ویسے تو سب کو بخوبی علم ہے کہ میاں نواز شریف بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتے
رہتے تھے کہ مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت دی جائے ۔ ان کی یہ بات
عوام الناس نے بھی سن لی اور آج مسلم لیگ ن واحد اکثریتی پارٹی ہے جو بغیر کسی
دوسری جماعت کے اپنی حکومت قائم کر سکتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے اس دفعہ
بہت بڑے بڑے مسائل کھڑے ہیں ۔ اگر مسلم لیگ ن نے ان مسائل کا حل ڈھونڈ لیا تو یقیناً
مسلم لیگ ن کو پنجاب کی طرح پورے ملک کی عوام کی حمایت بھی حاصل ہو جائے گی اور اگر
وہ مسائل حل نہ کر سکے تو پاکستان پیپلزپارٹی کا حال کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اب
بات کرتے ہیں ان بڑے مسائل پر جو کہ مسلم لیگ ن اور شریف حکومت کو درپیش ہیں ۔ سب
سے بڑے مسائل میں لوڈشیڈنگ ، غربت ،دہشت گردی ، قومی اداروں کی تباہ حالی اور ہماری
خارجہ پالیسی ہے ۔ آج کل سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ کا سمجھا جا رہا ہے ۔ پاکستان
میں پچھلی حکومت نے کئی دفعہ عوام سے وعدے کیے کہ وہ لوڈشیڈنگ ختم کر دے گی لیکن وہ
ایسا نہ کر سکی اور عوام نے اس کو حالیہ الیکشن میں مسترد کردیا ۔ اب لوڈشیڈنگ کے
مسئلے کی طرف آپ کو لے کر چلتا ہوں ۔ پاکستان میں 23 سے 24 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے
کی صلاحیت موجود ہے ۔ جس میں سے صرف 45 فی صد بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔ اور بقیہ بجلی
لائن کی خرابیوں ،چوری اور انتظامی با ضابطگیوں میں ضائع کر دی جاتی ہے ۔ اس کے
علاوہ 742 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ بھی لوڈشیڈنگ کی بہت بڑی وجہ ہے ۔ پاکستان میں
بجلی کی پیداوار 9 سے 10 ہزار میگاواٹ ہے اور اس کی جو ڈیمانڈ ہے وہ 16 سے 17 ہزار
میگاواٹ کے قریب ہے ۔ یہ اعدادو شمار حتمی نہیں ہیں ۔ کیونکہ آئے دن واپڈا کے جادو
گر افسران اس کو اوپر نیچے کرنے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں ۔ جس طرح آج کل
لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اس طرح تو ایسے ہی لگتا ہے کہ ہمارا شارٹ فال تقریباً 12 ہزار
میگاواٹ کے قریب ہے کیونکہ موجودہ شارٹ فال میں صرف 8 سے 9 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہی
کافی ہے میرے خیال سے اگر مسلم لیگ ن کی حکومت دل سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو
چند دنوں یا مہینوں میں یہ مسئلہ کچھ مدت کیلئے حل ہو سکتا ہے ۔ اگر بجلی کی چوری
لائن کے نقصانات اور انتظامی امور کو کنٹرول کر دیا جائے تو یہ معاملات سالوں کے
بجائے دنوں اور مہینوں میں ہی حل کیے جا سکتے ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ نواز شریف صاحب
ان مسائل کو دن رات محنت کر کے حل کر دیں تاکہ ارض پاکستان ایک دفعہ پھر روشن ہو
سکے ۔ نواز شریف صاحب کی انتخابی مہم کے گانے کے چند الفاظ بھی میاں صاحب کو یاد
کروانا چاہتا ہوں ۔
تم سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن
تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم
میاں صاحب ہر قدم پر کانٹا ہے ۔ اگر آگے نہ بڑھ سکتے تو آپ کی اپوزیشن میں عمران
خان اور شیخ رشید جیسے مقبول سیاستدان موجود ہیں جو کہ آپ کو کسی بھی وقت گھر جانے
کا مشورہ دے سکتے ہیں ۔اب لوڈشیڈنگ کے بعد غربت اور بے روزگاری کی بات کرتے ہیں ۔
خدا گواہ ہے کل رات بہت درد ناک منظر دیکھنے کو ملا شہر اقتدار کی سڑک کے کنارے رات
کی تاریکی میں آرام کرنے والے غریب اور مزدور کو کیا لگے کہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے
اس کو تو دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کیلئے ایک چھوٹا سا مکان چاہیے جو کہ وہ
صرف تمنا کر سکتا ہے خرید نہیں سکتا ۔درد ناک منظر دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ
یہ مسئلہ بھی لوڈشیڈنگ سے کم نہیں لیکن کافی حد تک لوڈشینڈنگ کا مسئلہ حل ہونے کی
وجہ سے غریب عوام کی مزدوری بھی بحال ہو گی ۔ کیونکہ آج کل تو تمام صنعتیں اور
کارخانے بند ہو رہے ہیں یا پھر بنگلہ دیش یا سری لنکا منتقل ہو رہے ہیں ۔ اس لئے
غربت بھی ارض پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے ۔ اس کے بعد اگر قومی اداروں کی
بات کروں تو وہ بھی آپ کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ پی آئی اے ، پاکستان
ریلوے ،اسٹیل میل ، واپڈا ، پی ٹی وی سمیت تمام بڑے قومی ادارے روزانہ کے حساب سے
اربوں روپے کا نقصان کر رہے ہیں ۔ شریف حکومت کیلئے ان اداروں کو منافع بخش اداروں
میں شامل کرنا ایک اور بہت بڑا چیلنج ہو گا ۔ کیونکہ خزانے کی صورتحال بھی کچھ اچھی
نہیں ہے ۔ 30 جون آئی ایم ایف کو قرضے کی قسط ادا کرنے کے بعد خزانے میں صرف 3 سے
3.5 ارب ڈالر کے ذخائر باقی رہ جائیں گے ۔ جو کہ انتہائی کم ذخائر ہیں اور کچھ
مہینوں میں ہی یہ ذخائر ختم ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ یہ بات بھی سنی جا رہی ہے کہ
سعودی ارب پاکستان کی 15 ارب ڈالر کا قرضہ دے گا ۔ لیکن ابھی تک اس حقیقت میں صداقت
نظر نہیں آتی ان حالات میں قومی اداروں کا ٹھیک ہونا تو دور پاکستان کی سالمیت بھی
خطرے میں پڑھ سکتی ہے ۔ ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ تو میرے خیال سے تمام ممالک سے
تعلقات سے ہے اور ہماری خارجہ پالیسی ہے ۔ ہم شروع دن سے ایک غلط خارجہ پالیسی کا
شکار ہیں ہم ایک طرف امریکہ اور یورپ کے اتحادی بن جاتے ہیں اور دوسری طرف ہم چائنہ
اور ایران سے بھی دوستی کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہم اس وقت 2 کشتیوں کے سوار ہیں
۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہماری کشتی کنارے لگنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ بلکہ ایک نہ
ختم ہونے والے طوفان میں گری ہوئی ہے ۔ اس لیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بھی آزاد
کرنا ہو گا اور یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم کس ملک سے کن بنیادوں پر تعلق رکھ رہے
ہیں اور ان تعلقات سے ملک کے مفاد میں کیا کام ہوں گے یہ تمام وہ بڑے مسائل ہیں جو
شریف حکومت کو اگلے پانچ سال میں درپیش ہیں ۔ اور ہماری خواہش ہے کہ نواز شریف ملک
کے حق میں بہتر فیصلے کر سکیں ۔ |