برِ صغیر پا ک و ہند میں1936 میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخا
بات کا عمل شرع ہوا تو کانگریس اور مسلم لیگ نے ان انتخابات میں اپنی قوت
آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ کانگریس نے ان انتخا بات میں اپنی کامیابیوں کے
جھنڈے گاڑ کر اکثر صوبوں میں اپنی حکومتیں تشکیل دے لیں جبکہ مسلم لیگ ان
انتخا بات میں بری طرح سے پٹ گئی ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اس وقت مسلم
لیگ کے صدر تھے لہذا انھوں نے اپنی اس ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کی بجائے
نئے عزم و حو صلے کے ساتھ میدان میں اتر کر اپنی شب و روز کی محنت سے 1946
کے انتخا بات میں اپنی فتح کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی اور جدید دنیا کے
ایک سحر انگیز قائد کا خطاب حا صل کیا ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح برِ صغیر
میں مسلم تاریخ کے وہ پہلا قائد تھے جھنیں یہاں کے سارے مسلمانوں کی تائید
حاصل تھی اور وہ پورے ہندوستان کے غیر متنازعہ قائد تھے۔ان کی بے مثال
قیادت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔اس زمانے میں بھی
مسلمانوں کی بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتیں تھیں لیکن برِ صغیر کے
مسلمانوں نے صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت پراعتماد کا اظہار کیا
تھا اور اپنے ووٹ کی قوت سے پاکستان کی تخلیق کامعجزہ سر انجام دیا ۔ برِ
صغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں قائدِ اعظم محمد علی جناح وہ پہلے راہنما ہیں
جھنوں نے اپنا ووٹ بینک قائم کیا تھا۔ان کے کردار کی عظمت ،فہم و فراست
دیانت،جرات اور شخصیت کا سحر اس ووٹ بینک کے بنیادی محرکات تھے ۔قائدِ اعظم
۱۱ ستمبر 1948 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد محلاتی سازشوں
کا ایسا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جس نے جمہوری قدروں کاخون کر دیا۔ مارشل
لاﺅں کے نفاذ نے جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا جس کی وجہ سے
انتخا بات کی نوبت ہی نہ آسکی۔ایک ایسا ملک جس کی تخلیق ہی جمہوری عمل کا
ثمر تھا انتخابات کو ترس گیا۔عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے کرتے تھک گئے
لیکن کوئی ان کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ ملک پر غیر
جمہوری قوتیں قابض تھیں جو کسی بھی صورت میں انتخا بات کی متحمل نہیں ہو
سکتی تھیں ۔
میں تو اسے پا کستانی سیاست کی خو ش بختی پر ہی معمول کرونگا کہ اسے
ذولفقار علی بھٹو جیسا بے مثال سیاستدان میسر آیا جس نے سیاست کے سارے
انداز ہی بدل ڈالے۔ 30 نومبر 1967 کو پی پی پی کی بنیاد ر رکھنے کے بعد پی
پی پی کو دسمبر 1970میں پہلے ا نتخا بات کا سامنا کرنا پڑا۔1946 کے بعد یہ
پہلے ا نتخابات تھے جس میں پاکستان کی ساری قابلِ ذکر جماعتیں حصہ لے رہی
تھیں۔پا کستان کی خالق جماعت ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ کا ایک خاص مقام تھا
کیونکہ اس کی ساری اعلی قیادت ابھی تک زندہ تھی اور وہ ان انتخا بات میں
حصہ لے رہی تھی۔اس پر طرہ یہ کہ پاکستان کے سارے جاگیردار ،نواب اور سرمایہ
دار اسی جماعت میں یکجا تھے جب کہ پی پی پی پی میں کوئی بھی قابلِ ذکر
شخصیت موجود نہیں تھی۔گلی محلوں کے پڑھے لکھے نوجوان یا محروم طبقات کے سر
پھرے سرفروش اس جماعت کا کل ا ثا ثہ تھے جھنیں کوئی اپنے برابر بٹھانے
کےلئے بھی آمادہ نہیں تھا۔انتخابات میں ٹکٹ انہی بے آسرا لوگوں کو دئے گئے
کیونکہ پی پی پی کے پاس کوئی مالدار اور صاحبِ حیثیت امیدوار نہیں تھے ۔ان
حا لات کو سامنے رکھتے ہوئے پیشن گوئی یہی تھی کہ مسلم لیگ ایک بار پھر
انتخابات جیت جائےگی لیکن اس وقت لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب
مسلم لیگ کے سارے برج الٹ گئے او ر خاک نشین افراد پارلیمنٹ کے ممبر بن
گئے۔قائدِ اعظم کی مسلم لیگ ان انتخابات میں بری طرح پٹ گئی اور بھٹو فیکٹر
اپنی پوری قوت کے ساتھ پاکستا نی سیاست میں جلوہ افروز ہو گیا۔قائدِ اعظم
محمد علی جناح کے بعد اپنا ووٹ بینک قائم کرنے والا پہلا سیاستدان ذولفقار
علی بھٹو تھا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اگر زندہ رہتے تو کوئی بھٹو پیداہ
نہ ہوتا ۔ یہ تو قائدِاعظم کی رحلت کے بعد استحصالی نظام کا جبر تھا جس کی
وجہ سے پاکستانی سیاست میں ذولفقار علی بھٹو کا ظہور ہوا ۔میں تو ذ ولفقار
علی بھٹو کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سیاست کا ہی تسلسل سمجھتا ہوں
کیونکہ دونوں قائد صاحبِ نظر تھے اور اپنے عوام سے مخلص تھے ۔ان دونوں کا
انداز ِ سیاست اگر چہ مختلف تھا لیکن ان کی روح بنیادی طور پر ایک تھی
کیونکہ دونوں اپنے عوام کو اختیارات منتقل کرنا چاہتے تھے اور ملکی معاملات
میں ان کی شرکت کو یقینی بنا چاہتے تھے۔ اگر کوئی شخص مسلم لیگ کی شکست سے
یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرےگا کہ مسلم لیگ کی شکست قائدِ اعظم محمد علی
جناح کی شکست تھی تو اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں ہوگا۔قائدِ اعظم محمد علی
جناح جب حیات ہی نہیں تھے تو پھر ان کی فتح اور شکست کیسے ہوسکتی تھی ؟۔فتح
و شکست تو زندہ انسانوں کی ہوا کرتی ہے مردہ انسانوں کی نہیں۔ 1970 کے
انتخابات کی شکست کی ذمہ دار مسلم لیگ کی وہ قیادت تھی جو اس وقت پارٹی
امور کی ذمہ دار تھی اس کا قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ذات سے کوئی تعلق
نہیں تھا۔ ذولفقار علی بھٹو کی یہی عوامی مقبولیت بہت سے حلقوں کوپریشان
کئے ہوئے تھی لہذا ایک سازش کے تحت انھیں راستے سے ہٹا یا گیا تو محترمہ بے
نظیر بھٹو اس قتل کا بدلہ لینے کےلئے میدانِ سیاست میں وارد ہو گئیں تو و ہ
سارا ووٹ بینک جسے ذولفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو
کو منتقل ہو گیا اور عوامی سیاست کا وہی رنگ ایک دفعہ پھر پی پی پی کی قوت
بنا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کےلئے اسٹیبلشمنٹ نے دائیں بازو کی
جماعتوں کا ایک نیا اتحاد(آئی جے آئی) تشکیل دیا اور میاں محمد نواز شریف
کو اس کا مضبوط مہرہ بنا کر پیش کیا۔اس ووٹ بینک کو اینٹی بھٹو ووٹ کا نام
دیا گیا۔یہ ووٹ بینک اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی میں قائم کیا گیا ۔یہ میاں
محمد نواز شریف کا ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ یہ زبردستی ان کی جیب میں ڈالا
گیا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب کی حکمرانی بھی ان کی جھولی میں ڈال دی گئی
تاکہ ان کی قوت کے زیرِ سایہ یہ ووٹ بینک متاثر نہ ہو ۔یہ ووٹ بینک تحفے
میں عطا کیا گیا تھا اسے میاں محمد نواز شریف نے قائم نہیں کیا تھا۔یہ آنکھ
مچولی کئی سالوں تک جاری ہے تا آنکہ میاں محمد نواز شریف کی حکومتی رٹ سے
دائیں بازو کا اکثریتی ووٹ ان کے ساتھ ہو لیا کیونکپہ پی پی پی کی مقبولت
مقبولیت سے جائے پناہ میاں محمد نواز شرف کے دامن میں ہی تلاش کی جا سکتی
تھی۔ ۲۰۰۲ کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر اس دائیں بازو کے ووٹ سے کھیل
کھیلا گیا۔ایم ایم اے کی تشکیل اور مسلم لیگ (ق) نے اس ووٹ کو ہتھیا لیا
اور میاں محمدنواز شریف منہ دیکھتے رہ گئے۔انھیں سارے ملک سے صرف پندرہ
(15) نشستیں ملیں اور وٹ بینک آٹھ فیصد پر آگیا۔پی پی پی کے خلاف بھی 1997
میں اس طرح کی سازش کی گئی۔پی پی پی یہ الیکشن ہار گئی لیکن اس وقت بھی پی
پی پی کا ووٹ بینک ۵۳ فیصد سے نیچے نہ آسکا لیکن حالیہ انتخابات میں یہ ووٹ
بینک ۶ ۱ فیصد پر آ گیا ہے جو اس کےلئے لمحہَ فکریہ ہے ۔ 2012 کے انتخابات
کی سب سے نمایاں با ت یہ تھی کہ اس الیکشن میں پہلی دفعہ کوئی بھٹو میدان
میں نہیں تھا۔ جب بھٹو تھا ہی نہیں تو پھر بھٹو کیسے ہار گیا؟۔بھٹو تو پوری
دنیا میں جمہوریت کی ایک علامت بن کر ہمیشہ کےلئے امر ہو چکا ہے لہذا اب وہ
کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا محبوب راہنما ہے اور فتح و
شکست کے تصور سے بالا تر ہے ۔الیکش2013کا سب سے توانا کردار عمران خان ہے
۔اس نے جس طرح پاکستانی قوم کو جگایا اور انھیں جس طرح نئے پاکستان کےلئے
متحرک کیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ذو لفقار علی
بھٹو کے بعد عمران خان تیسرے سیاستدان ہیں جھنوں نے اپنا ووٹ بینک قائم کیا
ہے اور جب کوئی سیاستدان اپنا ووٹ بینک قائم کر لیتا ہے تو وہ ایک خاص
انتخاب کےلئے نہیں ہوتا بلکہ وہ ساری حیاتی کےلئے ہوتا ہے۔یہی ذولفقار علی
بھٹو کے ساتھ ہوا تھا اور اب یہی عمران خان کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔اس کے
ووٹ بینک پر دھاندلی اور بے ایمانی سے ڈاکہ ڈالنے سے کام نہیں چلے گا
کیونکہ قوم کے نوجوانوں نے اس کی آواز پر لبیک کہنے کا عہد کر لیا ہے۔یہ
پہلے انتخابات ہیں جس میں اس نے مکمل طور پر حصہ لیا ہے اور عوامی قوت کا
بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔اس نے یہ قوت اقتدار کی بیسا کھیوں کے بغیر دکھائی
ہے جبکہ میاں برادان کی مقبولیت اقتدار کی عطا کردہ ہے۔عمران خان کا ووٹ
بینک آنے والے دنوں میں اور زیادہ ہو جائےگا کیونکہ آج کے وہ بچے جو اب
اٹھارہ سال سے کم عمر کے ہیں جب اٹھارہ سال کے ہو جائیں گئے تو ان کے دلوں
پر بھی عمران خان کاراج ہو گا کیونکہ عمران خان ان کے دل کی آوازہے۔۔ |