کوبرپیڈی (Coober Pedy) جہاں مکین زیرزمین رہتے ہیں

آسٹریلیا دنیا کا واحد ملک ہے جو براعظم کی حیثیت بھی رکھتا ہے اوراپنے متنوع جغرافیائی اور ماحولیاتی نظام کے باعث اسے دنیا بھر میں اہم اور منفرد حیثیت حاصل ہے چاروں جانب سمندر سے گھرا یہ براعظم عرصہ دراز تک دنیا کی نظروں میں عجوبہ بنا رہاکیوں کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل سمندر کی لہروں کو چیر کر دنیا کے دوسرے علاقوں کے باشندوں کا آسٹریلیا پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک براعظم آسٹریلیا میں موجود جنگلی حیات اور دیگر اصناف زندگی صرف اسی خطے تک محدود تھیں جس کی ایک اہم مثال’’ کنگرو‘‘ ہے، تاہم بعد ازں سفری سہولتوں میں مفید تکنیکی اختراعات کے باعث رفتہ رفتہ آسٹریلیا کے پوشیدہ حالات سے باقیماندہ دنیا روشناس ہوتی گئی اور آج ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ براعظم آسٹریلیا کرہ ارض کا ایک ایسا خوبصورت اور انوکھا مقام ہے جہاں قدم قدم پر حیرت انگیز اور عقل کوچکرادینے والے مقام ہیں انہی انوکھے اور حیرت انگیز مناظر فطرت میں سے ایک مقام مشہور زمانہ ’’کوبر پیڈی ‘‘ کا ہے ۔

کوبر پیڈی کا مضافاتی قصبہ جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ کے شمال میں تقریبا 850کلومیٹر کی دوری پر واقعہے اور اس علاقے میں بسنے والوں کے منفرد طرز رہائش کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا محور ہے کیوں کہ جب سیاح کوبر پیڈی کی پیچ دار پہاڑیوں کے درمیان ہموارسطح زمین پر چلتے پھرتے انسانوں کو یکدم غائب ہوتے دیکھتے ہیں تو حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ کوبر پیڈی میں آگ برساتی دھوپ اور خشک موسم سے بچنے کے لئے مقامی باشندے ہموار سطح زمین کے نیچے کھوہ یا غارنما مکانوں میں رہتے ہیں۔

بنیادی طور پر کوبر پیڈی کا علاقہ مختلف معدنیات کی دولت سے مالامال ہے اور یہاں پر عرصہ دراز سے کان کنی کا عمل جاری ہے بل خصوص دودھیا رنگت کے بیش قیمت پتھر Opalکی دریافت کے حوالے سے کوبر پیڈی ساری دنیا میں منفرد حیثیت رکھتا ہے اور اعلی قسم کے اوپل پتھر کی وافر مقدار میں موجودگی کے باعث اس علاقے کو کان کنوں کی جنت اور’’ اوپل کا دارلخلافہ ‘‘پکارا جاتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق کوبر پیڈی سے دنیا بھر سے نکالے جانے والے قیمتی اوپل پتھر کا ستر فیصد حاصل ہوتا ہے بے آب وگیاہ اور غیر آباد علاقے کوبر پیڈی کو 1858میں اسکاٹ لینڈ کے مشہور یورپی سیاح ،مہم جو اور ماہر آثار قدیمہ’’ جان میک ڈول اسٹورٹ ‘‘(1815-1866) نے دریافت کیا تھا اور ان کی اس کامیاب کوشش کے اعتراف میں آسٹر یلوی حکومت نے کوبر پیڈی کا نام ’’ اسٹورٹ رینج اوپل فیلڈ‘‘ رکھ دیا تھا تاہم 1920میں مقامی افراد کے احتجاج کرنے پر علاقے کا دوبارہ تاریخی نام ’’ کوبر پیڈی‘‘ رکھ دیا گیا البتہ علاقے سے متصل ہائی وے کو جان میک ڈول اسٹورٹ کے نام پر Stuart Highwayسے معنون کردیا گیا بنیادی طور پرکوبر پیڈی کا لفظ آسٹریلیا کے مقامی باشندوں’’ ایبروجن (Aborigin)‘‘کی مادری زبان کے لفظkupa-pitiسے اخذ شدہ ہے جس کے معنی'' '' White man in a holeیا' Waterhole'' 'کے ہیں ۔

کوبر پیڈی میں سب سے پہلے اوپل پتھر کی دریافت یکم فروری1915کو اپنے والد کے ہمراہ سونے کی تلاش میں مصروف پندرہ سالہ Willie Hutchinsonنے اتفاقیہ طور پر کی تھی تاہم قصبہ اپنی دریافت کے ستر سال بعد1916میں اس وقت دنیا کی نظروں میں اہمیت اختیار کرگیا جب یہاں پر بڑے پیمانے پر اعلی قسم کے اوپل پتھر کی موجودگی کے شواہد ملے جس کے بعد نہ صرف یہاں پر کان کنوں کی آمد شروع ہوگئی بل کہ کان کنی کے باقاعدہ ادارے بھی مصروف کار ہوگئے لیکن برقی سہولتوں سے عاری اس علاقے میں جھلستی ہوئی گرمی اور لو کے تھپیڑوں نے طویل مدت کے لئے رکے ہوئے محنت کشوں کو سخت مشکلات کا شکار کردیا بل خصوص جب محنت کش دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو آرام کی غرض سے محو استراحت ہوتے تو سورج غروب ہونے کے باوجو دگرمی کی شدت محنت کشوں کے آرام میں رکاوٹ بنتی اس تمام صورت حال کا حل کان کنوں نے اس طرح نکالا کہ انہوں نے ز مین میں انگریزی کے حرف ’’L‘‘ کی شکل میں ایک گڑھاکھودا اور پھرزیر زمین کمرے بنا کر اس میں رہائشی انتظام کرلئے اور حیرت انگیز طور پر آج سوسال گذر جانے کے باوجود اگرچہ ان کھوہ یا غار نما گھر وں کے مکین بدل گئے ہیں مگر مکان تمام جدید ترین سہولتوں کے ساتھ موجود ہیں ۔

جنوبی آسٹریلیا میں واقع صحرا کے وسط میں واقع کوبرپیڈی کا موسم گرمیوں میں سخت گرم اور خشک ہوتا ہے درجہ حرارت چالیس ڈگری سے زائد اور ہوا میں نمی کا تناسب بیس فیصد ہوجاتا ہے یہ صورت حال گرمی کی شدت کو مزید تکلیف دہ بنادیتی ہے دوسری جانب سردیوں کا موسم بھی خشک سرد ہواؤں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن زیر زمین بنے گھروں میں دونوں موسم مکینوں کو موسم کے شدائد سے بچا کر رکھتے ہیں جس کی وجہ ان مکانوں کا مخصوص طرز تعمیر ہے جو ہوا کی آمدورفت کو متاثر کئے بغیر دونوں موسموں میں زیر زمین غار کے درجہ حرارت کو معتدل رکھتا ہے اور زیرزمین حبس سے بچاتا ہے،یادر رہے کوبر پیڈی میں نہ صرف مقامی افراد کے زیر زمین گھر ہیں بل کہ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جہاں پر زیر زمین چرچ بھی واقع ہیں ، قبرستان بھی ہے اور سیاحوں کے لئے ہوٹل کی سہولت بھی موجود ہے اسی طرح کوبر پیڈی میں دنیا کا واحد گولف کورس ہے جس پر گھاس کا نام ونشان نہیں ہے کھلاڑی حضرات گولف کھیلنے کے دوران گیند کو ہٹ کرتے وقت مصنوعی گھاس کا ٹکڑا بچھاتے ہیں اور ہٹ لگاتے ہیں گھاس نہ ہونے کے باوجود اس گولف کورس کو دنیا کے سب سے قدیم گولف کلب’’دی رائل گولف کلب آف سینٹ اینڈریو ‘‘کا ممبر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

کوبر پیڈی کی ایک منفرد حیثیت اس کا غیر معمولی اور اچھوتا لینڈ اسکیپ ہے قدرتی طور پر جداگانہ ارضی مناظرسے آراستہ اس علاقے میں متعدد فلموں کی عکس بندی بھی کی گئی ہے بل خصوص نیوکلیائی سانحات سے متاثرہ یا خلائی علاقوں سے متعلق منظر کشی کے لئے کوبر پیڈی فلمسازوں کی اولین ترجیح اورپسندیدہ مقام ہے یہی وجہ ہے کہ 1995میں پیش کی جانے والی فلم Priscilla, Queen of the Desertجس نے بہترین ’’کسٹم ڈیزائنگ‘‘ کا آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا وہ پہلی فلم تھی جس میں کوبر پیڈی کی سرخ مٹی پر مشتمل زمین کو نیوکلیائی حادثے سے تباہ شدہ زمین کے طور پیش کیا گیا تھا اس کے علاوہ سال2000میں پیش کی جانے والی مشہورسائنس فکشن فلمPitch Blackمیں استعمال ہونے والا مصنوعی خلائی جہاز کا ڈھانچہ بھی یہاں آنے والے سیاحوں کی تفریح طبع کا باعث ہے، خشک اور بے جان جھاڑیوں کے درمیان کوبر پیڈی کی ایک خوبی جو سیاحوں کو لبھاتی ہے وہ یہاں کا واحد اور پہلا مکمل سرسبز درخت ہے جو اگرچہ اب سوکھ چکا ہے لیکن اسے مقامی انتظامیہ نے لوہے کی سلاخوں کی مدد سے ویلڈنگ کر کے مصنوعی اندازمیں نصب کررکھا ہے علاقے کی سب سے اونچی پہاڑی پر نصب اس درخت کے ساتھ کھڑے ہوکر باآسانی کوبر پیڈی میں واقع زیر زمین گھروں کے سطح زمین پر دائرہ نما دروازوں یاگھیر دار حلقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔

اگرچہ کوبر پیڈی میں گھر زیر زمین واقع ہیں لیکن اس کے باوجود مکین نہ صرف ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات سے لطف اندوز ہوتے ہیں بل کہ انہیں موبائل فون اور انٹر نیٹ کی سہولت بھی حاصل ہے انٹرنیٹ کے زریعے مقامی آن لائن اخبار’’ کوبر پیڈی نیوز ‘‘بھی پڑھا جاسکتا ہے مقامی ضلعی کونسل کی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق کوبر پیڈی کی زیر زمین رہائش پذیرآبادی تقریباساڑھے تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے کان کنوں کی اکثریت پر مشتمل اس آبادی کا ایک قابل زکر پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آبادی آسٹریلیا میں بسنے والی لگ بھگ 45مختلف قومیتوں پر مشتمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوبر پیڈی کو سرکاری طور پر آسٹریلیا کا سب سے کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی علاقہ قرار دیا گیا ہے کوبر پیڈی چوں کہ خشک صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور یہاں پر شاذونادر بارش ہوتی ہے لہذا پانی نہ ہونے کے برابر ہے چناں چہ مقامی حکومت نے زیر زمین مکینوں کی سہولت کے لئے 24کلومیٹر کے طویل فاصلے پر مشتمل پانی کی زیر زمین لائن بچھائی ہے جس کی بدولت نہ صرف مکینوں کو روزمرہ کے استعمال کے لئے پانی وافر مقدار میں مل گیا ہے بل کہ بعض افراد نے تو زیر زمین تیراکی کے تالاب بھی بنارکھے ہیں۔ کوبر پیڈی کے ایک رہائشی ’’میکلی وڈ‘‘ جو وہاں گذشتہ30سال سے آباد ہیں اور سترہ کمروں یا غاروں پر مشتمل گھر کے مالک ہیں اور سیاحوں کو یہ کمرے کرائے پر فراہم کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ زیر زمین رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ کی رہائش کی ضروریات بڑھتی جا تی ہیں آپ مزید غار یا کمرے بلا روک ٹوک’’ کھود‘‘سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کے اس کھدائی کے دوران آپ کو وقفے وقفے سے قیمتی پتھر ’’اوپل‘‘ بھی ملتے جائیں گے جس سے آپ باآسانی اپنے تعمیراتی اخراجات پورے کرسکتے ہیں واضح رہے کوبر پیڈی میں رہائش پذیر افراد بظاہر غاروں میں رہتے ہیں لیکن یہ غار جدید ضروریات زندگی کی تمام ترآ سائشوں سے پرُ ہیں۔

کوبر پیڈی میں زیر زمین رہائش ہونے کے باعث سطح زمین پر کسی بھی قسم کی گاڑی چلانا قطعی منع ہے اور نقصان یا حادثے سے بچنے کے لئے مخصوص علاقے میں سڑکیں بھی تعمیرنہیں کی گئی ہیں اسی طرح کوبر پیڈی میں جگہ جگہ ایے انتباہی بورڈبھی آویزاں ہیں جن پر لکھا ہے کہ خبردار ،آگے گڑھا ہے ،برائے مہربانی الٹے قدم نہ چلئے،دوڑنے سے گریز کریں وغیرہ ان انتباہی بورڈ کو مشتہرکرنے کی وجہ وہ حادثات تھے جن کے دوران کچھ سیاح لاعلمی کے باعث90فٹ گہری کھودی گئی عمودی سرنگ میں گرکر ہلاک ہوگئے تھے ان واقعات کے بعد حکومت آسٹریلیا نے خصوصی توجہ دیتے ہوئے کوبرپیڈی میں سیاحوں کے لئے نہ صرف معلوماتی کاؤنٹر قائم کردیے ہیں بل کہ حادثات سے نپٹنے کے لئے ابتدائی طبی امداد کا مرکز بھی قائم کردیا ہے اور دیگر سفری سہولیات میں بھی اضافہ کردیا جس میں ہوائی جہازوں کے لئے 1428میٹر طویل رن وے بھی شامل ہے اور سب سے بڑی سہولت زیر زمین قائم رہائشی ہوٹل کی ہے جس میں سیاح اپنی مرضی کے مطابق ایام گذار سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کوبرپیڈی کا علاقہ ایسے مہم جو سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام بن چکا ہے جو جیتے جاگتے زیر زمین رات گذارنا چاہتے ہیں ۔

دی افغان ایکسپریس
کوبر پیڈی کی جانب سفر کے لئے ایک اہم سہولت ٹرین کی بھی ہے یہ ٹرین سروس جسے اب ’’دی غان‘‘(The Ghan)کہا جاتا ہے ماضی کی وہ یادگار ہے جس کا اصل نام The Afghan Expressتھایہ ٹرین سروس1923میں دولت مشترکہ کے زیر انتظام شروع کی گئی تھی اور ان افغانی اور ہندوستانی شتر بانوں کی خدمات کا اعتراف تھا جنہوں نے1860سے1930کے عرصے میں آسٹریلیا کے غیر دریافت شدہ علاقوں کو دریافت کرنے کی مہم میں اپنے اونٹوں سمیت حصہ لیا تھا واضح رہے وہ یورپی مہم جوحضرات جو آسٹریلیا کے غیرآباد اور انتہائی گرم آب و ہوا پر مشتمل علاقوں کے راستے تلاش کرنے کی مہم پر نکلے تھے اس بات سے آگاہ تھے کہ ان کے گھوڑے گرم اور خشک موسم کو برداشت کرنے سے قاصرہوں گے چناں چہ ایسے نامصائب حالات میں افغانوں، ہندوستانیوں اور ان کے اونٹوں نے ماضی کے ان دشوار گذارسفر وں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا اور آج آسٹریلیا کے دوردراز علاقوں تک رسائی کی اہم وجہ یہی شتربان تھے جن کی محنت اور ہمت کے باعث کوبرپیڈی کاعلاقہ دنیا کی نظروں کے سامنے آج موجود ہے۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 116529 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More