آج کل ہر جگہ اسلام پسندوں کو
اور مدرسوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔ اہل مدرسہ کو قدامت پرست، ترقی کا دشمن،
ظالم اور سب سے بڑھ کر حقوق نسواں کا مخالف کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے عالمی
اور مغربی میڈیا اس قدر فعال ہے کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں مظفر گڑھ
میں گاؤں کے جاہل پنچایتی جو کہ اپنی قبائلی رسم رواج کے پابند تھے انہوں
نے جب ایک مظلوم عورت کو ایک غیر اسلامی اور غیر انسانی سزا سنائی تو اگرچہ
اس واقعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن تمام نام نہاد انسانی حقوق
کے دعوے داروں نے اس واقعے کی آڑ میں اسلام پر خوب حملے کیے۔ سوات میں ایک
لڑکی کو مبینہ طور پر کوڑے مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو اس وقت بھی
یہی صورتحال سامنے آئی اور ایسا یہ رد عمل کیا گیا اور اس کی آڑ میں ایک
بار پھر اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنایا گیا، ۔طالبان کی مذمت میں گزشتہ
دنوں ٹی وی اداکاراؤں نے کراچی پریس کلب پر ایک مظاہرہ بھی کیا، یہاں تک کہ
ہیلری کلنٹن صاحبہ نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کرنا ضروری سمجھا اہل مغرب
مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بولنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے لیکن خود ان
کا اپنا کیا حال ہے اس پر بھی نظر ڈالنی چاہیے اور پوری دنیا میں انسانی
حقوق کے تحفظ کے چیمپنیز کی اپنی ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے ان کو اس کی بھی
فکر کرنی چایئے اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ مقامی حامیوں کو بھی ذرا اس
کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آئر لینڈ میں نو سال کی طویل تحقیق
اور تفتیش کے بعد ایک چھبییس سو صفحات کی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کیا
ہے بلکہ اہل مغرب کی سیاہ کاریوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی ایک دستاویز اور اس
سسٹم کے خلاف ایک وائٹ پیپر پے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئر لینڈ کے رومن
کیتھولک اداروں میں کئی دہائیوں سے ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں پادریوں اور
رہباؤں کے ہاتھوں بےرحمانہ جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔
رہورٹ میں چرچ کے زیر اہتمام ڈھائی سو سے زائد گھریلو اداروں اور اسکولوں
کے سابقہ طلبہ و طالبات کے بیانات شامل ہیں جس میں انہوں نے اپنے ساتھ
پادریوں اور راہباؤں کے وحشیانہ سلوک کے بارے میں بتایا ہے۔ ان بیانات سے
یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ رومن کیتھولک فرقے کی مذہبی شخصیت کئی دہائیوں
سے طلبہ اور طالبات کا مسلسل جسمانی اور جنسی استحصال کرتے رہے ہیں- جبکہ
دوسری جانب سرکاری معائنہ کار متاثرہ لڑکیوں اور لڑکوں کو پادریوں کے
ہاتھوں جسمانی تشدد، زنا بالجبر، اور تذلیل سے بچانے میں ناکام رہے ہیں،
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکام نہ صرف مذہبی اداروں میں پادریوں اور
رہباؤں کے کرتوتوں سے واقف تھے بلکہ انہوں نے ان کے خلاف کوئی انضباطی
کاروائی نہیں کی، بلکہ ان کے جرائم کو دانستہ طور پر اس لیے پوشیدہ رکھا کہ
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے سے خود کلیسا کی بدنامی ہونے والی تھی۔
تفتیش کاروں کے مطابق رومن کیتھولک شخصیات کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے
مرد و خواتین کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کی عمریں اب پچاس سے اسی سال کے
درمیان ہیں اور وہ تاحال اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے نفسیاتی دباؤ سے نہیں
نکل سکے ہیں۔ رپورٹ ک مطابق تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کیتھولک
چرچ سسٹم ایک عقوبت گاہ کی طرح کام کرتا رہا ہے جس میں بچوں کے ساتھ انسان
کے بجائے جیل کے قیدیوں اور غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے
منظر عام پر آنے کے بعد آئر لینڈ کے چالیس لاکھ رومن کیتھولک کے پیشوا شون
بریڈی اور اس اسکینڈل کے مرکزی کرداروں نے فوری طور پر معافی طلب کی ہے،
پادری بریڈی نے کہا کہ وہ چرچ کے اداروں میں بچوں کے ساتھ ہونے والے غیر
انسانی، غیر مذہبی اور غیر اخلاقی سلوک پر وہ انتہائی شرم سار اور معذرت
خواہ ہیں۔
اسلام کو بدنام کرنے والے مغرب کا اپنا چہرہ کتنا مکروہ ہے لیکن اس نے بڑی
کامیابی سے اپنے اس چہرے کو چھپا رکھا ہے اور اس نے ساری دنیا میں اسلام کے
خلاف پروپگینڈہ کیا ہوا ہے تاکہ کوئی اس کا یہ مکروہ چہرہ نہ دیکھ سکے۔
میرے مغرب زدہ بہن بھائی اس رپورٹ کو سامنے رکھیں اور یہ بات سمجھ لیں کہ
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی آڑ میں اصل نشانہ صرف اسلام ہے۔ اس کو
سمجھیں اور نادانستگی میں ان کے آلہ کار نہ بنیں اور یہ بھی دیکھیں کہ اگر
واقعی یہ لوگ انسانی حقوق کے علمبرادر ہوتے تو جس طرح افغانستان پر فوج کشی
کی گئی اور اب پاکستان پر ڈرون اور میزائل حملے کیے جا رہے ہیں کیا اس کا
عشر عشیر بھی ان پادریوں خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا۔ جواب ہے کہ نہیں
ایسا نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ ڈھکوسلہ ہے۔
حقوق نسواں کا دعویٰ صرف باحیا مسلمان خواتین کو بے راہ رو کرنے کی سازش ہے۔
اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ |