑے۔این اے 55میں
مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان اور تحریک انصاف کے
حمایت یافتہ شیخ رشید احمد کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں شیخ رشید احمد نے
نمایاں سبقت سے کامیابی حاصل کی۔ملک شکیل اعوان کا کہنا رہا کہ گزشتہ ضمنی
الیکشن میں چودھری نثار کی ہدایت پر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے متعدد
ارکان نے ان کی الیکشن مہم چلائی،وہ انہیں مختلف علاقوں میں لیجا کر تقریب
کے سٹیج پر بٹھا دیتے،حلقے کے مختلف علاقوں کے لوگوں سے شکیل اعوان کا براہ
راست رابطہ نہ ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ شکیل اعوان نے رکن اسمبلی کے طور پر
تقریبا تین سال کے دوران بلواسطہ رابطوں کو تو نظر انداز کئے رکھا لیکن
انہوں نے اپنے بلا واسطہ رابطوں کو بھی مکمل طور پر فراموش کر دیا اور
الیکشن مہم کے دوران بھی ان کی طرف سے حلقے کے مختلف علاقوں میں رابطوں میں
نمایاں کمزوری نظر آئی ۔اس کا نتیجہ حلقے کے عوام کی طرف سے ان کی مخالفت
کی صورت سامنے آیا۔این اے55میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی شکست کی ایک بڑی
وجہ راولپنڈی کے مقامی پارٹی رہنماؤں کی باہمی مخالفت،چپقلش اورعناد بھی
رہا۔کئی مقامی مسلم لیگی عہدیدار خود کو الیکشن لڑنے کا زیادہ حقدار سمجھتے
تھے اور اپنے انہی جذبات کے پس منظر میں انہوں نے شکیل اعوان کی کامیابی کے
لئے سرگرمی سے کام کرنے کے بجائے ’’چہرہ نمائی‘‘ سے ہی اپنی ذمہ داری پوری
کی۔ دوسری طرف فرزند راولپنڈی کا خطاب رکھنے والے شیخ رشید احمد نے اپنی
جماعت عوامی مسلم لیگ کے نشان ’قلم دوات‘ کے ساتھ ،پی ٹی آئی کی حمایت سے
اپنی انتخابی مہم نہایت سرگرمی سے چلائی ۔پیپلز پارٹی کا امیدوار این
اے55میں صرف موجود ہونے کی علامت کے طور کی کار کردگی دکھا سکا۔ اس الیکشن
میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے تقریبا تمام
دیرینہ ،نظریاتی کارکن تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔این اے 56سے مسلم
لیگی سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کا مقابلہ تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان سے تھا جو اپنے اس حلقے میں ایک جلسہ بھی نہیں کر سکے۔اس حلقے
میں فریقین کے درمیان کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی۔ملک کے ٹاپ کے سیاسی
تجزئیہ نگار حامد میر،سہیل وڑائچ اور دوسرے ٹی وی اینکرز نے وثوق سے این
اے55سے ملک سکیل اعوان اور این اے56سے حنیف عباسی کی کامیابی کی سیاسی پیش
گوئی کی تھی لیکن لگتا ہے کہ دارالحکومت میں بیٹھنے والے ملک کے یہ معروف
صحافتی ماہرین جڑواں شہر راولپنڈی کے عوام کی مشکلات،مصائب اور احساسات سے
یکسر بے خبر رہے ۔
راولپنڈی کے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 11سے مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن
ضیاء اﷲ شاہ چند سو ووٹو ں سے پی ٹی آئی کے امیدوارراجہ راشد حفیظ سے ہار
گئے۔اس حلقے سے ضیاء اﷲ شاہ کی کامیابی کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ضیاء اﷲ
شاہ کو شکیل اعوان کی نسبت کئی پارٹی عہدیداران کی طرف سے زیادہ ’ اندرون
خانہ ‘ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔یو سی 13میں مسلم لیگ (ن) کو ہولڈ کرنے
والوں نے برادری ازم کی بنیاد پر اندرون خانہ اپنی برادری کے ووٹ راجہ راشد
حفیظ کو دیئے۔دوسری طرف یو سی13سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رکن قومی
اسمبلی نے بھی پیپلز پارٹی کے صوبائی امید وار کے بجائے پی ٹی آئی کے
امیدوار راشد حفیظ کو برادری کے ووٹ دلائے۔یو سی13میں مسلم لیگ (ن) کو ہولڈ
کرنے والوں نے مسلم لیگی امیدواروں ملک شکیل اعوان اور ضیاء اﷲ شاہ کی ایک
بھی کارنر میٹنگ نہیں کرائی۔یو سی15میں بھی ضیاء اﷲ شاہ کو کئی جماعتی
عہدیداروں کی طرف سے عناداوراندرون خانہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔مسلم لیگ
(ن) پی پی 11کے صدر نے ملک شکیل اعوان اور ضیاء اﷲ شاہ کی کامیابی کے لئے
سرگرمی سے کام کرنے کے بجائے نمائشی انداز میں کام کیا۔مسلم لیگ (ن) کے ایک
عہدیدار نے پارٹی ڈسپلن کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے وقت پر اپنے کاغذات
نامزدگی واپس نہیں لئے جس سے پی پی11کی ووٹر پرچی پہ اس کا نام انتخابی
نشان ٹوکری کے ساتھ موجود تھا۔ پی پی 12میں سردار نسیم اور جازی خان کے
درمیان سخت مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے جازی خان کو کامیابی ملی۔سردار نسیم
کی ناکامی میں بھی کئی جماعتی عہدیداروں ،دودھ پینے والے مجنوؤں کی سازشوں
کا نمایاں حصہ رہا۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ راولپنڈی میں مسلم لیگ(ن) کو
تحریک انصاف سے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے نااہل، غیر ذمہ دار،غیر نظریاتی
مفاد پرست افراد کی کارستانیوں سے نقصان پہنچا۔ راولپنڈی کے یہ انتخابی
نتائج شہر کے عوام کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما چودھری نثار کی اس حکمت
عملی سے اظہار نفرت بھی ہے جس کے ذریعے راولپنڈی پہلی مرتبہ میں دیہاتی
علاقوں کی مانند تھانے کچہری کی سیاست کو مسلط کیا اور برادری ازم کی سیاست
کو ہوا دی۔راولپنڈی کے عوام نظریاتی مسلم لیگی ہیں لیکن علاقائی،مقامی
پارٹی کے ذمہ داران کی بد اعمالیوں نے انہیں ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کیا
ہے۔
اب نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ملک کے
وزیر اعظم بنیں گے۔میری رائے میں موجود الیکشن کے نتائج ملک کو درپیش سنگین
ترین صورتحال کے پیش نظر نہایت مثبت ہیں کیونکہ اب تحریک انصاف کی صورت
متبادل سیاسی ،پارلیمانی قوت موجود ہے ۔میری نظر میں میاں محمد نواز شریف
اس وقت پاکستان میں وزیر اعظم بننے کے لئے موزوں تریں شخصیت ہیں۔ وہ پہلے
دو مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔سابق دور حکومت میں اور خصوصا
اٹھارویں،انیسویں،بیسویں آئینی ترامیم سے ملک کے دفاع،خارجہ اور دوسرے اہم
امور کی فوج سے پارلیمنٹ کو منتقلی کا دروازہ کھلا،منتقلی شروع نہیں
ہوئی۔اب توقع کی جاتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی میں تمام
اہم قومی و ملکی امور کی اتھارٹی فوج سے پارلیمنٹ کو منتقلی کا عمل شروع ہو
جائے گا۔یہی وہ اصل بنیادی ضرورت ہے جو ملک و عوام کو مصائب و مشکلات سے
نکالتے ہوئے بہتری اور بقاء کی راہ پہ گامزن کر سکتی ہے۔ |