پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر
افغانستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقومی سرحد قرار دیکر پاک افغان
سرحدوں کے درمیان سرحدوں کی ازسر نو تعین کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہہ
دیا گیا کہ موجودہ سرحدیں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں اور اس کے
دوبارہ تعین کرنے کےلئے افغانستان کا مطالبہ درست نہیں ہے۔دفتر خارجہ نے
واضح انداز میں افغانستان کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی جانب سے
بار بار ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے تواتر کئے جانے والے مطالبے میں کوئی جان
نہیں اور ڈیورنڈ لائن کا معاملہ پاکستان کےلئے ختم ہوچکا ہے۔ ڈیورنڈ لائن
کو سمجھنے کےلئے ہمیں افغانستان کے کچھ اسباب و تاریخ کے حوالوںمیں جانا
ہوگا ۔افغانستان میں فرنگی مداخلت کی ابتدا بائیس سالہ زمان شاہ کے دور سے
ہوئی جس نے انگریزوں کی بیخ کنی کےلئے 1799ءمیں اپنی مملکت میں انتشار اور
خانہ جنگیوں کو ختم کئے بغیر روانگی کی ٹھانی لیکن بمشکل ابھی لاہور پہنچا
تھا کہ انگریزوں کیا ایما ءپر شاہ ایران فتح علی قاچار(1799تا 1835)نے
پائیند خان کے بڑے بیٹے فتح خان کی مالی اور عسکری مدد کی ، فتح خان نے
تیسرے بادشاہ گر کی حیثیت سے شاہ زمان کے غیر حقیقی بھائی شاہ محمود کو
بادشاہ بنیا ۔ فرنگی بادشاہ گری یا مداخلت کی 1799ءمیں ہونے والی ابتدا آج
تک جاری ہے۔ محمد زئیوں کی تیسری بادشاہ گری ، پہلی بادشاہ گری کی بنا اور
افغانستان میں انگریز مداخلت کا باعث بنی ۔شاہ زمان کے سکے بھائی شاہ شجاع
نے (1809ءتا 1803) نے محمد زئیوں کے خطرے کے پیش نظر 7جون1809ءمیں انگریزوں
کے ساتھ امن دوستی کا معائدہ کیا جس سے انگریزوں کو براہ راست افغانستان
میں مداغلت کا موقع مل گیا ۔ 25جولائی 1835ءانگریزون اور سکھوں کےساتھ
معائدے کے تحت انگریز جنرل کاٹن نے 25اپریل 1839ءمیں دوبارہ شاہ شجاع کو
افغانستان کا حکمران بنا دیا۔گو کہ2نومبر1840 ¾ دوست محمد خان کا فتح کے
باوجود انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا اس بات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ
انگریز شکست کھانے کے باوجود "امیر"پر بھاری تھے۔انگریزوں نے غازی ایوب خان
کے خطرے کے پیش نظر 21فروری 1879 ءیقعوب خان اور22جولائی 1880ءکو
عبدالرحمان کو افغانستان کا امیر بنا دیا ۔امیر عبدالرحمان خان کے انتقال
کے بعد 02اکتوبر1901کے بعد اس کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان سے انگریزوں کو
ہٹانے کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آئی کیونکہ وہ اپنے باپ سے زیادہ انگریزوں
کا وفادار ثابت ہورہا تھا۔امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے 20فروری1919ءکے بعد
امان اللہ خان جب انگریزوں کی توقعات پر پورا نہیں اترا تو خفیہ طور پر
حبیب اللہ عرف بچہ سقہ کے ڈریعے 17جنوری1929ءکو امان اللہ خان کا تےخٹہ الٹ
دیا گیا ۔بچہ سقہ کے غیر پشتون ، بلکہ غیر محمد زئی ہونے کی بنا ءپر نادر
خان اور اس کے چار بھائیوں کی انگریزوں سے کھلی معاونت کے ذریعے
16اکتوبر1929کو بچہ سقہ اور اس کی حکومت کا خاتمہ کرویا ۔ نادر شاہ جو
انگریز بادشاہ گروں کا آتھواں حکمران تھا ۔انگریزوں کے بعد روسی حکمرانوں
نے27دشمبر1979ءببرک کارمل کو24نومبر 1986تک حکمران رکھا ، روس کے بعد
امریکہ نے صبغت اللہ مجددی ، پھر برہان الدین ربانی کو،حکمران بنایا ۔ ملا
عمر 27ستمبر1996ءسے16اپریل 2001ءتک امیر رہے لیکن امریکہ کے خلاف ہونے پر
امریکہ نے افغانستان پر نائن الیون کی آڑ میں براہ راست مداخلت کی اور حامد
کرزئی کو 22دسمبر2001ءمیں کٹھ پتلی حکمران بنایا ۔ اس طرح 1793ءسے آج تک
انگریزوں نے آٹھ ، روس نے ایک جبکہ امریکہ نے چار حکمران بنا ڈالے ۔امیر
عبدالرحمان نے انگریزوں سے وفادری اور دوست کا حق ادا کرنے کے لئے
انگریزمخالف دشمنوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے جس کی مثال نہیںملتی ۔ نادرشاہ
اور عبدالرحمان خان کے بدترین مخالفوں میں اتفاق سے قبیلہ غلزئی اور ہزارہ
قوم تھی ۔ اگرغازی ایوب خان حکمران ہوتا تو Fire in Afghanistanلکھنے کی
نوبت نہ آتی یقینا آج افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف بلکہ بہتر ہوتے
۔ نہ معائدہ گندمک ، نہ ڈیورنڈ لائین کے قضیے ہوتے۔
تمام شہر کو لوٹو کہ نام ہو فاتح
اک آدھ شخص کو جو لوٹتا ہے ، ڈاکو ہے
1842ءپہلی افغان انگریز جنگ غازی وزیر اکبر خان محمد زئی 1880میں دوسری
انگریز افغان جنوں کے دوران غیر تربیت یافتہ کم تعداد افغانوں کے اورٹوٹے
پھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جدید ترین ہتھیاروں سے لیکن
تعداد میں کئی گنا زیادہ انگریز فوج کو عبرتناک شکستیں دیں۔32سالہ نوجوان
اکبر خان اور پچیس سالہ ایوب خان خان پیشہ ور اور اعلی تربیت یافتہ نہیں
تھے ۔ بالا جنگوں میں بہادری کا پلہ ہتھیار پر بھاری رہا ۔ افغانستان اور
برصغیر کا تناسب ایک اور 200ہے اس کے باوجود 1757ءسے 1947تک انگریز جو بر
صغیر کے حکمران رہے مسلسل اور متعدد کوششوں کے باوجود افغانوں کو تابع نہ
کرسکے اور نہ ہی برصغیر کی طرح حکومت کرسکے۔لیکن اپنی ریشہ دانیوں ، خانہ
جنگیوں اور سازشوں سے افغانستان میں مداخلت کرنے آج تک باز نہیں آئے۔21مئی
1879ءمعائدہ گندمک کے تحت سبی تک افغان انگریزوں نے اسی سال لارڈ سنڈیمن نے
سیوستان کو بلوچستان کا نام دیا ۔ 12نومبر 1893ءکو ڈیورنڈ لائن کی غیر فطری
افغان انگریز حد بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کابل تک رسائی کے لئے
ہنری ڈیونرنڈ نے نہایت کیثر التعداد فوج استعما ل کے لئے سندھ اور بلوچستان
ہی کی گذرہ گاہ استعمال کی تھی ، کابل کو گیرے میں لینے اور کابل میں موجود
انگریزی فوج نے اپنے پٹھو حکمران امیر عبدا لرحمان کو اس غیر فطری عمل کے
لئے مجبور کیا ، سوات چترال ،باجوڑ ، دیر بونیر وغیرہ افغانستان سے الگ کر
لئے گئے.1901ءڈیورنڈ لائن اور چند دیگر چند علاقوں کو ملا کر ناقابل فہم بے
جوڑ اور بے معنی نام دیکر شمال نغربی سرحدی صوبہ بنا کر افغانوں یا پشتونوں
کو قومیت کی مناسبت سے نام دینا بھی گورا نہیں کیاتھا۔ان تواریخ کے حقائق
کا مقصد یہی ظاہر کرنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن اورمعائدہ گندمک کے جو معائدات
افغان حکمرانوں نے اپنے وقت میں غدار وطن کے ہاتھوں کرکے افغانستان کی وحدت
کو تقسیم کرنے کےلئے کئے ، اب وہ انگریزوں کے جانے کے بعد ان کے ساتھ ہی
ختم ہوچکے ہیں ۔ ڈیورنڈلائن سے متعلق سو سالہ معائدہ انگریزوں کے ساتھ تھا
۔ موجودہ پاکستان ریاست انگریزوں کے باپ کی جاگیر نہیں تھی کہ اب ان کے
کہنے پر پھر اس کے حصے بخرے کرکے ہندوستان کی تقسیم کی طرح لڑو الڑاﺅ اور
حکومت کرو کی پالیسی کو کامیاب کرے ۔ بالا سطور میں افغانستان کی سر زمیں
پر انگریز مداخلت ی سازشوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہی ثابت
کرنا تھا کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کا افغانستان کی جانب سے بار بار پاکستان
کے علاقوں کو انگریز غلامی وقت میں کئے جانے والے معائدات کے تحت واپس لینے
کے مطالبہ مسترد کرنا درست اقدام ہے ۔ افغانستان پر بہ ظاہر کسی بیرونی
جارح نے حکومت نہیں کی لیکن 1799ءسے لیکر آج تک افغانستان میں بیرونی
طاقتوں کی پالیسیوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں غیر ملکیوں کی حکمرانی سے
انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ غدار وطن شاہ شجاع ، امیر عبدالرحمان سے، روس کے
خلاف امریکیوں سے ملکر جنگ ، اور اب امریکیوں کی پٹھو حکومت کو یہ کہہ کر
حقائق نظر انداز نہیںکیا جاسکتا کہ افغانستان پر کسی بیرونی جارح نے حکومت
نہیں رہی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ڈیورنڈ لائن کا معائد ہ کیا قائد اعظم نے
کیا تھا جو اس حوالے سے پاکستان سے مطالبات کئے جاتے ہیں۔معاملے کو متنازعہ
یقینی طور پر سازشی عناصر کی دہمکیاں سوائے گیڈر بھبگیوں سے زیادہ نہیں۔
ڈیورنڈ لائن کی آڑ میں پختونستان بنانے والے امریکی و برطانیہ کے پٹھو بننے
کے روش سے بجائے باز آجائیں ۔ پاکستان انگریزوں سے آزادی کے بعد اپنی ایک
شناخت رکھتا ہے۔شناخت کو مشکوک بنانے والے پاکستان سے خیر خواہ نہیں۔ |