یہ وزراء کیا کارکردگی دکھائیں گے؟

کسی بھی ملک اور حکومت کو چلانے کے لئے وہاں کے حکمران اپنی مدد، تعاون اور مشاورت کے لئے وزیروں اور مشیروں کا تعین کرتے ہیں۔ وزراء اور مشیران کو ان کے محکمے دینے کے لئے یہ امر سامنے رکھا جاتا ہے کہ جس شخص کا بطور وزیر یا مشیر یا کسی بھی محکمے کا سربراہ تقرر کیا جا رہا ہے کیا وہ اس محکمے کا ایکسپرٹ ہے؟ کیا جو کام اس کے سپرد کیا جا رہا ہے، وہ اس کا اہل بھی ہے؟ امریکہ، برطانیہ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا ریکارڈ دیکھ لیں آپ کو متعلقہ وزارت میں اہل شخصیات ملیں گی کیونکہ اگر وہ وزیر یا مشیر چاہے جتنا عقل مند، ذی شعور، دانشور اور سمجھدار کیوں نہ ہو اگر اس کو متعلقہ محکمہ کا کماحقہ علم نہ ہو، اپنی فیلڈ کا ایکسپرٹ نہ ہو تو وہ نہ تو قوم کی امیدوں پر پورا اتر سکتا ہے، نہ اپنی جاب کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے اور نہ ہی اس حکمران کو کوئی مدد، تعاون اور مشورہ دے سکتا ہے۔ گزشتہ روز ویب سرفنگ کے دوران اتفاقاً حکومت پاکستان کی ویب سائٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا، ویسے تو ہمیں وزراء اور مشیران کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے (جیسا کہ پوری قوم کا بھی یہی حال ہے) لیکن اتفاقاً جب حکومت پاکستان کی ویب سائٹ دیکھی اور شروع کے چند وزراء کی تعلیمی اور تکنیکی اہلیت دیکھی تو صحیح سمجھ آئی کہ ہماری حکومتوں کا ماضی اور حال اتنا ”تابناک“ کیوں ہے۔ ہم یہاں صرف تین حکومتی وزراء کی اہلیت، تعلیمی استعداد اور ان کو ملنے والے محکموں کو دیکھتے ہیں۔

ضلع مظفر گڑھ کی ایک تحصیل جتوئی ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے عبدالقیوم خان جتوئی 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے، وہ 13 نومبر 1960 میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1988 میں پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ زمیندار اور بزنس مین ہیں۔ قبل ازیں وہ 1990 سے 1993 تک اور 1993 سے 1996 تک ایم این اے رہ چکے ہیں۔ جتوئی صاحب کے مشاغل مطالعہ، بیڈمنٹن اور ٹینس ہیں، پہلی بار وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بطور وفاقی وزیر ان کا محکمہ دفاعی پیداوار ہے ! اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ایک زمیندار اور کاروباری شخص کو دفاعی پیداوار کا کتنا علم ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسیات میں ایم اے کرنا سب سے آسان ہے، اور بی اے کرنے والا ہر تیسرا شخص خلاصوں اور گائیڈوں سے استفادہ کر کے سیاسیات میں ایم اے کر رہا ہے، اس لئے سیاسیات میں ایم اے کو کوئی خاص حیثیت نہیں دی جاتی۔ بہرحال جتوئی صاحب ماسٹر ڈگری ہولڈر تو ہیں لیکن کیا ان میں دفاعی پیداوار کی کوئی سوجھ بوجھ ہے؟ کیا وہ اپنے محکمہ کے حوالے سے کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ دفاعی پیداوار کی وزارت کو احسن طریقہ سے پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے چلا سکتے ہیں؟ کیا وہ دفاعی پیداوار کے شعبہ میں اتنی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں کہ اگر کوئی بیوروکریٹ ان سے غلط بیانی کرے تو اس کو ہی پکڑ سکیں؟ کیا وہ قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کو اپنی وزارت سے متعلق کوئی بہتر مشورہ دے سکتے ہیں؟ تمام سوالات کے جوابات منطقی طور پر نفی میں ہیں، تو پھر پاکستان کی دفاعی پیداواری صلاحیت اور استعداد کار کیسے بڑھائی جاسکتی ہے، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے!

دوسرے وزیر جن کے بارے میں ہم آج بات کر رہے ہیں وہ ہیں میر ہزار خان بجارانی۔ بجارانی صاحب 23 اکتوبر 1946 کو جیکب آباد سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ بڑے مشہور و معروف اور سکہ بند لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سینئر پارلیمینٹیرین بھی ہیں۔ بجارانی صاحب مختلف شعبوں کے وزیر رہ چکے ہیں جن میں وزارت دفاع، صحت، خصوصی تعلیم، سوشل ویلفیئر، ہاﺅسنگ اینڈ ورکس، سائنس و ٹیکنالوجی، مذہبی و اقلیتی امور شامل ہیں۔ بجارانی صاحب پیشے کے اعتبار سے وکیل اور زمیندار ہیں۔ ان کے مشاغل میں شکار، شاعری پڑھنا اور میوزک سننا شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس مرتبہ ان کو وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ہے یعنی وزیر تعلیم مقرر کرنے سے پہلے ان کے سابقہ تجربات بھی نہیں دیکھے گئے کہ وہ کن کن شعبوں کے وزیر رہ چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بجارانی صاحب کو کوئی ایسی وزارت دی جاتی جس کا انہیں سابقہ ادوار میں تجربہ ہوچکا تھا، لیکن ان کو میری نظر میں سب سے اہم وزارت دی گئی ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان کی تعلیمی پالیسی صحیح سمت میں رواں دواں ہوجائے تو پاکستان پڑھے لکھے کلرکوں کی بجائے ہنرمند افراد پیدا کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری، غیر سرکاری اور مذہبی تعلیم بالکل مختلف اندازفکر اور زاویہ نظر سے بہم پہنچائی جا رہی ہے۔ غیر سرکاری اینگلو امریکن سکولوں اور درسگاہوں میں ہم انگریز پیدا کررہے ہیں جن کو مذہب کی نہ تو تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ان کا کوئی تعلق مذہب کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ سرکاری سکولوں و درسگاہوں میں ملا جلا رجحان ہے، لیکن وہاں کے اساتذہ کا زیادہ زور ٹیوشن کے لئے شاگرد پیدا کرنے پر صرف ہوتا ہے اور ان کا سارا دھیان وہاں رہتا ہے جبکہ دینی درسگاہوں میں اپنے اپنے مکتبہ فکر کے مطابق دینی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن عصر حاضر کی کوئی تعلیم گناہ سمجھی جاتی ہے۔ البتہ کچھ غیر سرکاری ادارے ایسے ضرور ہیں جو میانہ روی کے ساتھ بچوں کو مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے زیور سے بہرہ مند کر رہے ہیں۔ اب بھلا کوئی پوچھے کہ میر ہزار خان بجارانی کو تعلیم کے شعبہ سے کتنی وابستگی ہے، جو شخصیات اپنے علاقوں میں سکول تک کھولنے کی اجازت نہ دیں، جن کو یہ خوف دامن گیر ہو کہ اگر ان کے علاقے کے ہاری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئے تو مستقبل میں ان کی اور ان کی اولاد کی ”گدیوں“ کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں وہ قومی سطح پر کیا تعلیمی پالیسی مرتب کرسکتے ہیں؟ کیا کوئی ماہر تعلیم پورے پاکستان میں موجود نہیں جو تعلیم کی وزارت کے لئے موزوں ہو؟ کیا اتنی اہم وزارت بھی ایسے لوگوں کے سپرد کی جانی چاہئے جن کا کوئی سابقہ تجربہ اس وزارت میں نہ ہو؟

تیسرے صاحب ارباب عالمگیر خان ہیں جو یکم جولائی 1961 کو پشاور میں پیدا ہوئے، انہوں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور سے 1987 میں MBBS کیا اور بعدازاں انہوں نے برطانیہ سے ”انٹرنل میڈیسن“ میں ڈپلومہ بھی کررکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق سرحد کے معروف ارباب خاندان سے ہے۔ وہ نوابزادہ ارباب شیر علی خان کے پوتے اور سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب محمد جہانگیر خان کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ پہلے بھی وزیر رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو مواصلات کی وزارت عطا کی گئی ہے۔ مواصلات اور میڈیکل کا آپس میں کیا تعلق ہے، کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ یقیناً ڈاکٹر صاحب کا خاندان بہت بڑا سیاسی خاندان ہے، ان کے والد وزیر اعلیٰ اور خاندان کے دیگر افراد مرکزی و صوبائی وزراءاور مئیر کی کرسی پر براجمان رہے ہیں، لیکن کیا ڈاکٹر صاحب کو ان کے متعلقہ شعبہ صحت و غیرہ میں ایڈجست نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کیا ان سے کوئی ایسا کام نہیں لیا جاسکتا تھا جس کی ان میں کماحقہ اہلیت پائی جاتی ہے؟

اگر ہم باقی وزراء کے ناموں، ان کی تعلیمی ستعداد، اہلیت اور ان کی وزارتوں پر نظر دوڑائیں تو تقریباً ایسا ہی نظر آتا ہے کہ تعلیم اور اہلیت کے مطابق کوئی بھی وزیر مقرر نہیں کیا گیا۔ کابینہ کو دیکھ کر ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا صرف وزارت کا حصول ہی منزل مراد ہوتی ہے؟ کیا وزارت سے متعلقہ مراعات عین عبادت ہیں؟آخر کب تک بیوروکریسی راج کرتی رہے گی کیونکہ وزراء کو تو اپنی وزارت کی الف بے کا بھی پتہ نہیں ہوتا، وہ تو ہر کام کے لئے سیکرٹری، انڈر سیکرٹری اور سیکشن آفیسر کے مرہون منت ہوتے ہیں، اگر ایمانداری سے، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کچھ کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرپاتے، اور جہاں ”چاہتیں“ کچھ اور ہوں، ”اہلیت“ کسی اور کام کی ہو اور وزارت کوئی اور مل جائے وہاں تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہی ہوگی، کیا کسی بھی سیاسی پارٹی میں اتنا سا وژن بھی نہیں کہ کسی شخص کو وزارت دینے سے پہلے اس کی اہلیت دیکھ لی جائے، اس کی قابلیت دیکھ لی جائے، کوئی تحقیق کر لی جائے کہ موصوف کو جو وزارت دی جارہی ہے اس کا تھوڑا بہت تجربہ بھی ہے یا نہیں، آخر کب تک وزارتوں کی ”لیڈر“ بانٹ ہوتی رہے گی؟ آخر کب ہمارے سیاسی ”رہنماﺅں“ کو سمجھ آئے گی؟ خدارا کوئی کچھ تو بتلائے، آخر وزیر اعظم ہو، صدر ہو، وزیر ہو یا اپوزیشن رہنما، سب کو اللہ کے پاس بھی تو جانا ہے، وہاں کچھ جواب بھی تو دینا پڑے گا....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 210680 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.