گزشتہ دنوں پنجاب کے شہر گجرات
کے علاقے منگووال میں ایک انتہائی دردناک سانحہ پیش آیا،بچوں کی اسکول وین
میں آگ لگنے سے خاتون ٹیچر اور 16کمسن بچے زندہ جل گئے۔آگ گیس اور پیٹرول
لیکج کی وجہ سے بھڑکی۔ راستے میں گاڑی کی تاروں سے چنگاری نکلی تو گیس اور
پیٹرول نے آگ کو فوراً پکڑا تو آگ بھڑک اٹھی جس نے پوری وین کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا۔جس کے نتیجے میں ہنستے کھیلتے بچے چند لمحوں میں موت کی وادی
میں جا سوئے۔اس حادثہ میںجاںبحق ہونے والے تمام بچوں کی عمریں آٹھ سے چودہ
سال کے درمیان تھیں۔ اس المناک حادثہ سے پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ صدر
زرداری، وزیراعظم ہزار کھوسو، الطاف حسین، نواز شریف، شہباز شریف، عمران
خان اور متعدد رہنماﺅں نے اس سانحہ پرافسوس کا اظہار کیا ۔چیف جسٹس افتخار
محمد چودھری نے اس سانحہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ یہ حادثہ قتل نہیں
بلکہ قتل عام ہوا ہے۔دولت کی حوس میں مبتلا ٹرانسپورٹر بھی اس جرم میں شرک
ہیں۔
ملک خداداد پاکستان میں ہر ذی شعور انسان کو غمگین کردینے والا یہ کوئی
پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ آئے روز پیش آنے والے اس قسم کے دلخراش واقعات کی
ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ اس قسم کے واقعات اکثر قانون کی کمزوری اور
انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ حکومت وقتی طور پر اظہار افسوس
اور چند بیانات دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔ایسے واقعات کی روک
تھام کے لیے کوئی ضابطہ و قانون نہیں بنایا جاتا، اگر کوئی قانون بنتا بھی
ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا۔اگرچہ اس سانحہ میں ڈرائیور کی کافی حد تک
کوتاہی پائی گئی لیکن حقیقت میں یہ سانحہ گیس سلنڈر اور پیٹرول کی لیکج سے
رونما ہوا،اگر حکومت کی جانب سے گاڑیوں کے لیے کوئی ضابطہ طے کیا جاتا تو
نہ صرف اس سانحہ سے بچنا ممکن تھا بلکہ اس قسم کے روز پیش آنے والے تمام
سانحات سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سانحات کو فراموش
کر دیا جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔متعلقہ حکومتی
ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ محسوس
کرتے ہیں ۔
پاکستان میں وہاڑی، حیدرآباد، ٹیکسلا، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور
کراچی سمیت کئی شہروں میں گاڑیوں میں نصب ناقص سلنڈر پھٹنے کے100 سے زائد
واقعات میں سینکڑوں افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود
متعلقہ اداروں نے آج تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جس کے ذریعے غیر
معیاری گیس سلنڈر کی روک تھام کی جاسکے۔ پاکستان میں تیس لاکھ گاڑیاں اس
وقت سی این جی پر چل رہی ہیں۔ جن میں ناقص اور غیر معیاری سی این جی سلنڈر
استعمال کرنے والی گاڑیوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔جن کی وجہ سے روز
ہی کسی جان لیوا واقعہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ذرائع ابلاغ گاڑیوں میں نصب
گیس سلنڈر کے پھٹنے کے واقعات بیان تو کرتے ہیں لیکن اس کوتاہی کے تدارک کے
لیے لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا۔ ایسے واقعات کو ایک بار پیش کرنے کے
بعدازاں ان کی خبرگیری نہیں کی جاتی کہ ایسے واقعات کے بارے میں متعلقہ
حکومتی اداروں نے کہاں تک تحقیقات کیں؟۔ اگر تحقیقات ہوئیں تو ان میں ملزم
کسے نامزد کیا گیا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات
تجویز کیے گئے ہیں۔
اگر حکومتی سطح پر تحقیقات سے یہ ثابت ہو جائے کہ سلنڈر کے ناقص ہونے یا
تنصیب کے عمل میں خامیوں کی وجہ سے حادثہ پیش آیا تو متعلقہ فرد یا ادارہ
کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان میں سزا کا ایسا نظام
رائج ہوجائے، جس میں صارفین کی جان و مال سے کھیلنے والوں کا کڑا احتساب
ممکن ہو تو حادثات کی شرح خودبخود کم ہو جائے گی۔ ملک کی سول سوسائٹی کے
گروہ اور ایسی تنظیمیں جو صارفین کے حقوق کے لیے آوازیں اٹھاتی ہیں گیس
سلنڈر کے پھٹنے اور ناقص گیس سلنڈر کی خرید و فروخت پر نجانے کیوں دم سادھے
بیٹھی ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آمدورفت کے ذرائع کو سی این جی سے چلانے والا
سازوسامان اس حد تک ناقص ہے کہ اس کا استعمال موت کو بلانے کے مترادف ہے
لیکن ان کی خرید و فروخت میں کمی نہیں آ رہی اور نہ ہی اس سلسلے میں عوام
(صارفین) کی رہنمائی کرنے کا کوئی نظام موجود ہے۔
ناجائز منافع کے جنون میں مبتلا ٹرانسپورٹرز نے مسافر بسوں اور ویگنوں میں
معیاری سی این جی سلنڈر کی بجائے انتہائی ناقص اور غیر معیاری سلنڈرز نصب
کیے ہوئے ہیں یا پھر پرانے سلنڈرز جو اپنی زندگی پوری کرچکے ہیں انہیں
لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ اس صف میں بہت
سے ٹرانسپورٹرایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں میں سی این جی سلنڈرز کی
بجائے آکسیجن سلنڈر فٹ کروا رکھے ہیں۔اس وقت بہت سے گاڑیوں میں سی این جی
کی بجائے ایک پی جی کے سلنڈر استعمال ہو رہے ہیں جو سی این جی سلنڈر کے
مقابلے میں پانچ گنا کم طاقت رکھتے ہیں۔یہ ناقص کوالٹی کے ایل پی جی سلنڈر
حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔گیس سلنڈر اگر معیاری ہوں بھی تو ان کو گاڑیوں
میں نصب کرنے کے طریقہ کار میں خامیوں کی وجہ سے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔
کیا کوئی حکومتی محکمہ ایسا بھی ہے جو گیس سلنڈروں کی گاڑیوں میں تنصیب کے
عمل کی نگرانی کر رہا ہو؟ عام صارف تک گاڑی میں گیس سلنڈر کی تنصیب کے صحیح
اور محفوظ طریقہ کارکی معلومات پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے؟ گیس کٹس کی
تنصیب اور سلنڈروں کی مقررہ معیار پر جانچ پڑتال کے مراحل کی نگرانی یقیناً
حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے جس کا دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں
دیتا۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بغیر کسی روک ٹوک کے دنیا کے کسی بھی
علاقے سے، کسی بھی طرح کا سلنڈر منگوا کر، کسی بھی شخص سے اپنی گاڑی میں
لگوایا جا سکتا ہے۔ ’سی این جی کٹس‘ جن موٹر ساز اداروں سے لگ کر آتی ہیں،
ان کے معیار اور تنصیب کے عمل کی جانچ کرنا فوری طور پر رائج ہونا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق گاڑیوں میں لگائے جانے والے گیس سلنڈرز کی ہر سال یا دو
سال میں کم از کم ایک مرتبہ جانچ پڑتال ضرور ہونی چاہیے۔ کوئی بھی ایسا
صارف جو اپنی گاڑی میں سی این جی استعمال کرتا ہے اور سی این جی کٹ کی جانچ
کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ،درحقیقت وہ اپنی اور دوسروں کی جان سے کھیل رہا
ہوتا ہے ۔ویگنوں، منی بسوں کی سیٹوں اور چھتوں پر گیس سلنڈر کی تنصیب
قانوناً ممنوع ہے لیکن ویگنوں میں ایک کی بجائے تین تین سلنڈرز رکھے ہوتے
ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارے ہاں گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن جمع
کیے جاتے ہیں۔ ایسی سی این جی گاڑیوں کو اس وقت تک ٹوکن جاری نہ کیے جائیں
جب تک ان کے پاس سی این جی کٹس کی فٹنس کی سند (سرٹیفکیٹ) موجود نہ ہو۔ اس
سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے
ہوئے ایسی قانون سازی کریں جس سے ’وی ہیکل سیفٹی‘ کے قواعد کا دائرہ
پھیلایا جا سکے اور گاڑیوں کی سی این جی کٹس کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔ اس
کاروبار کے لیے حکومت کو لائسنس جاری کرنے چاہییں اور سلنڈرز پر سیکورٹی
والو کا لگایا جانا ضروری قرار دیا جانا چاہیے تاکہ گیس لیک نہ ہو۔نجی
گاڑیوں سے مسافر بسوں (پبلک ٹرانسپورٹ) میں لگی سی این جی کٹس کی جانچ
پڑتال کی ضرورت کل سے زیادہ آج محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں عدالت نے
ازخود نوٹس لے کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کیونکہ گیس سلنڈروں کے پھٹنے سے
جانی و مالی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے اور غفلت کے مرتکب افراد یا ادارے ان
واقعات کی ذمہ داری لینے کو تیار و آمادہ نہیں ہیں۔ |