بھارتی عوام نے چانکیائی
جنونیت پرستی کو مسترد کر کے بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی ”را “
کی سازش ناکام بنا دی
ہندو مسلم نفرتوں کے پرچار کے ذریعے انتخابی معرکہ سر کرنے کی بی جی پی کی
کوشش ناکام
بھارتی انتخابات بی جے پی شکست فتح کا تاج کانگریس کے سر سجے گا
پاکستان ‘ بھارت ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو ایک دوسرے سے باہم جنگ میں
مصروف رکھ کر اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش کرنے والی بھارتی انٹیلی جنس
ایجنسی ”را “ کے چانکیائی سیاست ناکامیوں کے بھنور میں پھنس چکی ہے
بی جے پی کی پر تشدد سیاست کو مسترد کر کے بھارتی عوام نے واضح پیغام دے
دیا ہے کہ وہ جنگ و جدل اور نفرتوں و تعصب کی چانکیائی سیاست نہیں بلکہ
اپنی نسلوں کے خوشحال مستقبل کی خاطر امن ‘ دستی ‘ تجارت اور ترقی چاہتے
ہیں
”را “ نے اگر اب بھی بھارتی عوام کے اس واضح پیغام کو سمجھ کر جنگ وجدل اور
نفرت و تعصب کی چانکیائی سیاست کو چھوڑ کر بھارتی اقلیتوں اور پڑوسی ممالک
کے ساتھ برادرانہ وتجارتی تعلقات کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا تو پھر بھارت
اور ”را “ دونوں کا مستقبل مخدوش ہے ۔
(رپورٹ: عمران خان)
بھارت میں ہونے والے قومی انتخابات کا مرحلہ تکمیل پذیر ہونے کے بعد
انتخابی نتائج بھی جاری کئے جاچکے ہیں اور جس طرح امریکہ میں سی آئی اے کی
تمام تر کوششوں کے باوجود امریکی عوام نے صدر جارج بش کی تشدد اور نسلی
برتری کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے سیاہ فام اوبامہ کو ان کی معتدل اور پر
امن پالیسی کے باعث منتخب کرکے نہ صرف امریکہ میں ایک نئی تاریخ رقم کی
بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کرادیا کہ عوام اب جنگ و جدل اور سازشوں کی سیاست
نہیں بلکہ اپنے خوشحال مستقبل کے لئے امن و اخوت اور صنعتی و تجارتی ترقی
چاہتے ہیں تاکہ اقتصادی خوشحالی کے نتائج کے ذریعے ان کی آنے والی نسلوں کا
مستقبل محفوظ ہوسکے اور یہی کیفیت اب بھارتی انتخابات میں دیکھنے میں آئی
جب بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی تمام تر سازشوں اور چانکیائی حربوں کے
باوجود بھی بھارتی عوام نے جنونیت پرستی کو مسترد کرتے ہوئے سیکولر جماعتوں
کے نمائندوں کو ووٹ دیئے اور ان تمام بنیاد پرست قوتوں کو مسترد کردیا جو
بھارت کے اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتوں کے درمیان نفرتوں کو جنم دے کر اقتدار
کی مسند تک پہنچنے کی خواہشمند تھیں کیونکہ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل
کرنے کےلئے ”را “ نے بھارت میں ذات پات کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت کو بھی
جنم دیا اور بھارت میں بہت بڑے پیمانے پر اقلیتوں کے خلاف نفرتوں کو جنم دے
کر ہندوؤں کو” بھارتی جنتا پارٹی“ کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی
تاکہ ”را “ کی قائم کردہ جنونی ہندوؤں پر مشتمل ”ہندوراشٹر “ کی حامی بی جے
پی انتخابات میں فتح حاصل کر کے اقتدار میں آجائے اور بھارت کو ہندو راشٹر
میں تبدیل کرنے کے اس منصوبے کی تکمیل ہوسکے جس پر ”را“ اسرائیلی انٹیلی
جنس ایجنسی ”موساد “ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور اس منصوبے کا مقصد
جنوبی ایشیا میں اسرائیل طرز کی ایک ایسی ہندو ریاست کا قیام ہے جو ایشیا
میں موجود تمام مسلم ممالک کے خلاف وہ کردار ادا کرے جو عرب ممالک کے خلاف
اسرائیل ادا کررہا ہے مگر بھارتی عوام نے انتخابات میں ”را “ کی حمایت
یافتہ چانکیائی اور جنونیت پرست ‘ متعصب و نفرت پرست جماعتوں کو مسترد کر
کے نہ صرف ”را “ کو بدترین شکست سے دوچار کردیا ہے بلکہ چانکیائی
سیاستدانوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ دنیا کے دیگر پر
امن عوام کی طرح بھارتی عوام بھی نفرت اور جنگ و جدل سے خائف ہوچکے ہیں اور
امن و آشتی کے خواہشمند ہیں ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاہب خواہ الہامی ہوں یا
دنیاوی سب کا مقصد انسانوں کے درمیان باہمی ربط قائم کر کے ایک دوسرے اخوت
و محبت کا فروغ ہے جبکہ اقوام کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے سے
نفرت اور جنگ و جدل کی بجائے تجارت و اقتصادیت کا راستہ اپنائیں تاکہ ترقی
و خوشحالی کے ذریعے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولتیں میسر آسکیں جو تہذیب و
تمدن یافتہ اقوام کی ضرورت و نشانی ہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ انتخابات میں
”را “ کی چانکیائی سیاست کی علمبردار اور نفرت و تعصب کے ذریعے بھارت کو
اقلیتوں کا مقتل بنانے کی خواہشمند جنونی جماعتوں کا بذریعہ ووٹ احتساب
کرکے اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ عوام کی بالغ نظری سے قطع نظر یہ بت
بھی ایک حقیقت ہے کہ کم ظرف ہی نفرتوں کا سوداگر ہوتا ہے اور عوام اگر بالغ
نظر ہوجائیں تو پھر انہیں کم ظرفوں اور با ظرفوں میں تفریق کرنا آسان ہوتا
ہے یہی کچھ اس وقت ہوا جب بی جے پی کے راج ناتھ ‘ ایڈوانی اور نریندر مودی
اپنا نقطہ نگاہ و منشور واضح کرنے کی بجائے کانگریس پر بہتان تراشی کی
سیاست میں وقت ضائع کرتے رہے۔
ایڈوانی کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو طاقتور ثابت کرتے مگر انہوں نے موہن
سنگھ کو کمزور ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی طاقت کو غلط
سمت میں استعمال کیا اور اسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ نریندر مودی نے بھی
کیا گو کہ نریندر مودی کو بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ سمیت ہندو انتہا
پرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے غنڈوں کی طاقت بھی
دستیاب تھی اور ایسے میں اگر وہ مؤثر حکمت عملی اپناتے اور دوسروں پر کیچڑ
اچھالنے کی بجائے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرتے تو خاطر
خواہ نتائج حاصل کرسکتے تھے مگر انہوں نے بھی اپوزیشن میں کیڑے نکالنے اور
من موہن سنگھ کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ اگر وہ ایڈوانی کو بطور
وزیراعظم ایک بہترین امیدوار ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو یقیناً انتخابی
نتائج میں تبدیلی ہوسکتی تھی مگر وائے رے کم ظرفی کہ ہم نے جب زبان کھولی
دوسروں پر تنقید کے لئے کے مصداق دونوں حضرات اپنی ہی زبان درازی کا شکار
ہوگئے اور ”را “ کے لئے نادان دوست ثابت ہوتے ہوئے بھارت میں مذہبی
انتہاپرستوں کی حکومت کے قیام کے اس کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے اسباب
پیدا کرتے چلے گئے۔ بی جے پی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ اس نے ہر
معاملے میں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کبھی اپنا منشور ‘ اپنا
منصوبہ اور اپنی تنظیمی صلاحیتوں پر روشنی ڈالنے کی بجائے کبھی سونیا
گاندھی پر تنقید کرتی رہی تو کبھی من موہن سنگھ پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف
رہی ‘ کبھی کانگریس کو بڑھیا اور پریانکا کو گڑیا کہا ‘کبھی دہشت گردی کے
خلاف کانگریس کو بے حد کمزور باور کرانے کی کوشش کی ۔یوں بی جے پی نے اپنی
پوری الےکشن مہم میں صرف یہی ثبوت دیا کہ اس کے پاس اپنے بارے میں کہنے
کےلئے کچھ بھی نہیں ہے اس طرح مخالفانہ تقریروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے بی
جے پی کانگریس کی تشہیر کے اسباب پیدا کرتی رہی جس سے کانگریس نے بھرپور
فائدہ اٹھایا اور بی جے پی پر جوابی تنقیدی حملے نہ کر کے عوام کو اپنے
معتدل مزاج اور پر امن ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔ دوسری غلطی بی جے پی نے یہ
کی کہ گجرات فسادات کے ذمہ دار نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر ابھارا
ہوسکتا ہے اس طرح وہ مسلم دشمنی میں جنونیت کی دہلیز پار کرجانے والے
ہندوؤں کو مودی کے گرد جمع کرنے کی کو شش کررہی ہو مگر اس کی یہ کوشش ناکام
رہی کیونکہ گجرات نے مودی جیسے معتصب ہندو کو وزیراعلیٰ کے طور پر قبول
کرلیا مگر پورا ہندوستان انہیں وزیراعظم یا ڈپٹی وزیراعظم کے طور پر تیار
کرنے کو کسی بھی طور تیار نہیں کیونکہ بھارت میں بسنے والے تمام ہندو مسلم
‘ سکھ ‘ عیسائی اور پارسی دشمن نہیں ہیں اور مودی کو وزیراعظم یا ڈپٹی
وزیراعظم بنائے جانے کے خدشات نے عوام کو بی جے پی سے دور کرنا شروع کردیا
۔بی جے پی نے تیسری غلطی یہ کی کہ جس واجپائی کی مدد سے اس نے بڑے فوائد
حاصل کئے تھے انہیں بالکل ہی الگ کردیا یہ مانا کہ واجپائی علیل تھے اور
عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر احتراماً تو بی جے پی انہیں
ریلیوں میں شریک کراسکتی تھی یا انتخابی پوسٹرز پر ان کی تصویر شائع
کراسکتی تھی جبکہ ویڈیو کانفرنسنگ اور ٹیلیفونک خطاب کے اس دور میں ان
ذرائع سے استفادہ کرکے بھی واجپائی کا رشتہ عوام سے برقرارکرایا جاسکتا تھا
مگر بی جے پی رہنماؤں نے انہیں مکمل نظر انداز کردیا ۔ایسی ہی کئی غلطیوں
کے باعث بی جے پی نے اپنی مٹی خود پلید کی اور بی جے پی کی انتخابی مہم میں
روا رکھی گئی تنقیدی سیاست نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بی جے پی
تفرقہ و نفرت پھیلانے والی متشدد جماعت کے ساتھ ساتھ مجرموں کو بڑھاوا اور
قانون شکنی کرنے والی جماعت ہے جس کا ہر رہنما عوام کے مسائل کے ہل کی
بجائے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کو زیادہ بہتر
سمجھتا ہے لہٰذا انتخابی نتائج کے ذریعے عوام نے ”را “ اور بی جے پی کو
واضح پیغام دے دیا ہے کہ نفرت ‘ تشدد اور جنگ و جدل کی سیاست نہیں بلکہ امن
‘ دوستی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں اور یہ بات بی جے پی اور ”را
“ جتنی جلدی مجھ لیں اتنا ہی ان کے اور بھارت کے حق میں بہتر ہوگا ۔ |