ہم پاکستانی بڑی عجیب قوم ہیں کبھی کبھی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ
ہمارا خمیر کس مٹی سے ہے۔نہ جانے ھمارے سے پاکستان بننے کے بعد دو دفعہ
ناقابل فراموش یکجہتی کے مظاہرے کیسے ہو گے ایک ١٩٦٥ میں اور دوسرا کشمیر
میں اور شمالی علاقہ جات مین آنے والی قیامت صغرا ٢٠٠٥ میں گو وہاں بھی
ہمارا نظم ضبط کویی مثالی تو نہ تھا۔آج ہمیں پاسپورٹ کی تجدید کے لیے جدہ
قونصلیٹ جانا پڑا وہاں پر حالات بدنظمی اور ہمارے پاسپورٹ کے منتظمین کے
حوال کا تو سنا ہوا تھا آج حالات کا خود مظاہرہ بھی دیکھا۔گو پاسپورٹ
ڈیپارٹمیٹ کافی عرصہ سے سمندر پار پاکستانیوں کو خوار کرنے میں مصروف ہے
اور ہمیں سمندر پار آنے کی سزا دی جاتی ھے وہ بھی ھم سے رقم لے کر۔جدہ
قونصلیٹ جہاں پر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ،طائیف سمیت کئی دوسرے شہروں سے
پاکستانی یہاں پاسپورٹ اور دیگر معاملات کے لیے آتے ہیں۔قونصلیٹ میں آنے
والے ان پاکستانیوں کا کوہی پرسان حال نہیں ھے۔نہ کوہی حمامات کا انتطام نہ
کوہی پہنے کے پانی نہ اور کوہی مناسب انتطامات اندر ہال میں بھی گرمی کا
ایسا سماں کے لوڈشیدنگ زدہ پاکستان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔پاسپورٹ ارجنٹ
فیس ٢٥٥ ریال کے ساتھ جس کا وقت ١٥ دن عموما ہوتا ہے اب ایک ماہ کا وقت دیا
ہے اور اگر ایک ماہ میں مل بھی جاے تو بڑی بات ہے۔ یہ تو کارنامے ہیں
پاسپورٹ افس کے جدہ میں حالات ہیں باقی مملکت اور دیگر ممالک کے حالات بھی
اس سے کم تو نہیں ہوں گے یہ تو ایک ادارے کے حوالہ سے ہمارا رونا ھے۔
اس بات سے انکار ممکن بات نہیں کہ جیسی قوام ویسے ان پر حکمران اور منتظمین
مسلط ہوں گے۔ھمارا مذہب ھمارے نبی پاک علیہ الصلات و السلام نے بھی ھمیں
نظم ضبط اور قوانین پر جو بر حق ہیں پر ہیں عمل کا حکم دیا ہے۔لیکن ھم ہیں
کہ ان باتوں کو سمجھ کر اور اس میں بھلایی کا ادراک ہونے کے باوجود عمل سے
عاری ہیں ھم بلعموم مسلم قوم اور بلخوصوص پاکستانی قوم اس شاستگی کا مطاہرہ
نہیں کرتے جس کا درس قران و حدیث سے ملتا ہے۔اس میں ہماری بہتری کا راز
مضمر ہے ھم جہاں کرپشن اور حکمرانو اور ذمہ داران کو کوستے ہیں لکین بمارے
اعمال بھی کویی لایق تقلید نہیں ہیں۔گو یہ مناظر کہاں دیکنھے کو نہیں ملتے
جو آج بلکہ کہیں جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک شخص جو کے پاسپورٹ کی تجدید کی
غرض سے آیا تھا اور ایک چپرسی تھا ہا پھر کسی صاحب کا ملازم وہ گاڑی صاف کر
رہا تھاتو وہ شخص باربار اس کے پاس جاتا اور اس کو اپنے کام کو جلدی کروانے
کی خاطر کچھ رقم دینے کی بات کرتا اور واپس آکر اپنے دوستون سے کہتا کے اگر
سو پچاس ریال پر مان جاے اور کام کروا دےتو بھی کویی گھاٹے کا کام نہیں گو
کہ وہ آدمی نہیں مانا۔مانا کے مشکلات اور مصایب بھی آتے ہیں لیکن ان کا حل
غیر قانونی طریقہ کار نہیں ہے اب یہ خامی ہماری ہکہ حکمرانوں کی جن ھم
کوستے ہیں کرپشن اور رشوت کے دروازے کھولنے میں ھم ان لوگون کی مدد کرتے
ہیں۔اگر ھم نطم و ضبط کا مظاہرہ کریں تو ایسے حالات نہ پیدا ہوں اگر ہم
رشوت سے انکار کر دیں کون آپ سے زبردستی لے سکتا ہے ۔کام دیر سویر قبول کر
لیں لکین لاقانونیت کو قبول نہ کریں تو کون ھے جو اس فعل پر آپ سے زبردستی
کر سکتا ہے۔اگر ہمارے ملک میں اس طرح کے فرسودہ نظام ہے کیا من حیث القوم
ہم ان کے ذمہ دار نہیں۔
یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے تو لاتعداد واقعات ہوتے ہیں پاکستان اور پاکستان
سے باہر نہ صرف ملک کو بدنام کرتے بلکہ غیر اسلامی ممالک میں اپنے مذہب کو
بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر ھم صرف اتحاد ایمان تنظیم کے اصول کو اپنا
لیں تو روزمرہ کے معاملات میں انے والی پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے
ہیں۔ہر بات پر الزامات ٹھوکنے کے بجاے ان معاشرتی براہیوں کا خود کو بھی
ذمہ دار ٹھرانا چاہیے۔ خودا حتسابی کے بغیر ہم کبھی بھی بدل نہیں سکتے۔جب
تک ھم نے خود کو نہیں بدلا تو ظالم و جابر کرپٹ حکمران ہمارا مقدار بنے
رہیں گے۔جہاں تک اعلی حکام کو قوانین پر عملدرامد کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر
خود کو بدلنے کی ضرورت بھی ہے۔قانون کی عملداری مین کسی کو استثنی نیہں
ہونا چاہیے۔قوم کی تقدیر بدلنی ھے تو خود کو بدلنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔والسلام وعلیکم |