نواز شریف کے پاس اب غلطی کی گنجائش نہیں

انتخابات 2013کے دوران بذریعہ ووٹ پنجاب وخیبر پختونخواہ میں تبدیلی آگئی ہے ،جس کے نتیجے میں اول الذکر میں نواز شریف اور ثانی الذکر میں عمران خان ابھر کر سامنے آگئے ، سندھ اور بلوچستان میں کوئی بڑی اور نمایاں تبدیلی وقوع پذیر نہ ہوئی ، البتہ بلوچستان میں بنسبت سندھ کے کچھ نہ کچھ جنبش نظر آئی ہے ، کچھ علاقوں میں ملکی وغیر ملکی تجزیہ نگاروں کے بقول ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے بجائے ووٹ خود ہی تبدیل ہوگئے ،مجموعی جائزے کے مطابق خفیہ ہاتھوں اور برسرِ زمین طاقتوں کی رسّہ کشی میں طاقت کا توازن آخری لمحات میں انڈر گراؤنڈ کھلاڑیوں کے ہاٹھ سے نکل گیاتھا۔

بہرحال جوبھی ہوا، انتخابات ہوگئے اور نواز لیگ واضح اکثریت کے ساتھ مرکز و پنچاب میں سب پے پازی لے گئی ہے ،تحریک انصاف عرب اسپرنگ کے مانند نوجوان خو ن کو زیادہ متحرک تو نہ کرسکی ، البتہ انہیں ناکام کہنابھی انصاف کے تقاضوں سے شاید ہم آہنگ نہیں ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی نے گزشتہ پانچ سالوں میں جو بویاتھا وہی کاٹاہے مفاہمت کی پالیسی اور پانچ سالہ دور مکمل کرنے کی کوششوں میں انہوں نے ملک وقوم دونوں کو جس اضطراب اور جانکنی کے عالم میں رکھا ،اس کے بدلے میں گویا انہیں یوں جواب دیاگیا:
اب نزع کاعالم ہے، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے ،بوجھ اتارے جاتے ہیں

پی پی ،متحدہ اور دینی احزاب کا ووٹ بینک نظریاتی یاجماعتی ہے ، نواز شریف اور عمران خان کا ووٹ ایسا نہیں ہے، نہ ہی ان کی جماعتوں میں ان کی شخصیتوں جتنی جان ہے، انہیں اگر ووٹ ملتاہے، تو وہ ان کی شخصیاتی کشش کا کرشمہ ہے، جس میں ملک سنوار نے اور قوم کو چین وسکون فراہم کرنے کے جذبات کار فرماہیں ،ان دونوں میں عمران خان کی ذات رفاہی ،تعلیمی اور کھیل کے میدانوں میں ان کی قابل ِتقلید کارکردگی کی بناء پر نواز شریف سے زیادہ متأثر کن ہے ،لیکن نواز شریف کا پیسہ ،برادری ،لیگی عنوان اور پنچاب بطور خاص لاہور میں ان کے ترقیاتی کام نیز زبان وبیان میں بے احتیاطیوں سے گریز ان کے نمایاں اوصاف ہیں ۔حقیقت تویہ ہے کہ پی پی اور نواز لیگ کے دو دو مرتبہ برسر اقتدار آکر بھی کسی بھی وجہ سے ناکام ہونے کے بعد قوم کوانہیں مسترد کرنا چاہئے تھا، لیکن یہ پاکستانیوں کے دل گردے ہیں یا بھول پناکہ وہ ماضی کو پس ِپشت ڈال دیتے ہیں ،اور پھرسادھے میرکی طرح اسی عطار کے لونڈے سے باربار دوا لیتے ہیں ۔

کہتے ہیں’’جبل گردد ، جبلت نہ گردد ‘‘، لیکن پھر بھی اگر نواز شریف نے ماضی کی طرح کانٹوں سے الجھنے کے بجائے اپنی خُوتبدیل کی ہے ، تو اس ملک میں ضرور تبدیلی آئیگی ، عمران خان کے پاس ہسپتال جاکر عیادت اور دوران ِانتخابی مہم آپس کی تلخیوں کو معاف کرنے کا اعلان مزاج میں اگر تبدیلی کا سگنل ہے،تو کوئی وجہ نہیں کہ نواز شریف دیگر سیاسی قوتوں کوساتھ لے کر پاکستان کو جنوبی ایشیا کا ٹائیگر اور خود وہ پاکستان کے لئے ملائیشیا کے مہاتیر محمد بڑی آسانی سے بن سکتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ ملک وبیرون ملک اپنی کامیابیوں سے تاریخ میں اپنے نام لکھوانے والے رہنماؤں سے مسلسل مشاورت اور استفادے میں رہے، ان کے افکار ،تجربات ،تجزیات اور آئیڈیاز کواپنا نصب العین بنائے ۔ابھی حال ہی کی بات ہے ،پوٹن نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بدولت رشین فیڈریشن کے مردہ گھوڑے میں اتنی بھرپور جان ڈال دی ہے کہ سوویت یو نین کی بحالی کا آوازہ ہے۔

نواز شریف کویوں قوم کے امنگوں پر پورا اترنے اور ملک وملت کے لئے کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نام کو تاریخ میں سنہری حروف سے درج کرنے کے مواقع فراہم ہوں گے۔

ورنہ بصورت دیگر خلافت عباسیہ کے طاقتور ترین حکمراں معتصم باﷲ ،جس کے زمانے میں رومیوں کے علاقے کی ایک مظلوم خاتون نے جب ’’واہ معتصماہ‘‘ کانعرہ لگایا ،تو وہ ایک لمحہ دیر کئے بغیر بغداد سے اٹھا اور روم جاکر عموریہ شہر فتح کرکے اس ستم رسیدہ خاتون کی داد رسی کا وہ کارنامہ انجام دیا، جو رہتی دنیا تک ایک ضرب المثل بن گیا، لیکن اسی معتصم باﷲ کی زندگی کے تاریخی کربناک آخری لمحات بھی ملاحظہ ہوں :’’اگر پر شکوہ محلات ،عالی شان باغات،زرق برق لباس ،ریشم وکمخواب سے آراستہ وپیراستہ آرام گاہیں ،سونے ،چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں ،خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کے جھنکار ہمیں بچاسکتی ،تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باﷲ کے محل تک نہ پہنچتی ۔آہ ! وہ تاریخ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باﷲ ،آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکوخان کے سامنے کھڑاتھا۔کھانے کا وقت آیا ،تو ہلاکوخان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دیئے ، پھر معتصم سے کہا: ’’ جوسونا چاندی تم جمع کرتے تھے، اسے کھاؤ‘‘ ،بغداد کا تاج دار بے چارگی وبے بسی وبے کسی کی تصویر بنا کھڑاتھا، بولا ـ: ’’ میں سونا کیسے کھاؤں ؟ ‘‘ ہلاکونے فوراً کہا : ’’ پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا ؟‘‘ وہ کچھ جواب نہ دے سکا،ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے او رسوال کیا: ’ ’تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی ،تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے ‘‘ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا ’’ اﷲ کی یہی مرضی تھی ‘ ‘ ہلاکوخان نے کڑک دار لہجے میں کہاـ ـ: ’’ اب تمہارے ساتھ جو ہونے والا ہے ،وہ بھی خداکی مرضی ہوگی ۔‘‘ پھر ہلاکوخان نے معتصم کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالااوربغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔
فرعون ،بہادر شاہ ظفر،چاؤ شسکو،صدام حسین،کرنل قذافی اورمشرف کے انجام آپ کے سامنے ہیں:’’کم ترکو امن جنات وعیون ،وزروع ومقام کریم، ونعمۃ کانوا فیہا فاکہین‘‘ (سورۂ دخان :27,26,25)۔کتنے ہی ایسے باغات،چشمیں،فصلیں ، عزت وتکریم کے محلات اور نعمتیں انہوں نے پیچھے چھوڑیں ، جن میں وہ مزے اڑاتے تھے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877947 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More