عراق اور کابل پر انسانیت سوز جنگیں مسلط کرکے لاکھوں بے خانماں و بے سائباں
مسلمانوں کو موت کی نیند سلانے اور دونوں ممالک کی ہنستی بنستی زندگی کو اجاڑنے
والے یہود و ہنود کی فتنہ گریوں کے کارن شام میں خانہ جنگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
خانہ جنگی کو 2 سالہ عرصہ بیت چکا اور خونی راونڈ تیسرے سال میں داخل ہوگیا۔2011
میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں نے اب مسلح جنگ کی شکل
اختیار کرلی ہے ۔ دو سالوں میں طرفین کے ستر ہزار شامی ہلاک ہوچکے۔ دکھ تو یہ ہے کہ
کوئی اس تنازعے کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ علاقائی ریاستیں اپنے اپنے
پہلوانوں کو مضبوط بنانے میں غلطاں ہیں۔نیٹو اور امریکن تھنک ٹینکس تنازعے کو
برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ انکی مداخلت کے بغیر تنازعہ کسی منطقی انجام تک پہنچ
جائے۔ امت مسلمہ کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی مایوس کن ہے۔ عرب لیگ ہویا خلیج
تعاون کونسل او ائی اسی ہو یا خانہ کعبہ کے سجادہ نشین زبانی جمع خرچ کے علاوہ
معاملے کو حل کرنے میں کوئی خاطر خواہ رول انجام نہ دے پائی۔مسلم حکمرانوں کے پاس
نہ تو عزم ہے اور نہ ہی کوئی میکنزم اور صلاحیت و احساس زیاں جو شام ایسے پیچیدہ
بحرانوں کو قابو کرنے کے لئے لازم ہوا کرتا ہے۔ شام میں جاری جنگی بحران نے ایک
ازیت ناک المیئے کو جنم دیا ہے جو مہاجرین کی روز افزوں تعداد ہے۔ دو سال پہلے
مہاجرین ہزاروں میں تھے جنکی تعداد اب 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ مہاجرین کی حالت زار
پر روح کانپ اٹھتیءہے۔انکی کیفیت کا یہ عالم ہے کہ جہاں سینگ سمائیں وہاں پناہ حاصل
کرلی جائے تاکہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ شام کا اندرونی خلفشار خطے کی
سیاست معیشت پر کس انداز میں اثر انداز ہوگا اسکی تہہ تک جانے کے لئے ہمیں شام کے
نقشے کی عرق ریزی کرنی ہوگی۔ شام کی ابادی چھ کروڑ ہے۔ شام لینڈ لاک ملک ہے یعنی
اسکے چاروں اطراف میں سمندر نہیں ہے۔ شام کی سرحدیں ایک طرف ایران و عراق سے ملتی
ہیں تو دوسری طرف لبنان اور اردن سے۔شامی سرحد کا ایک کنارہ ترکی سے ملتا ہے تو
دوسرا اسرائیل سے۔ اسرائیل اور شام کے مابین گولان کی پہاڑیوں والہ قضیہ طویل عرصہ
سے مخاصمت کا زریعہ بنا ہوا ہے۔ اسرائیل نے عرب اسرائیل جنگ میں گولان کی پہاڑیوں
پر قبضہ دراز کرلیا تھا۔ uno کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہاجرین کی
تعداد 12 لاکھ کو تجاوز کرچکی ہے۔ شام کے ارد گرد جتنے ہمسائیہ ملک ہیں جن میں ترکی
اردن عراق لبنان مصر الجزائر ارمینیا شامل ہیں میں شامی مہاجرین پناہ گزین ہوچکے
ہیں۔ شامی مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد ترکی میں گوشہ عافیت سمجھے ہوئے ہے۔ خوراک
اور ادویات کو مہاجرین تک پہنچانا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ شامی مہاجرین
مختلف ریاستوں میں منقسم ہیں۔ عراق خود شورش زدہ ملک ہے وہاں ایک لاکھ شامی مہاجرین
مقیم ہیں۔پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جسے مہاجرین کی ابادکاری کا خوب
تجربہ ہے۔ پہلی افغان جنگ میں 70 لاکھ مجاہدین پاکستان ائے پاکستان کی کوئی گلی
محلہ قریہ کونہ مہاجرین کی پہنچ سے نہ بچ سکا۔17 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے
واپس جانے کو تیار نہیں۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں ایسے ایسے گل کھلائے کہ خدا
کی پناہ۔پاکستان میں منشیات ہیروئن کلچر اور اسلحہ کی بھرمار مہمانوں کے تحائف ہیں
جنہوں نے ریاست کے انتظامی سیاسی تہذیبی اور معاشرتی کے ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
شامی مہاجرین چونکہ ہمسائیہ ملکوں میں پناہ گزین ہے۔ اسی لئے مہاجرین کی مستند
تعداد کے متعلق رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ سرحدپار مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ
چودہ لاکھ ترکی میں پناہ لئے ہوئے ہے۔اگر ترکی اور شام کی سرحدات پر نظر دوڑائی
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مہاجرین کے سب سے زیادہ کیمپ ترک کرد سرحد پر موجودہ ہیں۔
ترکی بشارالاسد حکومت کے خلاف لرزہ براندام لبریشن فرنٹ اور باغیوں کی معاونت کررہا
ہے۔ شامی لبریشن ارمی کا ہیڈ کوارٹر استنبول میں ہے۔ ترکی چونکہ شام کی شورش میں
خود فریق ہے۔اگر خانہ جنگی کا جلد خاتمہ نہ ہوا تب یہ مہاجرین ترکی میں افغان
مہاجرین کی یاد تازہ کرسکتے ہیں؟ ترکی کے بعد شامی مہاجرین کا دوسرا پڑاو اردن میں
ہے جہاں 4 لاکھ مہاجرین پناہ گزین ہوچکے ہیں۔2013 میں اردن میں مہاجرین کا کھاتہ 14
14لاکھ تک پہنچ جائیگا کیونکہ اردن وہ ملک ہے جہاں 15 ہزار شامی یومیہ پہنچ رہے
ہیں۔لبنان اور اردن میں شامی اور فلسطینی مہاجرین کو الگ الگ رکھنا مسئلہ بن چکا ہے۔
اردن کی کل ابادی کا 5 واں حصہ مہاجرین پر مشتعمل ہے۔ امت مسلمہ کو شام کی خانہ
جنگی کو روکنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے۔ کیا مسلم بادشاہ198 0 میں لبنان
میں ہونے والی دردناک خانہ جنگی کی غم ناکیوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ بیروت کھنڈرات
کا ڈھیر اور خون کا دریا بن چکا تھا۔ مسلمانوں نے یہود و ہنود کی ریشہ دوانیوں سے
دوسرے مسلمان بھائیوں کا سر قلم کس طرح کیا تھا؟ صابرہ اور شیتلہ کے مہاجر کیمپوں
میں دلدوز سانحات کس طرح المیہ افسانوں درد انگیز مرثیوں کا کس طرح حصہ بنے تھے؟ یہ
امت مسلمہ کی سیاہ تاریخ کا سیاہ باب ہے جو انکھوں کو برکھا رت پر مجبور کردیتا ہے۔
اردن صحرائی ملک ہے جہاں پانی کی کمی ہے۔یواین او کی خاتون سفارت کار کیتھرین کہتی
ہیں کہ اردن میں شامی مہاجرین کو خوراک اور پانی مہیا کرنا ہمارے لئے مشکل ہوچکا ہے۔
اردن میں مہاجر بچوں کی تعدادڈیڈھ لاکھ ہے جنہیں دودھ مہیا کرنا ناممکن ہے۔اردن کی
معیشت پہلے ہی ڈانواڈول ہے جو امریکہ اور خلیجی ممالک کی خیرات سے سانس لیتی
ہے۔لبنان مہاجرین کے ضمن میں زخم خوردہ ہے۔لبنان کی کل ابادی41 لاکھ نفوس پر مشتعمل
ہے جبکہ شامی مہاجرین کی تعداد 5 لاکھ ہے۔شام کی خانہ جنگی 70 لاکھ انسانوں کو ہڑپ
کرچکی ہے۔ شامی مہاجرین کی تعداد 25لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دمشق کی خانہ جنگی نے
دیس دیس میں خاک چھاننے والے25 لاکھ شامی مہاجرین نے دور حاظر کے سب سے بڑے المیے
کو جنم دیا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ صدربشارالاسد پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں
جبکہ لبریشن فرنٹ کے قائد معاز الخطیب اعتدال پسند شخصیت ہیں۔ اتنے بڑے المئیے کے
باوجود مسلم حکمران کومے میں ہیں۔برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر تو شائیں شائیں
کا بازار سجادیا جاتا ہے مگر شام میں ہونے والی سفاکی پر عالم اسلام کے رھبروں نے
لب سی رکھے ہیں۔ امت مسلمہ کے لئے شام جغرافیائی حثیت سے اہم ترین ملک ہے۔ شام اور
ایران کی بقا امت مسلمہ کے وجود کے لئے ناگزیر ہے۔ شام اور ایران کی موجودگی میں
گریٹر اسرائیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ماضی میں جب تک مسلمان اللہ
کی رسی کو تھام کر ایک جان بنے رہے تب تک گوروں اسلام دشمنوں اوریہود و ہنود کو منہ
کی کھانی پڑی۔ یہود و ہنود نے امت مسلمہ کو چت کرنے کی خاطر فرقہ واریت مذہبی
جنونیت لسانیت اور گروہی تقسیم کا نسخہ کیمیا ایجاد کیا۔ فرقہ واریت انتہاپسندی اور
اسلامی مسالک کی گروہ بندی نے امت مسلمہ کو جذبہ جہاد اتحاد و اتفاق تعلیمات اسلام
کی سرفروشی سے محروم کردیا۔ شامی مہاجرین کو ازیتوں سے نکالنے اور دوبارہ اپنی
چھتوں تلے پناہ گزین بنانے کی خاطر اوائی سی عرب لیگ خلیجی ریاستوں اور ترکی کے
وزیراعظم طیب ارد گان کو فوری طور پر شام میں جاری مسلمان فرقوں کے مابین قتل و
غارت کو روکنے کی خاطر پہلے فریقین کو عارضی جنگ بندی پر راضی کرنا چاہیے۔ ترکی کو
بشارالاسد کے خلاف فریق بننے کی بجائے عالمی سامراجی طاقتوں کے گھناوئنے عزائم کی
روشنی میں دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں
کہ طیب اردگان امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ طیب
اردگان کو گریٹر اسرائیل کے خونی اور جوہری منصوبے کو چکنا چور کرنے شام میں
مسلمانوں کے ہاتھوں دوسرے مسلمانوں کی بہائی جانیوالی خون کی ہولیوں کو روکنے اور
مہاجرین کی باعزت بحالی کے لئے وسیع القلبی اور صبر و تحمل سے فوری اقدامات کرنے
چاہیں ورنہ اسرائیل اور امریکن فورسز کسی روز امن و امان کے قیام اور شرف انسانیت
کی شعبدہ بازیوں میں شام پر فوجی تسلط قائم کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگا۔ |