دنیا بھر کے نظام اور ادیان
برائے معلومات ہو سکتے ہیں۔ اسلام مگر دین عمل ہے۔ آپ سارا قرآن پڑھ جائیے،
کہیں ایک آیت بھی نہ ملے گی کہ یہ جنت تمہیں تمہاری معلومات اور تمہارے علم
کی بدولت عطا کی گئی ہے یا کی جائے گی۔ اس کے برعکس ہر جگہ آپ کو عمل کی
فضیلت اورترغیب ملے گی۔ مطلب یہ نہیں کہ علم کی فضیلت نہیں، سارا عمل علم
کی چھاؤں ہی میں ہو گا مگر نرا علم بغیر عمل کے کچھ حیثیت نہیں رکھتا بلکہ
وبال بن جاتا ہے۔ الیکشن کے دن ہیں اور ایک بار پھر بڑے زور و شور سے نظام
کی بات ہو رہی ہے۔ عوام کو لبھانے کیلئے مرغوب ترین نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر اسلام ہی کی بات کی جاتی ہے مگر بیچ بیچ میں سیکولرازم کو بھی،
خونچکاں امت کے پر درد جسم کا علاج بتایا جاتا ہے۔ جمہوریت کوکفر کہنے والے
بھی ہیں اور جمہوریت کی تقدیس کے گن گانے والے بھی ۔ بے شمار باتیں ہیں،
رنگا رنگ سلوگن ہیں اور گویا ایک سا میلہ لگا ہوا ہے۔ آپ کہیں بھی کسی بھی
موضوع پر کسی کو بھی بٹھا لیں، معلومات کے انبار لگ جائیں گے اور علم و عقل
کے دریا بہا دئیے جائیں گے۔ عقل دنگ رہ جائے گی اور آپ اش اش کر اٹھیں گے۔
مگر آپ سندھ میں جا کے دیکھ لیں۔ خیر پور وزٹ کر لیں، جنوبی پنجاب کے
مظلوموں سے مل لیں یا باقی ماندہ پنجاب و پاکستان سے رائے لے لیں، غریب کا
کہیں وقار نہیں، چہروں پہ کہیں حقیقی نکھار نہیں۔ کہیں بہار نہیں، کہیں
اطمینان نہیں، میرے دوست فرما رہے تھے تم آمریت کا رونا روتے تھے اب تو
جمہوریت کو بھی کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ اور وہ کھل ہی نہیں کھیلی بلکہ
ننگا ناچ دکھا گئی ہے۔ دیکھا آپ نے کیا کیا زاویے ہیں ، ہمارے پاس بولنے
اور کہنے کے اور فائدہ اس کا کیا ہوتا ہے؟آپ کہیں بھی، کسی بھی شخص سے اک
ذرااس کا حالِ زار پوچھئے اور پھر دیکھئے اندازِ گل افشانی اظہار۔ اگر بہت
کہنا اور بہت بولنا کوئی خوبی ہوتا تو رب کے آگے کیا مشکل تھی کہ قرآن مجید
سات آٹھ جلدوں میں نازل ہوجاتا۔ وہ جو الگ سے حدیث کے نام سے کلام مقدس اور
احکاماتِ اسلام رب نے پیغمبر کے ذریعے ہمیں دئیے، وہ بھی خود آسمان ہی سے
قرآن کی شکل میں نازل ہو جاتے۔ لیکن ظاہر ہے محض بولنا اور وعدے کر تے چلے
جانااورگفتگو کے انبار لگا دینا ہی انسانیت کے درد کا درماں نہیں، اس پر
عمل اصل چیز ہے۔ جس کے لئے دراصل گفتار نہیں کردار، قول نہیں کامدرکار ہوتا
ہے، کام، کام اور کام!
میرا خیال ہے کہ فی الحال اہم یہ بحث نہیں کہ کیا بہتر ہے ،جمہوریت یا
اسلام اور اہم یہ بھی نہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں کتنی ہم آہنگی یا
تفاوت ہے۔ آپ یہ بحث قیام پاکستان سے لے کر آج تک کر رہے ہیں۔ اس سے نہ قوم
کے تن پر کپڑے آئے، نہ ان کے معدے میں لقمہ پہنچا اور نہ ان کے ذہنوں میں
روشنی آئی۔ اگر کچھ آیا تو قائدین کے جسموں، ذہنوں اور گھروں میں، اور وہاں
اتنا کچھ آیا کہ وہ ہماری جان کو آ گئے ،اس سے کچھ فرق نہیں پڑا کہ وہ
مذہبی قائدین تھے یا سیاسی۔ آپ نظام نظام کرتے نہیں تھکتے اور بھول جاتے
ہیں کہ نظام میں بھی فرد ہی اہم ہوتا ہے۔ وہ جو جمہوریت کے دلدادہ ہیں،
دیکھ چکے کہ خود جمہوریت کے رندے بھی عوامی جسموں پر کچھ کم تیز نہیں،
خلافت خلافت کرنے والے بھی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ اب نہ کسی نبی
نے آنا ہے اور نہ ہی ابوبکر و عمر نے جنم لینا ہے۔ افراد ہمیں خود تیار
کرنا ہوں گے ۔اہم صرف فرد ہے یعنی فرد کی تربیت ۔ فرض کیجئے زرداری صدر
نہیں خلیفہ کہلانے لگتے تو تب کیا محض نام بدلنے سے آپ کو خلافت کے ثمرات
مل جاتے۔
جناب عمرؓ خلیفہ تھے توانھوں نے دینار بھری تھیلی ایک صحابی کے پاس بھیجی
اور قاصد سے کہاذرا دیکھتے رہنا ،وہ صاحب اس تھیلی کا کیا کرتے ہیں۔ قاصد
گئے ، تھیلی خدمت میں پیش کی اور پرے ہو کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ
محتاج بلائے گئے اور چشم زدن میں تھیلی ان میں خالی کر دی گئی۔ وہ پلٹے اور
جناب عمرؓ کو تمام قصہ کہہ سنایا۔ جناب عمر نیفرمایا،اب یہ دوسری پکڑو اور
فلاں صاحب کو دے آؤ۔ ہاں ، وہاں بھی دیکھ لینا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ قاصد
پھر گئے! تھیلی پیش کی اور بیٹھ رہے۔ یہاں بھی وہی ہوا۔ اس سے پہلے کہ
تھیلی بالکل ہی خالی ہو جاتی اندر سے بیوی محترمہ نے آواز دی :’’جناب!
محتاج تو ہم بھی ہیں، دیگر حاجت مندوں کے ساتھ کچھ ہمیں بھی عنایت کر
دیجئے۔ ‘‘ کہا ٹھیک ہے، یہ دو درہم بچے ہیں تم بھی لے لو۔ قاصد نے جو دیکھا
تھا وہی آ کے کہا تو جناب عمرؓ پکار اٹھے۔
یہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک ہی کردار اور ایک ہی سوچ والے، کسی میں
کچھ فرق نہیں۔ سوچئے یہاں ان دو صاحبوں نے کس نظام پر عمل کیا؟ جمہوریت پر
یا خلافت پر؟ جی نہیں! اپنی تربیت پر۔ آپ میخانے بدلیں، پیمانے بدلیں یا
نظام نامے بدلیں، جب تک فرد کا اندر نہیں بدلتے قوم کا باہر نہیں بدلے گا۔
سوچئے ! خلافت یا جمہوریت کے ثمر دینے والا فرد آج کہاں تیار ہو رہا ہے؟
سکول اور یونیورسٹی میں، میڈیا کی چکا چوند میں،یا مسجد و مدرسہ میں؟ حال
سب کا آپ کے سامنے ہے۔ نہ مسجد و مدرسہ کے حاملین کے القاب آپ سے چھپے ہیں
اورنہ خانقاہ و دانش گاہ کے اطوار آپ سے پوشیدہ ہیں۔ حضوربے سمت جتنی چاہیں
توانائیاں ضائع فرما لیں، نعرے لگا لیں، قوم کو خواب سہانے دکھا لیں،
پنجابی ضرب المثل کے مطابق اس کے باوجود ’’سوپیاز بھی کھانا ہوں گے اور سو
جوتے بھی‘‘۔ جب تک معاشرے کے جوہڑسے انسان کے اندر کا کمینہ پن نکالا نہیں
جاتا، ہر بیج سے تھور اگے گا، ہر گلاب پر کانٹے جنم لیں گے اور ہر امرت
دھارے سے زہر نکلے گا۔ کون بدلے گایہ سب؟ علماء! جی ہاں علما،کہ یہی وارثان
انبیاء ہیں، انہی کے پاس علوم و معارف ہیں اورانھی کے پاس علاج تیرگی ہے۔
یہ مگر سیاست میں آ گئے ہیں ، دوسروں کی طرح بازو اٹھاتے، نعرے لگاتے اور
طدعوے کرتے ہیں، حالانکہ انہیں عمل پیش کرنا اور دوسروں سے عمل کرانا تھا۔
نتیجہ معلوم ،ہم کب سے دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آؤ دست بستہ علماء سے گزارش کریں
کہ وہ اپنے منصب پر واپس آ جائیں اور جس دن یہ اپنی جگہ پرآ جاتے ہیں لوگ
ان سے نکاح اور طلاق ہی کے مسائل نہیں پوچھیں گے،بلکہ سیاست کو ووٹ بھی ان
کے مشورے سے دیں گے۔ آپ فرد بدل لیجئے، نظام خود بخود بدل جائے گا۔ رسول
انقلاب نے یہی کیا تھا۔ مدینہ میں یہی ہوا تھا۔شاید ابھی آپ کے پاس وقت
نہیں۔ تو ٹھیک ہے! فی الحال آپ زندہ باداور مردہ باد کے نعرے لگا یئے، کبھی
فرصت ملی تو اس پر بھی غور کر لیں گے۔ |