ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دانشور، سیاسی یا مذہبی جماعت کا
بیان پڑھنے کو ملتاہے کہ اُمتِ مسلمہ متحد ہو جائے۔اور اس معاملے پر اتحاد
کی ضرورت، اہمیت و افادیت پر بھی بیان دیئے جاتے ہیں،جب بھی اس قسم کا بیان
نظر سے گزرتا ہے تو بڑی الجھن ہوتی ہے ۔وہ عوام سے متحد ہونے کی اپیل
توکرتے ہیں مگر یہ سب لوگ خود ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اتحاد کا کوئی
نکتہ پیش کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔وہ عوام کو کس چیز پر متحد کرناچاہتے ہیں
اس کا خلاصہ تک ان کے بیان میں نہیں ہوتا۔ان سب کی اپنی شخصیت کو جب اس
بیان کے آئینہ میں دیکھا جاتا ہے تو معاملہ بالکل الٹ نظر آتاہے ۔ملکی
قائدین کے پاس نہ کوئی حکمتِ عملی ہے ،نہ وہ عوام کے سامنے کوئی دعوتِ فکر
رکھتے ہیں،نہ دعوتِ عمل۔اگر آپ سب کی اپیل کا مقصدیہ ہے کہ سارے مسلمان ایک
مسلک اختیار کر لیں تو آپ کی یہ خواہش جب ہی پوری ہو سکتی ہے جب ہم اور آپ
سب مل بیٹھیں، مل بیٹھنے کا مقصد صرف نام کمانا نہ ہو بلکہ خلوصِ نیت سے
بیٹھ کر اتحاد بین المسلمین کے لئے راہ ہموار کیا جائے تب ہی ہم سب ترقی کے
منازل بھی طے کر سکیں گے اور عوام بھی خوشحال رہ سکے گی۔اگر کوئی مخلصانہ
اور سنجیدہ کوشش ہوگی تو پاکستان کے لوگ سیاسی اور مسلکی اختلافات سے بلند
ہو کر متحدہوسکتے ہیں۔مجھے یہ یاد نہیں کہ کبھی ہمارے قائدین نے سنجیدہ
رویے کے ساتھ کوئی کام یا کوئی تحریک چلائی ہو۔البتہ ہم سب بہت سی تحریکات
کوجانتے ہیں جو ہمارے قائدین کی آپسی چپقلش، بد عملی اور مفاد پرستی کے سبب
فنا ہوگئیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے رہنما ایک دوسرے کو برداشت
کرناسیکھیں اپنے اندر ظرف اور اخلاص پیدا کریں اور اس بے چاری مظلوم عوام
کو مزید رسوائی سے بچا لیں اور ہاں! یہ بات یاد رکھیں کہ عوام کو متحد کرنے
کے لئے آپ سب کا اتحاد بھی شرطِ اوّل ہے۔آپ کا اتحاد عوام دیکھے گی تبھی
جاکر وہ خود متحد ہونے کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں گے۔ہماری عوام کا حال تو
کسی سے ڈھکی چھپی بات ہے نہیں ، اس لئے اس شعر کو پڑھیئے اور سمجھنے کی
کوشش کیجئے۔
جو لوگ یہاں بوڑھے شجر کاٹ رہے ہیں
نادان ہیں یہ اپنا ہی سر کاٹ رہے ہیں
کچھ لوگ یہاں بھوک سے واقف ہی نہیں ہیں
کچھ لوگ مگر بھوک کا ڈر کاٹ رہے ہیں
تو کہیئے کہ کیا یہ سب کچھ عوام کے پاس ہے کیا؟ بھوک بھی ہے، مہنگائی بھی
ہے، دہشت گردی بھی ہے، لوڈ شیڈنگ بھی ہے، اور نہ جانے طرح طرح کے مسائل سے
عوام دوچار ہیں۔آپ ارباب سے اب عوام کی یہی اُمیدہے کہ آپ اپنی عنائتیں اور
حوصلہ افزائی کو زائل نہ ہونے دیں بلکہ اس کے علاوہ بھی عوامی بھلائی کے
کاموں کی طرف منہمک ہوجائیں تاکہ عوام کو سکون کی زندگی حاصل ہو سکے۔اور
پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔کیونکہ پاکستان آج جن گونا گوں مسائل سے
دو چارہے آپ لوگ ہی آخری امیدہیں کہ جن کے سہارے کی عوام کو ضرورت
ہے،کیونکہ اب کوئی یو ٹرن نہیں آنے والا۔سب راستے سیدھے ہی ہیں۔بس ضرورت ہے
عمل در آمد کی،آج کی مثال تو ایسے ہی ہے کہ جب تو اپنوں کا ہی نہ سکا تو
ہماراکیا ہوگا مگر وہ کہتے ہیں نا کہ” اُمید پر دنیا قائم ہے“بس اسی آس پر
عوام نے ووٹ ڈالے ہیں اور اپنی ڈوبتی کشتی کو آپ کے حوالے کر دیاہے۔اب سب
کچھ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے جس طرح چاہیں کشتی کی چپُو کو چلائیں۔مگر یہ
دھیان رہے کہ پچھلی حکومت کا صفایا ووٹ کے ذریعے عوام نے کر دیا ہے اور آپ
سب کو نیا مینڈیٹ بھی دے دیاہے مسائل حل ہونگے تو عوام ٹھیک رہیں گے ورنہ
پھر وہی احتجاج، دھرنا، ہنگامہ آرائی اور وہ سب کچھ جو کسی حکومت کو ختم
کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔مگر اللہ تبارک و تعالیٰ وہ دن نہ لائے کیونکہ
امیدِ قوی ہے کہ مسائل آہستہ آہستہ ضرور حل ہوناشروع ہو جائیں گے۔انشاءاللہ
ویسے تو عوام کی خواہشات کبھی ختم نہیں ہو سکتیں جب تک وہ زندہ ہے مگر جو
مسائل اور جو ضرورت پوری ہو سکتی ہیں انہیں حکمرانوں کو ضرور پورا کرنا
چاہیئے۔میں یہاں ایک رائیٹر کی سبق آموز تحریر کو رقم کرنا چاہوں گاکہ :
کسی بادشاہ نے ایک درویش سے کہاکہ ”مانگو کیا مانگتے ہو“درویش نے اپنا
کشکول آگے کر دیا اور عاجزی سے بولا ” حضورِ والا اسے بھر دیں“ بادشاہ نے
فوراً اپنے گلے کے ہار اُتارے انگوٹھیاں اُتاریں جیب سے سونے چاندی کی
اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بہت بڑا تھا اور
مال متاع کم، لہٰذا بادشاہ نے فوراً خزانچی کو بلایا اور اسے ہیرے جواہرات
لانے کو کہا۔خزانچی نے حکم کی تعمیل کی اور ہیرے جواہرات کی بوری لے کر
حاضر ہوا، بادشاہ نے پوری بوری اُلٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں
گرتے جاتے کشکول بڑا ہوتا جاتا۔یہاں تک کہ تمام جواہرات ختم ہوگئے ، بادشاہ
کو بے عزتی کا احساس ستانے لگا تو اس نے خزانے کے منہ کھول دیئے لیکن کشکول
تھا کہ بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا، خزانے کے بعد وزراءکی باری آئی، اس
کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی، لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔ایک
ایک کرکے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول نہیں بھرا۔آخر بادشاہ ہار گیا اور
درویش جیت گیا۔درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹایا، مسکرایا، سلام کیا
اور واپس مُڑ گیا، بادشاہ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض
کیا۔حضور مجھے صرف اتنا بتا دیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟ © درویش
مسکرایا اور کہا ”اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے ، کسی چیز سے
بھرنے والا نہیں صرف قبر کی مٹی سے ہی بھر سکتا ہے۔یوں یہ نصیحت عوام پر
بھی بالکل فٹ آتی ہے کہ عوام کی ضرورت بھی کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ روزانہ
کی سطح پر اس میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ اس لئے حکمرانوں کو چاہیئے کہ سب سے
پہلے ضروری مسائل اور پریشانیوں کا علاج تلاش کرکے عوام کی داد رسی کی جائے
جن میں نوکری کی فراوانی، مہنگائی پر کنٹرول، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ،
کرپشن کا خاتمہ، امن و امان کی فراوانی جیسی سہولیات ضرور دی جائیں ۔کیونکہ
اس بار عوام نے شیر کو چُنا ہے۔وہ کہتے ہیں نا کہ ” کسی عورت کے پیچھے چلے
جانے کی بجائے کسی شیر کے پیچھے چلے جانا بہتر ہے، اس لئے کہ شیر اگر پلٹ
آیا تو جان چلی جائے گی، مگر عورت اگر پلٹ آئی تو ایمان چلا جائے گا۔“اس
لئے شیروں عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیے اور تمام چھوٹی پارٹیوں کو اپنی
صفوں میں جگہ دیجئے تاکہ ان کی محرومی کا بھی تدارک ہو سکے۔
دو دن کی زندگی ہے کیا کرو گے الجھ کر
رہو تو پھولوں کی مانند بکھرو تو خوشبو بن کر
اگر ہم نے غور و فکر کی صلاحیتوں سے کام لے کر ترقی کرنے کی خاطر نئی
پارٹیوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا ہے تو پھر ترقی ہمارا مقدر بنے گا ہماری
انقلابیت سرد نہیں پڑے گی، اور پھر منزل مقصود ہم سے دور نہیں ہوگی کیونکہ
آج پاکستان جن اندرونی و بیرونی مسائل سے دوچار ہے اس میں اتحاد کی سخت
ضرورت ہے ،ویسے تو مجھے نصیحت سے گھبراہٹ ضرور ہوتی ہے مگر یہ نصیحت عوام
کی بھلائی کے لئے ہے تو سب قبول کیا جا سکتاہے۔آج بھی اگر معاشرے میں امن و
سلامتی کا ماحول قائم ہو جائے تو لوگوں کے معاشی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں
اور ہماری معاشرت بھی بہتر سے بہتر ہو سکتی ہے۔ملک میں پائی جانے والی
بدامنی کی موجودہ فضا کے خاتمے کے لئے ازحد ضروری ہے کہ قوم کے تمام طبقات
باہمی اختلافات نظر انداز کرکے قیامِ امن کے ہر ممکن سبب پر غور کریں اور
مشترکہ سوچ اور عزم کے ساتھ امن کو یقینی بنائیں۔آئندہ حکومت کو ترجیحی
بنیادوں پر امن کا مسئلہ حل کرنا ہوگا ایسے باصلاحیت افراد کا انتخاب کرنا
حکومت کی ذمہ داری ہوگی جو قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی
رکھتے ہوں۔ |