پاکستان میں غلطیوں اور کوتاہیوں سے سکھینے اور تلخ تجربات سے سبق حاصل
کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ بڑے سے بڑے سانحے اور انتہائی
نامساعد حالات نے بھی حکمرانوں اور رہنماؤں کی سوچ کے انداز کو تبدیل نہیں
کیا۔جس کی وجہ سے ایک ہی غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے۔چار طویل فوجی
آمریتوں سے ملک کو پہنچنے والا نقصان ہو یا سقوط ڈھاکہ کی ہزیمت یا پھر
افغانستان کے معاملات میں الجھنے کے نتہجے میں ملکی سلامتی کو لاحق خطرات
ہو،کوئی ایک واقعہ یا سانحہ بھی فکری رویوں میں تبدیلی نہ لا سکا۔جبکہ دنیا
کی معلوم تاریخ میں انسانوں اور قوموں نے اپنی غلطیوں اور تجربات سے گر کر
سنھبلنے او رپھر ــآگے بڑھنے کا حوصلہ پایا۔لیکن پاکستان میں ایسا کو واقعہ
دیکھنے میں نہیں آتا،کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں اور رہنماؤں کو پاکستان
اور اس کی عوام میں کوئی دلچسبی نہیں۔کیونکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول اور
اپنی ہی دنیا میں بدمست گھوم رہے ہیں۔جوحکمرا ن آتا ہے وہ اپنے مفاد کو
زیرغور اور ملک کے مفاد کو پس پشت ڈالتا ہے۔حکمرانوں کو کوئی پروہ نہیں کہ
ملک کس دورایے پر آ کھڑ ا ہے۔ضرورت ہے کسی ایسے حکمرا ن کی،جو ماضی کی
غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حال کو بہتری کی طرف لے کر جائے،ہم
ایسے وقت اورحکمرا ن کے منتطرہیں! اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا آنے والا حکمرا ن
ہماری آمنگوں اور امیدوں پر پورا اتر پائے گا؟کیا وہ خو شخالی لے کر آئے گا؟
آمنگوں اور امیدوں کے نئے دیائیں روشن کرئے گا؟ اس کا جواب آنے والا وقت ہی
پتائے گا! |