طالبان سے مذاکرات کی کوشش حکومت کی سنجیدگی کا ثبوت ہے

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ، دہشت گری اور خوف و ہراس ہے۔عوام کو ہر حال میں امن چاہیے۔وہ امن کے لیے بھاری سے بھاری قیمت چکانے کو بھی تیار ہیں۔اگر کوئی حکومت انہیں امن فراہم نہیں کرسکتی تو وہ عوام کی نظر میں صفر ہے چاہے جتنے بھی زیادہ امن کے جھوٹے دعوے کرلیں۔اس بات کا اندازہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔وہ جماعتیں جو گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں تھیں، انہوں نے حکومت بنائی، پانچ سال گزارے لیکن عوام کو امن فراہم کرنے میں ناکام ہوئیں تو عوام نے انتخابات میں ان جماعتوں کو اتنی بری طرح مسترد کیا کہ بعض جماعتوں کے نشان تک ڈھونڈنا مشکل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے وہاں کے عوام پرسکون زندگی گزارسکتے ہیں۔اگر پرسکون زندگی کے لیے عوام کو امن ہی فراہم نہ کیا جائے گا تو وہ حکومت کو مسترد تو کریں گے۔

قیام امن کے حوالے سے وفاق اور خیبر پختونخوا میں بننے والی متوقع حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔جس سے امن کے قیام کی کوئی قندیل روشن ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دو روز قبل مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ طالبان مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے کیوں مذاکرات کے ذریعے ہی ملک میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات بہترین آپشن ہے۔ ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ خون خرابہ بند ہونا چاہیے، طالبان سے مذاکرات کرنا برا نہیں بہترین راستہ ہے۔ سیاست ہوتی رہتی ہے ملک قائم رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تیسری بار وزیراعظم بننے کا موقع دیا ہے، اب وزیراعظم بننے کے لیے نہیں عوام کی خدمت کے لیے آیا ہوں۔ان کا کہنا تھاکہ ’ہم نے ہزاروں جانیں دیں ہیں، کھربوں روپے کا نقصان ہوا ہے تو اگر طالبان نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘ کیوں نہ ہم بیٹھ کر بات کریں۔ کیوں نہ بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے ملک میں امن قائم کریں؟ میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کا ایک موقع گنوا دیا گیا لیکن اب بھی مواقع آ سکتے ہیں اور ان مذاکرات کو قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کے لیے جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے تعاون بھی مانگا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے نواز شریف کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی ساتھ ملانے کا مشورہ دیا اور خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک انتہائی اہم شخصیت کے ذریعے مجھے طالبا ن سے مذاکرات کے حوالے سے پیغام بھجوایا ہے جس میں مجھ سے مذاکرات کے لیے تعاون کا کہا گیا ہے، میں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک میں قیام امن اور دیگر مسائل کے حل کے لیے عمران خان کو بھی ساتھ لے کر چلیں اور کسی بھی قسم کے غیر ملکی ایجنڈے کو پاکستان پر مسلط نہ ہونے دیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں قیام امن بندوق کے ذریعے نہیں ہوگا، مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی سے خوفزدہ نہیں اور آج بھی یہ کہتا ہوں کہ 95 فیصد طالبان میرے مدرسے سے ہی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں، وہ مجھے اپنا روحانی باپ سمجھتے ہیں۔نوازشریف نے ان حالات میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، نوازشریف سے ہر ممکن تعاون کریں گے لیکن اگر بیرونی دباﺅ قبول کیا گیا تو انجام پچھلی حکومتوں جیسا ہو گا،نوازشریف دہشت گردی کی آگ کو بجھانے میں پوری توجہ مرکوز کریں، طالبان کو بندوق سے نہیں دبا سکتے، مذاکرات اور جرگہ کی بہت اہمیت ہے، بندق سے معاملہ حل نہیں ہو گا، حالات ٹھیک ہو جائیں تو امریکا جلد ہی بوریا بستر سمیٹ لے گا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے بھی طالبان سے مذاکرات اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مولانا سمیع الحق سے تعاون مانگا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورتحال ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، اسی سلسلے میں پی ٹی آئی کے نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور نامزد خیبرپختونخوا اسمبلی کے نامزد سپیکر اسد قیصر نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں دینی مدارس بالخصوص دارلعلوم حقانیہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے نامزد وزیر اعلیٰ کو امن وامان بہتر بنانے کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ خیبر پختونخوا کے متوقع وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ طالبان سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وہ پاکستانی اور ہم ہی میں سے ہیں۔طالبان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بھی خطے میں امن کے لیے کردار ادا کریں۔یاد رہے پارٹی کے صوبائی رہنما اسد قیصر نے کئی روز قبل کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کا کنٹرول سنبھالتے ہی طالبان کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کرے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ 14مئی کو اجلاس میں عمران خان نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کا چارج سنبھالتے ہی اگلے دن طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے طالبان سے مذاکرات کو وقت کی ضرورت قرار د یا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے میاں نوازشریف اور تحریک انصاف کے بیان انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ان بیانات میں سنجیدگی ٹپکتی نظر آرہی ہے۔اگر واقعی حکومت طالبان سے مذاکرات کرکے ملک میں امن قائم کردیتے ہیں تو یہ عوام کے لیے بہت بڑی خوشی کا باعث ہوگا۔کیونکہ عوام کو تو امن چاہیے۔ویسے بھی ان منتخب جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام نے ان کو منتخب کیا ہے تو یہ بھی اس کے بدلے میں انہیں امن فراہم کریں۔تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونی قوتیں کسی طور بھی مذاکرات کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔لیکن ان کو چاہیے قوم کو ساتھ لے کریں چلیں اور ملک میں امن قائم کریں۔امن مذاکرات سے ہی قائم ہوسکتا ہے، کیونکہ آج تک کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بھی قوت کے ذریعے امن قائم کیا گیا ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حملے کرنے والے تو پوری تیاری سے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ وہ مضبوط منصوبہ بندی اور بلند عزم رکھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے مشن کو جان سے بھی عزیز تصور کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مشن پر جان بھی نچھاور کرنے کو تیار ہوں، بھلا قوت کے ذریعے ان کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ وہ نہ تو کسی کی مخالفت سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب کسی قسم کی سختی ان لوگوں کو نہیں روک سکتی تو پھر ان کو روکنے کے لیے مذاکرات کا طریقہ اپنانا چاہیے۔بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ طالبان کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے۔ان کی یہ بات اس وقت تو ٹھیک ہو سکتی تھی کہ جب آپریشن سے امن بحال ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہوتی لیکن یہاں تو ایسی کوئی مبہم سی توقع بھی نہیں۔ حکومت اس سے پہلے طالبان کے خلاف کئی بار آپریشن کر چکی ہے لیکن حکومت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ آج تک نہ تو امن قائم ہوا ہے اور نہ ہی طالبان اپنے مشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹے ہیں اور قبائلیوں کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔ اس کے باوجود حکومت قوت کے ساتھ کیونکر ان کو ان کے مشن سے پیچھے ہٹا سکتی ہے۔یہ بات بھی نہیں کہ طالبان سے مذاکرات ناممکن ہیں۔ ان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود بھی امن کے ہی خواہاں ہیں۔ امن قائم کرنے کی خاطر ان سے مذاکرات کر لینا شکست نہیں بلکہ دانشمندی ہے۔ اگر امریکا اور افغان حکومت متعدد بڑے بڑے لیڈروں کو قتل کرنے والے طالبان سے دس سال جنگ لڑنے کے بعد مذاکرات کر سکتے ہیں تو ہماری حکومت طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتی؟آج بھی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت مل کر جامع منصوبہ بنائیں تو طالبان کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ مذاکرات کیے بغیر امن کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.