پاکستان میں حکومت کا انتخاب پانچ سال کیلیے کیا جا تا ہے۔ دوسر ی چیز وں
کی طرح پاکستان میں اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ حکومت پانچ سال کا عرصہ
پورا کرے اور ہر پانچ سال بعد پاکستان کے عوام کو انتخابی ہلہ گلہ دیکھنے
کو نصیب ہو۔ جمہوری عمل میں روکاوٹ پیدا ہو جائے تو سالہا سال یہ قوم
انتخابات کیلئے ترس جاتی ہے۔ اور اگراس میں روکاوٹ پیدا نہ ہو تو کچھ بعید
نہیں کہ دو سال بعد ہی انتخابا ت کا انعقاد ہو جائے۔ پاکستان میں انتخابات
کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ انتخاب جتنے زور و شور سے شروع ہوتے ہیں اس سے
زیادو زور و شور کیساتھ ان کا اختتام ہو تا ہے (دھاندلی کے الزام کیساتھ)۔
اب آپ تازہ انتخابات کو ہی لے لیجئے ۔ اننتخابات سے پہلے اور بعد میں
انتخابی ہلہ گلہ عروج پر رہا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں
دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے۔ پنجاب کی حد تک تو بظاہر انتخابات شفاف
نظر آئے۔ اندر کھاتے اگر کچھ ہوا تو اسکا مجھے علم نہیں لیکن کراچی کی حد
تک تو کھلم کھلا دھاندلی کے شواہد ملے جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان
نے کچھ حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروائے اور باقی حلقوں کو جوں کا توں رہنے
دیا ۔
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام کی مرضی سے کوئی کام نہیں ہوتا۔
اگر عوام کی مرضی چلنے لگ جائے تو بیچارے خواص کہاں جائیں گے۔جب عوام کی
مرضی سے کوئی کام نہیں ہوتا تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمران عوام کی مرضی
سے کیسے منتخب ہو کر آسکتے ہیں۔ لازمی امر ہے جب عوام کی مرضی کے لوگ آگے
نہیں ائیں گے تو نتیجہ تو صاف ظاہر ہے وہ عوام کو آگے ہی لگائیں گے۔ ایسا
نہیں ہے کہ پاکستان میں شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے۔ ہو سکتے ہیں جی بالکل
ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس شفاف انتخابات کروانے کی صلاحیت بھی ہے اور مزے
کی بات سسٹم (نظام) بھی موجود ہے۔اصل بات ہے سسٹم کو رائج (Implementation
( کرنے کی۔ اگر یہ نظام( تفصیل ٓخری پیرا گراف میں) رائج کر دیا جائے تو
کوئی سیاسی جماعت دھاندلی کا الزام نہیں لگا سکے گی۔ مگر بات پھر وہی ہے یہ
کام عوام کی مرضی سے تھوڑی ہونا ہے۔ جب خواص چاہیں گے تو ہو جائے گا۔ اور
نیا سسٹم تو وہی لیکر آئیں گے جو دھاندلی پر یقین نہ رکھتے ہوں۔
اب آپ لوگ ضرور سوچ رہ ہوں گے کہ یہ بندہ تو پانی سے چلائی جانے والی کار
سے بھی بڑے دعوے کر رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں انتخابات کروائے جائیں اور
وہ بھی شفاف دھاندلی کے شبے کے بغیر یہ تو پاکستان میں پانی سے چلائی جانے
والی کار کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ یہ کالم پڑھنا چھوڑیں ہم انتخابی
نظام کی طرف ٓاتے ہیں پھر شفاف انتخابی نظام کے بارے میں چند لائینیں ہی
کافی ہوں گی۔ موجودہ انتخابی عمل سے تو ہر پاکستانی جسکا شناختی کارڈبنا ہو
ا ہے واقف ہے۔ اس نظام میں الیکشن کمیشن بیلٹ پیپرز (وہ کاغذ جس پر سیاسی
نمائندگان کے انتخابی نشان بنے ہوتے ہیں) کے ذریعے انتخابات کرواتاہے۔ ایک
عام ووٹر جس نے ووٹ کاسٹ کرنا ہوتا ہے و ہ بیلٹ پیپر پر اپنی مرضی کے
نمائندے کو الاٹ شدہ نشان پر مہر لگا کر آجاتا ہے اور اسکا کام ختم۔ جب
ووٹرز اپنا کام ختم کر لیتے ہیں اصل کام تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ
ہے انتخابی عملے کا کام۔ اب انتخابی عملہ میں موجود لوگ مشینیں تو ہیں نہیں
لازمی بات ہے ان کا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے ہوتا ہے اور وہ اپنی پارٹی کو
جتوانے کیلئے ایٹرھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اب بیلٹ پیپر ز تو ان کے پاس
پہلے سے ہی ہوتے ہیں۔ اور اس کے بعد دوسر ا حربہ ہوتا ہے کہ اپنی پارٹی کے
نمائندے کے جتنے ممکن ہو سکے ووٹ بڑھا کے درج کئے جائیں ۔ اسی وجہ سے حالیہ
انتخابات میں دیکھنے کو ملا ہے کہ کچھ حلقوں میں ووٹرز کی تعداد کم اور
کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ویسے بھی سارا مینوئل کام ہوتا
ہے بہرحال گنتی میں غلطی ممکن ہے۔ ان سار ی کوتاہیوں کے باوجود مجھے سمجھ
نہیں آتی کہ موجودہ نظام(بیلٹ پیپرز)کے ذریعے انتخابات کیوں کروائے جاتے
ہیں۔ جبکہ ساری دنیا میں انتخابات کیلیے الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے
انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ جس میں ووٹر الیکٹرانک مشین پر اپنا ووٹ کاسٹ
کرتا ہے اور جب ووٹنگ مکمل ہوجاتی ہے تو ووٹ کی گنتی کرنے کے مرحلے سے نہیں
گزرنا پڑتا بلکہ یہ خود کار مشینیں ایک بٹن دبانے پر سارا نتیجہ بنا کر دے
دیتی ہیں۔ یہ سسٹم پاکستان کے پاس بھی موجود ہے ۔ اسی وجہ سے چیرمین نادرہ
نے کچھ دن پہلے یہ بیان دیا تھاکہ ان کے پاس ایسا سسٹم موجود ہے جسکی مدد
سے اوورسیز پاکستانی بھی ووٹ کا سٹ کرسکتے ہیں ۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کی
حکومت نے یا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے کہ حسب روایت انتخابی ہلہ
گلہ کرنا ہے یا پھر اپنے انتخابی نظام میں اصلاحات کرنی ہیں۔ |