چلیے جناب! انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے بے
نظیر قتل کیس میں پرویزمشرف کی ضمانت منظور کرلی۔ ایسے مقدمات جن میں ریاست
مدعی ہوتی ہے جب کوئی ملزم ضمانت کی درخواست دائر کرتا ہے تو اس موقع پر
سرکاری وکیل بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ ملزم کا وکیل ضمانت کی منظوری کے
لیے دلائل کے انبار لگادیتا ہے جبکہ سرکاری وکیل کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی
صورت ضمانت نہ ہو، اسی لیے بعض اوقات ملزمان کی جانب سے سرکاری وکیل کو
خرید لیا جاتا ہے، مٹھی گرم ہونے پر وکیل نرم پڑجاتا ہے اور وہ ایسے کمزور
دلائل دیتا ہے جسے عدالت کے لیے رد کرنا آسان ہوتا ہے اوریوں ملزم کی ضمانت
ہوجاتی ہے۔ کبھی سرکاری وکیل کو رام کرنے کے لیے پیسوں کی بجائے دھونس،
دھمکی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ اب ذرا پرویز مشرف کے معاملے کو دیکھیے، پیر
کو جب بے نظیر قتل کیس کی سماعت ہوئی تو ملزم کے وکیل نے ضمانت کی منظوری
کے لیے بھرپور دلائل دیے۔ دوسری طرف سرکاری وکیل نے ضمانت کے خلاف دلائل
دینے کی بجائے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف سے بطور ضمانت اتنے پیسے
رکھوائے جائیں اگر یہ ملک سے فرار ہوجائیں تو رقم عوام کی فلاح وبہبود پر
خرچ کی جاسکے۔ جج نے سرکاری وکیل کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے 20 لاکھ روپے
کے مچلکوں پر سابق صدر کی ضمانت منظور کرلی۔
پرویزمشرف پر ججوں کو نظر بند کرنے کا بھی مقدمہ چل رہا ہے، چند روز قبل یہ
حیرت انگیز خبر سامنے آئی کہ مقدمے کے مدعی اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے اچانک
مقدمے کی پیروی سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے پرویز مشرف کے خلاف
درخواست واپس لے لی۔ گھمن کا کہنا تھا کہ انہوںنے ”ملکی مفاد“ مےں درخواست
واپس لی ہے۔ مدعی کے دستبردار ہونے کی وجہ سے مقدمہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
یہ ہی وہ مقدمہ ہے جس مےں پرویزمشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عاید کی
گئی تھی، اب ان پر سے یہ پابندی اٹھانے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ سابق صدر
کو آئین توڑنے کے جرم میں غداری کے مقدمے کا بھی سامنا ہے، اس مقدمے میں
نگران حکومت سپرےم کورٹ کو واضح طور پر بتاچکی ہے کہ وہ سابق صدر کے خلاف
آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔
سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا،
کئی مہینوں کی ”تحقیقات“ کے بعد گزشتہ دنوں کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں رپورٹ
پیش کی۔ اس رپورٹ میں سب سے اہم سوال کو گول کردیا گیا، کمیشن نے متاثرین
کو معاوضہ، جامعہ حفصہ کے لیے جگہ دینے کی تو سفارش کی لیکن یہ نہیں بتایا
کہ بے گناہ طلبہ وطالبات کو کس کے حکم پر خون میں نہلایا گیا؟ رپورٹ پڑھ کر
ایسا لگتا ہے جیسے اس قتل عام کا کوئی ذمہ دار نہیں تھا، سب کچھ خودبخود
ہوگیا تھا۔ اوپر ذکرکردہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سابق صدر کو
باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عدالتوں میں ریلیف دلایا جارہا ہے۔
پرویزمشرف اقتدار کے خواب دیکھتے ہوئے پاکستان آئے تھے لیکن وہ مقدمات میں
پھنس گئے۔ ان کے خلاف چلنے والے تمام مقدمات سنگین نوعیت کے ہیں، آئین کو
توڑنے اور قتل کے مقدمات میں سزائے موت اور عمرقید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
پرویزمشرف کے جرائم اتنے واضح ہیں کہ اگر ان کا منصفانہ ٹرائل کیا جائے توا
نہیں سزا ملنا یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں سابق صدر کو قانون کے
شکنجے سے نکالنے کے لیے جوڑتوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ وکیل کا گونگا بن جانا،
مدعی کامقدمے سے فرار اور نگران حکومت کا اظہار بے بسی بے معنی نہیں ہے۔
عالمی قوتوں کو اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ عدالتوں کو دباؤ میں نہیں لایا
جاسکتا، اس لیے وہ دوسرے راستے اختیار کررہی ہیں۔
سابق صدر کو فرار کرانے کے منصوبے میں نوازشریف کا نام بھی لیا جارہا ہے۔
نوازشریف جو چند روز بعد وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے جارہے ہیں، پرویزمشرف
کے سخت ناقد رہے ہیں، وہ بڑے شد ومد سے ڈکٹیٹر کے ٹرائل کا مطالبہ بھی کرتے
رہے ہیں مگر قوم کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب انتخابی مہم کے دوران ن لیگ
کے سربراہ کے لہجے میں پرویز مشرف کے لیے ہمدردی چھلکنے لگی، وہ عوامی
اجتماعات میں پرویز مشرف کو معاف کرنے کا اعلان کرتے تھے، تجزیہ کاروں نے
اسی وقت کہہ دیا تھا کہ نوازشریف کا بدلتا موقف عالمی قوتوں کے دباو ¿ کا
نتیجہ ہے اور یہ کہ ن لیگ بھی مشرف کو راستہ دینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ بعض
حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں تاخیر بھی مشرف ڈیل
کو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کی جارہی ہے۔ نوازشریف پر الزام لگایا
جارہا ہے کہ انہوںنے عالمی قوتوں کو نگران حکومت کے دور مےں ہی مشرف کا
معاملہ نمٹانے کا کہا ہے۔ نوازشریف کا خیال ہے اگر سابق صدر کو تقریب حلف
برداری سے قبل پاکستان سے نکال لیا جاتا ہے تو اس صورت میں ان پر الزام
نہیں آئے گا اور عالمی طاقتیں بھی خوش ہوجائیںگی۔ نوازشریف، عالمی طاقتوں
اور نگران حکومت کے درمیان ہونے والی ڈیلنگ کا یہ وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر
ان دنوں انتہائی تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے۔
پرویزمشرف نے تین بار آئین کو توڑا، لال مسجد کو خون میں نہلایا، ملک کو
محض اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک ایسی جنگ میں دھکیلا جس کا
خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے، اس جنگ مےں مارے جانے والے 40 ہزار افراد کا
خون مشرف کے سر پر ہے، ملک کو پہنچنے والے کھربوں روپے کے نقصان کا ذمہ دار
بھی یہی شخص ہے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ سمیت درجنوں افراد کو اسی نے
امریکا کے ہاتھوں بیچا۔ یوں پرویزمشرف کے آئینی، سیاسی اور اخلاقی جرائم کی
فہرست بہت طویل ہے۔ پوری قوم اس شخص کو عدالت کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے۔
لیگی قیادت کا یہ خیال کہ لوگ مشرف کے فرار کا اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرائیںگے،
بچکانہ سوچ ہے۔ عوام مشرف کے فرار کی سازش اور اس کے مہروں سے پوری طرح
واقف ہے۔ ہوسکتا ہے عالمی طاقتیں اپنے نمک خوار ساتھی پرویزمشرف کو لے اڑیں
لیکن اس کا خمیازہ ن لیگ کو ضرور بھگتنا پڑے گا۔ مخالفین موقع کی تاک میں
ہیں، ادھر مشرف اڑیں گے ادھر یہ لوگ ن لیگ کے خلاف محاذ کھول دیں گے۔ سوال
یہ ہے کیا نوازشریف عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے عوام کی ناراضی کو
افورڈ کرسکیں گے؟ |