عمران خان نے لاہور میں جلسہ کرکے سیاسی
میدانوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ ہلچل کیوں نہ مچتی اتنا بڑا مجمع دیکھ کر تو
ہر کوئی اش اش کراٹھا۔ سیاستدانوں کو تو ویسے بھی اپنی واہ واہ کے لیے عوام
کی بہت زیادہ تعداد درکار ہوتی ہے۔ مینار پاکستان کے اس جلسے ہی نے تحریک
انصاف کی اصل بنیاد رکھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے عمران خان کی
پارٹی میں بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کی آمد شروع ہوگئی ۔یہاں تک کہ بہت سے
لوگ اقتدار کو ٹھوکر مار کر اس میں شامل ہوئے۔ خاص طور پر دو وزیر خارجہ (شاہ
محمود قریشی اور سردار آصف علی)اس کے علاوہ پاکستان بھر سے لوگوں نے تحریک
انصاف میں قدم رکھنا شروع کردیے۔
اسکے بعد پاکستان کے ہر کونے میں تحریک انصاف کے جلسوں نے لوگوں کو اپنی
طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ بطور کرکٹر کپتان عمران خان کی ایک خوبی تھی کہ
وہ اچھا فائٹر تھا ۔ وہ آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرتااور آخری دم تک وہ
جیت کے لیے پر اُمید رہتا تھا۔ جس طرح سے تحریک انصاف کے جلسوں میں عوام کا
رش ہوتا تھا اس سے دیکھ کر تو نہیں لگتا تھا کہ عمران خا ن کہیں سے ہارے گا
اور شاید یہی دیکھ کر عمران خان الیکشن میں جیت کے لیے پرامیدہوگئے۔
نوجوانوں کا ایک طبقہ عمران خان کے لیے بڑی جدوجہد بھی کررہا تھا مگر جلسوں
سے کبھی الیکشن نہیں جتیا جاتا ۔ الیکشن تو ہمیشہ ووٹ سے جتیا جاتا ہے۔اور
ان جلسوں میں زیادہ تعداد ان نوجوانوں کی تھی جن کا ابھی ووٹ بھی نہیں
بنا۔ویسے بھی جلسوں میں وہی لوگ آتے ہیں جو کبھی عمران خان کے جلسے میں تو
کبھی نواز شریف کے۔ اس کی مثال حالیہ الیکشن میں دیکھی گئی۔ جب الیکشن مہم
کے دوران ایک چھوٹے سے علاقے میں جلسہ ہوا۔جس میں کل ووٹر کی تعداد پانچ
ہزار کے قریب تھی اورن لیگ کے امیدوار کے جلسے میں اس دن تین ہزارکے قریب
لوگ آئے تھے جن کو دیکھ کر اس امیدوار نے اپنی تقریر میں کہا’’ کہ آپ لوگوں
کی اس محبت نے یہ ثابت کردیا کہ میں اس علاقے سے الیکشن جیت چکا ہوں ‘‘ اس
کے اگلے دن اس کے مخالف کا جلسہ تھا جس میں بھی تقریباًاتنے ہی لوگ آئے
ہوئے تھے اور اس نے بھی اپنی تقریر میں ایسے ہی الفاظ بولے۔ اب ان
سیاستدانوں سے کوئی پوچھے کہ ووٹر تو پانچ ہزار کے قریب ہیں اور دونوں کے
جلسوں میں عوام تین تین ہزارآئی تو پھر اس حساب سے ووٹ تو چھ ہزار ہونے
چاہیے مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ جو لوگ کل آئے تھے آج بھی آئے ہیں۔ اب
دونوں امیدوار جیت کی امید لیکر اپنے گھر چلے گئے مگر معلوم جب ہوا جب بکس
سے ووٹ نکلے ۔
اسی طرح خان صاحب بھی جلسوں کوبنیاد بنا کر الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔ شاید
اسی وجہ سے عمران خان نے اعلان کردیا کہ الیکشن کا جو بھی رزلٹ آئے انہیں
قبول ہوگا۔مگر انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ رزلٹ اتنا برا آئے گا ۔ حقیقت
میں عمران خان کو جلسوں اور الیکٹرانک میڈیا نے دھوکے میں رکھا۔ بہت سے
اینکرز تو چینل پربیٹھے تحریک انصاف کے بارے میں ایسے موتی پیرو رہے تھے کہ
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان سے شاید پی پی اور ن لیگ کا خاتمہ ہوجائے
گا اور ہر طرف سونامی چھا جائے گا۔ الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا
میں کچھ ایسے نامور کالم نگار بھی شامل تھے جن کاتجزیہ اور تحری بہت جاندار
ہوتی تھی مگر انہوں نے بھی حقیقت کا ساتھ دینے کی بجائے سونامی کے حق میں
آواز بلند کرتے رہے۔ پھر ان سب سے بڑھکرسوشل میڈیا جس پر ہر دوسرا پیغام یا
فوٹیج عمران خان کی کامیاب کے بارے میں ہوتاتھا۔
اب اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور عوام نے
جس کو اچھا اورقابل سمجھا اس کو مینڈیٹ دے دیامگرافسو س اس بات کا ہے کہ اب
عمران خان اپنے قول و قرار سے منحرف ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا تھا کہ نتائج
جو بھی ہوئے پی ٹی آئی ان کو قبول کر یگی مگر اب وہ روایتی سیاستدانوں کی
طرح وہ دھاندلی کا شورشرابہ کررہے ہیں ۔چلو مان لیں کہ دھاندلی ہوئی بھی ہے
تو جولوگ میڈیا پر بیٹھ کرپی ٹی آئی کو سنہرے خواب دکھا رہے تھے تو پھروہ
الیکشن والے دن کہا ں غائب تھے؟ تحریک انصاف کی وہ فورس جو انقلاب لانے کے
لیے بے چین تھی انہوں نے الیکشن والے دن کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی جبکہ
الیکشن کمیشن نے تو عوام کو شکایت درج کرانے کے لیے فون نمبردیکر سہولت
مہیا کردی تھی۔ اس کے لیے علاوہ آج کل ہر شخص کے پاس کیمرے والا موبائل
ہوتا ہے تو پھر انہوں نے دھاندلی کرنے والوں کی ویڈیو یا تصاویر کیوں نہیں
بنائی؟
دراصل تحریک انصاف کو جو رزلٹ آیا ہے اس کی امید نہیں تھی ۔ان کو لگتا تھا
کہ وہ ن لیگ سے چند سیٹوں سے آگے یا پیچھے رہیں گے مگر وہ تو ن لیگ کیا
پیپلز پارٹی سے بھی کم سیٹیں حاصل کرسکے۔ اب ان کو یاد آرہا ہے کہ نواز
زرداری بھائی بھائی والی سیاست ہوئی ہے۔ عمران خان نے اچھا مقابلہ کیا مگر
ابھی ان کو سیاست کے گُر سیکھنا ہونگے۔ پاکستان میں سیاست اتنی آسانی سے
نہیں سیکھی جاتی اور نہ ہی کسی کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں پہنچا جاتا
ہے۔ اس کے لیے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے تب جاکر پھل ملتا ہے۔ کچھ لوگ
سمجھتے ہیں کہ جلسوں میں عوام آگئی تو سمجھ لو کہ ووٹ بھی مل گئے مگر نہیں
عوام صرف ایسے لوگوں کو دیکھنے تک محدود ہوتی ہے مگر ووٹ وہ ان کودیتے ہیں
جو ان کے حلقوں میں عوامی خدمت کرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ تحریک انصاف کے ہر لیڈر نے لاہور کو کلین سویپ کرنے کا
دعویٰ کیا تھا ۔جاوید ہاشمی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر لاہور سے کلین
سویپ نہ کیا تو وہ سیاست چھوڑدیں گے مگر لاہوریوں نے لاہور کو ن لیگ کا
قلعہ ثابت کردیا۔لاہور کے بعدسرگودھا، قصور ، اوکاڑہ اور فیصل آبادایسے
اضلاع ہیں جہاں پر شیر نے بلے کو توڑ کر پھینک دیا۔عوام ملک کی خدمت کرنے
والوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ ن لیگ پنجا ب میں اور پی پی مرکز سمیت
دیگر صوبوں میں پانچ سال اقتدار میں رہی مگرن لیگ نے عوام کی خدمت کی تو اس
کو پاکستان بھر سے پذیرائی حاصل ہوئی ۔ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں کو
اس الیکشن میں منہ کی کھانا پڑی۔ان کے بڑے بڑے برج اور وہ خاندان جو کبھی
سیاست سے باہر نہیں ہوئے مگر شیر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوئے۔ جو
لوگ شیر کو زیر کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے وہ خود زبر سے زیر ہوگئے۔ جتنا ن
لیگ کے مخالفین نے میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف مہم چلائی عوام نے اتنے ہی
زیادہ سیٹیں جتواکر ان کے منہ بند کرادیے۔
اب چند دن میں صوبوں سمیت مرکز میں حکومت قائم ہوجائیں گی۔ میاں نواز شریف
تیسری باروزیراعظم بن کر تاریخ رقم کریں گے ۔ میاں برادران کو اب عوام کا
ذہن پڑھ لینا چاہیے اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو عوام کی منشاکے مطابق
نہ ہوں۔ لوڈشیڈنگ، گیس،بیروزگاری اور مہنگائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پرکام
کرنا ہونگے۔
میا ں صاحب کو یا د کراتا چلوں کہ پی پی کی شکست میں جہاں بہت سی وجوہات
شامل ہیں ان میں ایک بڑی وجہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا بھی ہے اور
میاں صاحب آپ بھی اس بارے میں’’ ہتھ ہولا‘‘رکھو ایسا نہ ہو آپ کی یہ دوستی
عوام کو پسند نہ آئے اور آپ کے اقتدار میں ہی عوام پٹھان کے پیچھے لگ جائے
اور آپ دوستی کا پاس کرتے رہ جائیں۔ بھارت اور امریکہ جیسے غدارلوگوں سے
ملک بچاکر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ عوام نے جو مینڈیٹ میاں
نوازشریف کو دیا ہے اب ان کوبھی چاہیے کہ وہ عوام کا حق ادا کریں- |