اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ غیورافغانیوں کا نام نہاد صدرہندوستان
سے فوجی مدد طلب کررہا ہے ۔ حامد کرزئی اس جری قوم کا بے ننگ وعارسربراہ ہے
جس نےاپنی بہادری اور دلیری سے تاریخ کے اوراق پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں ۔صدیوں
پہلے ابرہیم لودھی کے اقتدار خلاف جب راجپوت بے دست و پا ہوگئے تو انہوں نے
ایک افغانی شہزادےظہیرالدین بابر سے امداد طلب کی تھی ۔ بابر نے سرزمینِ
ہندفتح کرکے سونے کی چڑیا بنا دیا۔ایک ایسی وسیع و عریض مغلیہ سلطنت قائم
کی جس کا خواب بھی ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی مہاراجہ یا
سمراٹ نہیں دیکھ سکا تھا ۔ پانی پت کی آخری جنگ میں بھی مراٹھوں کو شکست
فاش سےدوچار کرنے کا سہرہ بھی ایک اورافغانی بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے سر
ہے۔
برطانیہ کے یونین جیک جب بشمول ہندوستان ساری دنیا پر لہرا رہاتھا تواس وقت
افغانیوں نے اس کے چیتھڑے اڑا دئیے ۔سوویت یونین جس نے ویتنام کے جیالوں کی
مدد سےامریکیوں کو ذلیل و رسوا کرکے ماربھگایا تھا اسے بھی افغانی مجاہدین
نے سر پر پیر رکھ کر بھاگنے پر مجبور کردیا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ
بیسویں صدی کے اواخر میں جس عالمی استماکریت کا خواب بن رہا تھا اسے بھی
افغانیوں نے چکنا چور کردیا ۔ ناٹو کی متحدہ طاقت تیرہ سال کے طویل کشمکش
کے بعد بھی جس غیرتمند قوم کا بال بیکا نہ کرسکی اس کا سربراہ اگرکسی غیرکے
آگے جھولی پھیلائے تو وہ غیرتمند قوم اس پروار نہیں تو کیا پیار کرےگی
بقول حفیظ میرٹھی ؎؎
میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پردار کرتا ہوں
مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ
سچ تو یہ ہے کہ حامد کرزئی نے جانے سے قبل ازخوداپنے آپ کو رہبر کے بجائے
رہزن ثابت کردیا ہے ۔جس ملک کے آگے کرزئی نے اپنا ہاتھ پھیلایاہے اس کی
فوجی صلاحیت کا راز گزشتہ ماہ اس وقت طشت ازبام ہو گیا جب۱۵ اپریل ۲۰۱۳کوپچاس
چینی فوجیوں نے ہندوستانی سرحد کے اندر دراندازی کرکےدولت بیگ اولڈی میں
اپنی چوکی قائم کردی۔ اس کے جواب میں مزحمت یا احتجاج کے بجائے فلیگ میٹنگس
پر اکتفا کیا گیا ۔ ۳۰ اپریل تک یکے بعد دیگرے تین مرتبہ ناکامی ہوئی اس کے
باوجودوزیراعظم منموہن سنگھ نے اسے ایک مقامی مسئلہ قرار دے کر نظر انداز
کردیا اور وزیر خارجہ سلمان خورشید کے چینی دورے کی تیاریاں جاری رہیں ۔اس
بیچ ہندوستان نے پانچ کلومیٹر چین کی سرحد کے اندر ایک چوکی قائم کی ۔۴ مئی
کی فلیگ میٹنگ میں چینیوں نے بلا شرط اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے
بعد ۱۵ اپریل کی اپنی پرانی پوزیشن پر واپس چلے گئے ۔
ہندوستان کی سب سے بڑی دیش بھکت پارٹی بی جے پی نے پارلیمان میں اس نازک
معاملے کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا بلکہ بدعنوانی کے معاملے میں وزیر اعظم
سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی رہی لیکن سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ نے سلمان
خورشید کے دورے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی رو ش بزدلانہ ہے ۔چین
کی درندازی ہندوستان پر حملہ ہے اورجنگ کا خطرہ مول لے کر بھی اس کا جواب
دیا جانا چاہئے۔ ملائم سنگھ نے کہا چین ہندوستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے
۔ میں گزشتہ ۸ سالوں سے انتباہ کررہا ہوں کہ چین ہماری سرحدوں پر قبضہ کئے
جارہا ہے لیکن حکومت اس کی جانب توجہ نہیں دیتی ۔ ملائم سنگھ یادو کا یہ
دعویٰ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے اس لئے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چین
کی جانب سے ہر سال اس طرح کی دو سو سے زیادہ دراندازیاں ہوتی ہیں ۔ حکومت
کی جانب سےچین کی اس حرکت کو حدود سے تجاوز شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود
وزیر خارجہ کا دورہ ملتوی نہیں ہوتا اور چینی صدر کا زور و شور سے استقبال
کیا جاتا ہے۔ جس ملک نے اپنے سے زیادہ طاقتورپڑوسی کے ساتھ یہ بزدلانہ رویہ
اختیار کیا ہوا ہے اس کے آگےمسلم دنیا سے منھ پھیر کرحامد کرزئی کا کر
دستِ سوال دراز کرنا یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ؎
ایسا بھی انقلاب کیا ، شیخ تمیں یہ کیا ہوا؟
رخ تو ہے سوئے بتکدہ ، پشت ہے جانب حرم
صدر کرزئی کے دورے سے قبل ان کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا کہ کرزئی ان
مذاکرات میں افغانستان کے فوجی اور سلامتی اداروں کو مستحکم کرنے کے لئے
بھارت سے ہر قسم کی مدد مانگیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناٹو کے چلے
جانے کے بعد ہندوستان کے تعاون سے مضبوط ہونے والی فوج کس سے لڑے گی؟ غیر
ملکیوں سے لڑنا تو افغانیوں سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا ہاں خود اپنے ہی
داخلی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کیلئے یا اپنے ملک میں موجود کمزور اقلیت کو
نشانہ بنانے کی تربیت اگر حامد کرزئی حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ مہارت انہیں
ہندوستانی انتظامیہ سے ضرور مل جائیگی۔بھارت میں افغانستان کے سفیر نے کہا
کہ افغانستان کو لڑائی میں سامان اور ہتھیاروں کے لئے بھارت کی مدد
درکارہے۔شاید انہیں نہیں معلوم کہ بھارت خود ہرسال کروڈوں ڈالر کا اسلحہ بر
آمد کرتا ہے ۔ جو ملک خود اپنی ضرورت کیلئے خود کفیل نہ ہو اس سے اسلحہ
خریدنا چہ معنی دارد؟
ایسا لگتا ہے کہ بھارت سے ہر طرح کی مدد مانگنے والے حامد کرزئی تین ماہ
قبل۱۷ فروری کا اپنا بیان بھول گئے جبکہ انہوں نےایک ایسا حکم نامہ جاری
کرنے کا عہد کیا تھا جس کے تحت افغان حفاظتی دستے شہری علاقوں میں اپنی مدد
کے لیے ’بیرونی‘ افواج سے فضائی مدد کے لیے نہیں کہہ سکیں گے۔انہوں نے کہا
تھاکہ افغان شہری خوش ہیں کہ ناٹو افواج ملک سے جا رہی ہیں۔’ ہم ان کی
امداد سے ابھی تک خوش ہیں لیکن ہمیں اپنے دفاع کے لیے بیرونی ممالک کی
افواج کی ضرورت نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کی افواج اپنے ملک کا دفاع
کریں۔‘افغان صدر نے کہا تھا کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے ہلمند میں
’بیرونی‘ افواج سے فضائی مدد کا تقاضا کیا تھا۔ ’اگر یہ سچ ہے تو بہت ہی
افسوناک اور شرمناک ہے۔ وہ کیسے اپنے گھروں پر بم برسانے کے لیے غیر ملکیوں
سے مدد مانگ سکتے ہیں۔ اگر حفاظتی دستوں کا اس طرح کی مدد طلب کرنا غلط ہے
تو سربراہِ مملکت کا یہی کرنا کیسے حق بجانب ہو سکتا ہے ؟
حامد کرزئی جیسے رہنما اس امر بیل کی طرح ہوتے ہیں جس کی اپنی جڑیں زمین
میں نہیں ہوتیں بلکہ وہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی تناور درخت سے لپٹ کر پنپتی
ہیں ۔ عرصۂ دراز تک وہ امریکہ بہادر کے سہارے افغانستان پر مسلط رہے اور
جی بھر کے اپنی قوم کا استحصال کیا۔ اپنی عوام کے خلاف وہ دشمن کے دست بازو
بنے رہے لیکن جب ناٹو ممالک اس جنگ سے بیزار اور مایوس ہوگئے تو انہوں نے
ایک ایک کرکے امریکہ کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیا ۔ امریکہ کا داخلی معاشی
دباؤ بھی اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا اور اس نے بے آبرو ہوکر افغانستان
سے نکل بھاگنے کا ارادہ کیا۔ کرزئی نے پہلے تو امریکہ کو روکنے کی کوشش کی
لیکن جب دیکھا کہ امریکہ کسی صورت رکنے کیلئے تیار نہیں بلکہ وہ جلد از جلد
دامن چھڑا کر نکل جانا چاہتا ہےتو حامد کرزئی کوایک نئے سہارے کی ضرورت پیش
آئی ۔ اس صورتحال وہ اس خوش گمانی کا شکار ہیں کہ ہندوستان امریکہ کانعم
البدل ثابت ہوجائیگا اور وہ اس کےبھروسے کچھ اور دن وہ اقتدار سے چپکے رہ
سکیں گے۔
حامد کرزئی فی الحال اپنے سابقہ محسن امریکہ سے خاصے ناراض چل رہے ہیں ۔
گزشتہ دنوں انہوں نے افغانستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر دفاع چک
ہیگل کے ساتھ اپنی طے شدہ پریس کانفرنس کو منسوخ کر دیا ۔ایوان صدر نے پریس
کانفرنس کی منسوخی کی وجہ وقت کی قلت بتائی جبکہ امریکی حکام نے سیکوریٹی
خدشات کو اس کا سبب قرار دیا۔ یہ دونوں وجوہات خاصی مضحکہ خیز ہیں ۔ کیا یہ
بات کسی کے وہم و گمان میں ہوسکتی ہے کہ حامد کرزئی کے پاس ہندوستان کا
دورہ کرنے کیلئے تو وقت ہو لیکن امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس
کانفرنس کیلئے وقت نہ ہو ۔ اسی طرح امریکہ کی ۶۵ ہزار فوج اگر اپنے وزیر
خارجہ کی حفاظت نہیں کر سکتی تو اسے سرزمین افغانستان پر رہنے کا کیا حق
ہے؟ اس اخباری کانفرنس کی منسوخی کی بنیادی وجہ امریکہ اور طالبان کے
درمیان ہونے والی گفت و شنید سے ناراضگی کا اظہارتھا۔
چک ہیگل کے دورے سے قبل کابل اور خوست میں ہونے والے دو حملوں میں ۱نیس
افغانی ہلاک ہوئے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حامد کرزئی نے اپنے دل کی بات
کہہ دی انہوں نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا امریکہ اور طالبان دونوں
افغانستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہیں کہ دوہزار چودہ
کے بعد وہاں کے حالات مزید خراب ہونگے۔گزشتہ روز طالبان کے نام پر ہونے
والے بم دھماکے غیر ملکیوں کے مفاد میں تھے اور افغانستان میں ان کے مزید
قیام کے حق میں تھے جو کہ ہمیں دھمکا کر انہیں افغانستان میں روکنے کے لیے
کیے گئے تھے۔ اس بیان میں اول تو دھماکوں کے الزام سے طالبان کو بلاواسطہ
یہ کہہ کر بری کردیا گیا کہ طالبان کے نام ہونے والا حملہ گویا کوئی اور اس
کام کو کررہا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ طالبان کسی صورت
امریکہ کا ناپاک وجود اپنی سرزمین پر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور
امریکہ کسی صورت وہاں رکنا نہیں چاہتا اس لئے ان دونوں کو دھماکوں کیلئے
موردِ الزام ٹھہراناحیرت انگیز تھا ۔ اسی لئے اس احمقانہ بیان پر امریکی
اور ناٹو افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا: ’ہم لوگوں نے گزشتہ
بارہ سال کے دوران بڑی جانفشانی سے جنگ کی ہے، ہم لوگوں نے گزشتہ بارہ
سالوں میں کافی خون بہایا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے کہ تشدد اور عدم
استحکام ہمارے مفاد میں ہوگا۔ سوال یہ کہ اگر یہ دھماکے نہ ناٹو نے کرائے
اور نہ طالبان نے تو آخر وہ تیسرا فریق کون ہے جو ان سے فائدہ اٹھا سکتا
ہے؟
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے وزارت دفاع کے عہدےپر فائز ہونےسے قبل کہا تھا
کہ ’بھارت اپنے پرانے دشمن پاکستان کے خلاف افغانستان کو ایک محاذ کے طور
پر استعمال کرتا ہے‘۔مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان صرف القاعدہ اور
طالبان کے خلاف مغرب کی جنگ کا میدان نہیں ہے، بلکہ پاکستان اور بھارت کی
ایک بلاواسطہ محاذآرائی کا میدان بھی ہے۔گزشتہ برسوں میں بھارت نے
افغانستان کے ساتھ کان کنی اور ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کیے ہیں اور اسے
دو ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے
کہ افغانستان کی ملنے والی عالمی امداد کا بہت بڑا حصہ عوام کی فلاح بہبود
پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ حکمرانوں کی اور خاص طور پر حامد کرزئی کی جیب میں
چلا جاتا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ حامد کرزئی کا یہ دورہ اپنی رشوت
کو وصول کرنے کیلئے ہو اس لئے آئندہ سال سے اس آمدنی کا بند ہونا یقینی
ہوگیا ہے ۔ ایسے میں جبکہ شہید خالد مجاہد کے قبر کی مٹی ابھی نہیں سوکھی
اور مسلمانانِ ہند آئے دن سرکاری مظالم کا شکار ہورہے ہیں حامد کرزئی کا
حکومتِ ہند کو اپنا عظیم دوست کہنا ایید ابن الوقتی کہ اس پر حفیظ میرٹھی
یہ شعر یاد آتا ہے ؎
جب غرض باؤلی ہو تو کیا کیجیے
ایک جلاّد کو دیوتا کہہ دیا
حامد کرزئی جہاں ہندوستان کو اپنا عظیم دوست کہتے ہیں وہیں پاکستان کے
جڑواں بھائی ہونے کا بھی دم بھرتےہیں ۔ حامد کرزئی کو یاد رکھنا چاہئے کہ
ہندوستان رام بھکتوں کا دیس ہے ۔یہاں کا حکمراں طبقہ میں اپنے تمام تر
اختلافات کے باوجود رام راجیہ قائم کرنے پر صدفیصد متفق ہے۔یہ لوگ مریادہ
پرشوتم رام کو ایک مثالی بادشاہ اور دیوتا مانتے ہیں اور رامائن سے رہنمائی
حاصل کرتے ہیں۔اتفاق سے ر امائن میں بھی جڑواں بھائیوں اور ان کے ایک عظیم
دوست کا ذکر ملتا ہے ۔ حامد کرزئی نے سنا ہے اپنے کالج کی تعلیم ہندوستان
ہی میں حاصل کی تھی اور اب تو انہیں ڈاکٹریٹ کی سند سے بھی نوازدیا گیا ہے
اس لئے ممکن ہے کہ انہوں نے بھی رامائن ہی کی روشنی میں ہندوستان کو عظیم
دوست اور پاکستان کو جڑواں بھائی کہا ہو۔اور ہندی حکمرانوں سےرام چندرجی
جیسی دوستی کی توقع باندھے ہوئے ہوں ۔لیکن رام جی کےست یگ اور آج کل کے
کالی یگ میں یہ فرق ہے کہ وہاں ہنومان ہوا کرتا تھا اور یہاں طالبان ہے اور
مختلف پالے میں ہے۔طالبان اور ہنومان کافرق جاننا ہو تو یہ شعر دیکھئے ؎
دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے
اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے
رامائن کے اندر کشکندھا کےراجہ والی اوراس کے جڑواں بھائی سگریو کے ساتھ
رام چندر جی کی عظیم دوستی کی داستانِ خونچکاں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ اس وقت
کی بات ہے جب رام چندر جی اپنے بھائی لکشمن کے ساتھ بن باس کے دن گزار رہے
تھے۔ان کی اہلیہ سیتا کو راون نے اغواء کرلیا تھا۔ راون ست یگ میں رام
چندرجی کیلئے اسی طرح مصیبت بنا ہوا تھا جیسے آج کل چین کا سلوک ہندوستان
کے ساتھ ہے۔ راون کے خلاف رام چندرجی کو ایک مدد گاردرکارتھاجیسے کہ رام
بھکتوں کو فی الحال دوست کی ضرورت ہے۔ صحرا نوردی کے دوران رام لکشمن کی
ملاقات سگریو اور اس کے دوست پون پتر ہنومان سے ہو گئی ۔ سگریو کی حالت
ویسی ہی تھی جیسی کہ اقتدار سے محرومی کے بعدجلدہی حامد کرزئی کی ہونے والی
ہے۔ سگریوکو اس کے بھائی والی نے معزول کرکے بھگا دیا تھا۔ اقتدار سے بے
دخلی سگریو کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں تھی بلکہ وہ اسی کا مستحق تھا جیسا کہ
حامد کرزئی ہے ۔
کشکندھا کے اقتدار پروالی اسی طرح فائز تھا جیسے کہ طالبان کسی زمانے میں
افغانستان پر حکومت کررہے تھے ۔اس بیچ مایاوی نامی راکشش نے اس پر حملہ
کردیا جیسے کہ امریکہ نے کیا۔ والی نے مایاوی کو جب دوڑانا شروع کیا تو وہ
ایک زمین کی تہہ کے اندر کسی سرنگ میں گھس گیا۔ والی نے سگریو سے کہا کہ وہ
سرنگ کے دہانے پر انتظارکرے اور خود مایاوی کا پیچھا کرتے ہوئے زمین کے
اندر گہرے پاتال میں اتر گیا۔ کچھ دیر بعد سگریو نے دیکھا کہ سرنگ کے اندر
سے خون کی پھوار باہر آرہی ہے ۔ اس موقع پر سگریو کا رویہ عین کرزئی جیسا
تھا ۔ اس نے فوراًقیاس کرلیا کہ یہ اس کے بھائی والی کا لہو ہے جسے مایاوی
نے ہلاک کردیا ہے۔ اب اسے چاہئے تھا کہ وہ اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے
کیلئے اندر کا رخ کرتا لیکن ایسا کرنے کے بجائےوہ شاداں و فرحاں دارالخلافہ
لوٹ آیا اور اقتدار کا مالک بن بیٹھا ۔
رامائن کے مطابق حقیقت وہ نہیں تھی جو کرزئی نما سگریو سمجھ رہا تھا ۔دراصل
تورہ بورہ کی جنگ میں اس کے بھائی طالبان نے امریکہ کو شکست فاش سے دوچار
کردیا تھا ۔ جب والی باہر آیا اس نے دیکھا سگریو بادشاہ بنا ہوا ہے ۔ یہ
دیکھ کر والی حیرت زدہ رہ گیا ۔ سگریو کو چاہئے تھا کہ اقتدار پر قابض ہونے
سے قبل کم از کم اس بات کی تصدیق کرتا کہ کس کی جیت ہوئی اور کون ہار
گیالیکن اقتدار کی ہوس انسان کو اندھاکر دیتی ہے۔سگریو کی دوسری غلطی یہ
تھی کہ اس نے والی کے بیٹے اور سلطنت کے جائز حقدار انگڑ کو تخت نشین کرنے
کے بجائے خود اپنے سر پر تاج سجا لیا تھا ۔ والی نے جب سگریو کو اقتدار سے
بے دخل کردیا تو سگریو معافی مانگنے کے بجائے دشمنی پر تل گیا ۔
اس پس منظر میں سگریو اور ہنومان کی ملاقات رام اور لکشمن سے ہوتی ۔ یہ ایک
ایسا وقت تھا جبکہ دونوں کو اپنے اپنے مقاصد کے تحت دوست کی ضرورت تھی ۔
ایک اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنا تھا اور دوسرے کوراون سے بدلہ لینا تھا۔
دوستوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی رام چندر جی نےسگریو کا اقتداربحال کرنے کی
سازش رچی اور سگریو نے اپنی فوج کے ذریعہ لنکا پر حملہ ہونے کا یقین دلایا۔
اس معاہدےکے بعد والی اور سگریو کے درمیان کشتی کا انعقاد عمل میں آیا ۔
دونوں جڑواں بھائی ایک دوسرے سے بے حد مشابہ تھے اس لئے سگریو کو اکھاڑے
میں پھولوں کی مالا پہننے کا مشورہ دیا گیا ۔ رام چندر جی تو بہترین
تیرانداز تھے ہی انہوں نے پیڑ کے پیچھے چھپ کر دھوکے سے والی پر تیر چلا کر
اسے ہلاک کردیا۔سگریو کو اقتدار حاصل ہو گیا ۔رامچندر جی کو ہنومان سپہ
سالار کی حیثیت سے مل گیا اور اس کے ساتھ وانر سینا بھی تھی۔ایسا لگتا ہے
کہ ہند افغان عظیم دوستی کل یگ میں رامائن کی تاریخ دوہرانا چاہتی ہے۔ پھر
ایک بار جڑواں بھائیوں کے درمیان میدان کارزار گرم کرنے کی سازش رچی جارہی
۔ درخت کے پسِ پردہ تیر پھر ایک مرتبہ کمان میں سجایا جارہاہے۔ حقدارکے
مقابلے باطل پرست کی پشت پناہی کی جارہی ہے تاکہ اسے اپنے دشمن کے خلاف اسے
آلۂ کار بنایا جاسکے۔ افغانستان اورہندوستان کے درمیان پیدا ہونے والی
حالیہ رفاقت اور رامائن کےان واقعات میں کمال مشابہت پائی جاتی ہے۔ لیکن
کیا کل یگ میں بھی ست یگ کی کہانی دوہرائی جاسکے گی ؟ اس سوال کا جواب وہ
تمام لوگ جانتے ہیں جو افغانی مجاہدین کی تاریخ سے واقف ہیں جن
کےشعارِزندگی کی ترجمانی مندرجہ ذیل شعر کرتا ہے ؎
بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو |