پاکستان میں 11 مئی 2013ءکو عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جس میں ووٹرز کا ریکارڈ
ٹرن آﺅٹ رہا۔ عوام نے فراخ دلی سے اپنا رائے حق دہی استعمال کیا۔ جس نے ناظرین کو
حیران کردیا۔ انٹرنیشنل لیول پر بھی اس کی تعریف کی گئی۔ اس الیکشن میں ملکی سیاست
کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ کئی Most Senior سیاسی رہنما کو بھی شکست کا سامنا کرنا
پڑا اور ان کی جگہ نئی امیدواروں نے میدان مارلیا۔ چنانچہ انتخابات کے نتائج کے
مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز نے سادہ اکثریت حاصل کرلی جو کہ وفاق میں حکومت سازی
کے لئے کافی ہوگی۔ اسکے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے ملک کے سب سے بڑے صوبے
پنجاب میں بھی majority حاصل کرلی۔ جبکہ انہی انتخابات میں نئی ابھرنے والی جماعت
پاکستان تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز
پارٹی دوسرے نمبر پر رہی جو کہ صوبہ سندھ میں اپنی حکومت قائم رکھ پائے گی۔ یہاں
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ انتخابات پاکستان میں اس وقت ہوئے جب پاکستان بہت سارے
مسائل سے دوچار ہے۔ ان انتخابات میں جیتے والی جماعت کو کئی مسائل وراثت میں ملے
کیونکہ پچھلے دور حکومت میں عوامی مسائل میں اضافہ ہوا اور بدقسمتی سے ان مسائل کے
سدباب کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اور نتیجتاً وہی چھوٹے چھوٹے مسائل
عوام کے لئے بڑے ناسور کی شکل اختیار کر گئے ہیں جو کہ آنے والی حکومت کے لئے سب سے
بڑا چیلنج ہونگے۔ آنے والی حکومت کے لئے ان مسائل پر قابو پانا ناگزیر ہوگا اور اگر
حکومت ان مسائل پر توجہ نہیں دیتی اور ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی تو حکومت
کے لئے حکومت کو قائم رکھنا نہایت دشوار ہوجائے گا اور کوئی بعید نہیں کہ عوام اس
جماعت کا بھی وہی حال کرے جو کہ سابقہ حکومتی جماعت کا الیکشنز میں ہوا۔ دوسری طرف
opposition میں پاکستان تحریک انصاف ہے جو کہ ایک نئی اور ملکی سیاست میں تیسرے
نمبر پر آنے والی جماعت ہے اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے ان کی
یہی جماعت موضوع ترین ہے اور ان کے علاوہ کسی بھی جماعت کے پاس یہ اہلیت نہیں کہ وہ
پاکستان کو درپیش مسائل سے باہر نکالے ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کے جبکہ دوسری
طرف حکومتی جماعت نے اپنے لائحہ عمل کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش مسائل
سے باہمی تعاون سے ملکر نکالیں گے اور تمام ملکی جماعتوں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں
گے۔ مگر دوسری طرف تحریک انصاف بہترین opposition کے طور پر ایوانوں میں بیٹھنے کے
لئے پرعزم ہے۔ لہذا ان حالات میں ایک بات تو طے کہ عوام نے انتھک محنت اور اندھا
اعتماد کرتے ہوئے اس حکومت کو چنا اور اب عوام کی اس حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ
ہیں۔ لہذا اب حکومت کو عوام مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ان مسائل کے سد باب
کے لئے سنجیدگی سے کوششیں بھی کرنا ہونگی۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اب ان برے ترین
حالات میں جو بھی جماعت عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئی وہی پاکستانی قوم
کی مستقل جماعت ہوگی کیونکہ اب عوام باشعور ہوچکے ہیں اور اپنے منتخب نمائندگان سے
یہی چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں اور اگر یہ حکومت
عوامی مسائل کا سدباب کرنے میںناکام رہیں تو یاد رہے اب عوام کے پاس پاکستان تحریک
انصاف کی صورت میں سیکنڈ آپشن موجودہے۔ |