حسبِ روائت ، حسبِ سابق اس بار بھی خزانہ خالی ہے۔۔۔ ابھی جناب نواز شریف
صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف بھی نہیں اُٹھایا اور اُنہیں یہ معلوم بھی
پڑگیا ہے کہ خزانہ تو بالکل خالی ہے ۔۔۔کیا یہ بات اُن کو الیکشن سے پہلے
بلندو بانگ دعوے اور بھولی بھالی عوام سے رنگ برنگے وعدے کرتے وقت معلوم
نہیں ہو سکی۔۔۔؟؟؟ کیا اس عوام کو ایک بارپھر بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔۔۔؟؟؟
اب پورے پانچ سال نہ تو یہ خزانہ بھرے گا اور نہ ہی اس عوام کی امیدوں پر
پڑا ہوا منوں پانی خشک ہو گا۔پاکستان مسلم لیگ (نوووون) کے بھاری اکثریت سے
جیت جانے پر اس عوام کو جو خوشی نصیب ہوئی تھی کیا وہ برقرار رہ پائے گی؟
کیا اس بے مہار لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو پائے گا؟ کیا اس طوفانی قسم کی کرپشن
پر قابو پایا جا سکے گا؟ کیا اس بے قابو مہنگائی کو روکا جا سکے گا؟ ؟؟ کاش
۔۔۔!!! ایسا سب کچھ ہو جائے جو کچھ عوام نے اس گرمی کی دھوپ میں لمبی لمبی
لائنوںمیں لگ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت سوچا تھا۔عوام کو وہ خوشیاں مل
جائیں جس کی اُنہیں پچھلی کئی دھائیوں سے اُمید ہے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم
اُنہیں اُن کا بنیادی حق ہی مل جائے تو یہ بھی بہت بڑی غنیمت ہو گی۔لیکن۔۔۔!!!
خزانہ تو خالی ہے۔۔۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جاتے جاتے جو کارنامے سر
انجام دیئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور رہی کثر نگران حکومت نے نکال دی ہے
۔ اسی لیئے تو نواز شریف صاحب نے اپنا پہلا بیان ہی یہی دیا ہے کہ خزانہ تو
بالکل خالی ہے ، کس کس چیز کو ٹھیک کریں، قرض اُتاریں یا بجلی کا بحران ختم
کریں۔۔۔ جناب میاں نواز شریف صاحب آپ ٹھیک فرما رہے ہیں۔ یہ خزانہ کم بخت
ہر نئی آنے والی حکومت کو خالی ہی ملتا ہے اور اس خالی خزانے کو پھر سے
بھرنے کے لیئے ہمیں غیروں کے در پر کشکول لے کر حاظر ہونا پڑتا ہے۔ اور
وہاں سے ملنے والی اس خیرات کے بدلے کئی قسم کے معاہدے کرنے پڑتے ہیں۔ اپنا
ضمیر گروی رکھنا پڑتا ہے۔اپنی غیرت کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی عزت نیلام
کرنا پڑتی ہے۔ خود مختاری کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر کرنا ہوتا ہے۔ ڈرون
حملوں کے لیئے نئے ہدف مطعین کرنا پڑتے ہیں ۔معصوم اور بے گناہ لوگوں کو
دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے۔اور وہ سب کچھ کرنا پڑتا
ہے جو ہمارے آقا ہمیں حکم کرتے ہیں۔۔۔ اس لیئے یہ سب کچھ کرنا ہماری نئی
نویلی حکومت کی بھی مجبوری ہو گی کیوں کہ۔۔۔ خزانہ خالی ہے۔۔۔ اور اس خزانے
کو بھرنے کے لیئے کچھ قربانیاں دینی ہوں گی۔ ایسی قربانیاں جو ہم ماضی میں
دیتے آئے ہیں اور مستقبل بھی ہمارا ان قربانیوں سے ہی روشن ہو گا۔۔۔ ہم نے
نئی سڑکیں تعمیر کرنی ہیں، نئے پل بنانے ہیں، پہلے میٹرو چلائی تھی اب بلٹ
ٹرین چلانی ہے، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ بھی دینے ہیں، سستی روٹی کی سکیم بھی
شائد پھر سے سر اُٹھا لے اور آشیانہ جیسا رہائشی منصوبہ بھی زندہ ہو جائے۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔!!! خزانہ تو خالی ہے اور اس خالی خزانے کے ساتھ ہم کس کس چیز
کوٹھیک کریں۔۔۔!!!کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو کسی بھی صورت ٹھیک نہیں
کیا جا سکتا جیسے حکومت کا کردار، جیسے سرکاری محکموں کی کرپشن، جیسے رشوت
کا بازار، جیسے پولیس کی بدمعاشیاں، جیسے بیورو کریٹس کی عیاشیاں، جیسے
غریبوں کے ساتھ نا انصافیاں، اور جیسے سیاست دانوں کی عیاریاں ، مکاریاںاور
چالاکیاں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیونکہ ان سب چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیئے خزانے کی
ضرورت نہیں پڑتی صرف توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم نے ہمیشہ اُسی چیز کو
ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے جس پر خزانے کے منہ کھولے جاسکیںتاکہ تاجہ
، ماجہ،ساجہ۔۔۔ سب کے سب فیضیاب ہوں۔ پچھلی حکومت کا صرف ایک رینٹل پاور کا
منصوبہ ہی اس کی بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کو
ٹھیک کرتے کرتے پورے پانچ سال گزر گئے لیکن یہ چیزیں بجائے ٹھیک ہونے کے
مزید بگڑتی چلی گئیں۔اب آئندہ پانچ سال کیسے گزریں گے یہ ہم سب جانتے ہیں
اگر کوئی اس کے بارے میں نہیں جانتا تو بہت جلد جان جائے گا ۔ آخر سیاست کے
اونٹ کو کسی ایک کروٹ تو بیٹھنا ہی ہو گا۔ |