اَن دیکھی خلعتِ فاخرہ

یک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اپنی موٹی عقل کے حوالے سے بہت مشہور تھا اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ملک کے دو نوسر بازاور عیار شخص درزیوں کے روپ میں دربار میں حاضر ہوئے اور بادشاہ کی خوشامد کرنے کے بعد بادشاہ کو بتایا کہ ایسا لباس تیار کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو کہ صرف عقلمندوں کو دکھائی دے گا جبکہ بےوقوف اس کو نہ دیکھ سکیں گے اس نئے آئیڈے پر بادشاہ نے انہیں وہ لباس تیار کرنے کا حکم دے دیا ان کے لئے ایک کمرہ مختص کردیا گیا اور درباریوں کو حکم دیا گیا کہ انکی ہر ضرورت کو پورا کیا جائے۔اب درزیوں سے سب سے پہلے سونے کی تاروں سے بنے گولے منگوائے تاکہ لباس کی تیاری شروع کی جاسکے۔ انہیں گولے پیش کردیئے گئے۔ جو کہ انہوں نے قریب کے جنگل میں جاکر چھپادیئے۔اور پھر اپنے کمرے میں بیٹھ کر خالی مشین چلانا شروع کردی۔ ہر گزرنے والہ یہ محسوس کرتا کہ لباس کی سلائی کا کام جاری و ساری ہے۔یہی پریکٹس جاری رہی۔کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے ایک وزیر کو بھیجا کہ دیکھ کر آ کہ کتنا کام ہوا اور کام ہوبھی رہا ہے کہ نہیں وزیر درزیوں کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دونوں کو مشین چلاتے دیکھا لیکن لباس نظر نہ آیا وہ پوچھنا ہی چاہتاتھا کہ اسے فورا وہ بات یاد آئی کہ لباس تو صرف عقل مندوں کو دکھائی دیتا ہے اگر میں کہوں گا کہ لباس کہاں ہے تو مجھے بیوقوف سمجھا جائے گاپس اس نے دونوں کے کام کی تعریف کی اورضرورت دریافت کی انہوں نے پھر سونے کے تاروں والے گولے مانگ لئے جو کہ انہیں دے دیئے گئے اور بادشاہ کو بھی بتایا گیا کہ لباس بڑا عمدہ تیار ہورہا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوسرے وزیرکو بھیجا گیا اور اس نے بھی بیوقوفی کے لیبل سے بچنے کیلئے وہی بات دہرائی جو کہ اس سے پہلے جانے والے وزیرنے دہرائی تھی۔ بہرحال وہ دن بھی آن پہنچا جس دن لباس تیار ہونا تھا دربار لگ گیابادشاہ سلامت نشست خاص پر جلوہ افروز ہوئے درزیوں کو بلایاگیا وہ ایک تھیلا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے آئے اور اس طر ح پوز کیا جیسے کہ تھیلے سے لباس نکال رہے ہیں اور پھر اسی انداز میں بادشاہ کو پہنادیا گیا۔ اور پھربادشاہ نے سارا شہر کا دورہ کیا اور خوب داد حاصل کی۔کیونکہ وہاں پر سب عقلمند تھے اور کوئی بیوقوف بننے پر تیار نہ تھا-

وطنِ عزیز کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں بھی مشیران اپنے شاہ کی خوشنودی کی خاطر ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ دیتے ہیں ، اسلئے کم از کم وزراءکے انتخاب میں میاں صاحب کو عقلمندی کا ثبوت دینا چاہیے۔

لیکن چند دن پہلے میاں شہباز شریف کے دعوؤں کے حوالے سے میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ شہباز شریف جذباتی آدمی ہیں۔ یہ بجلی کا بحران کب ختم ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شہباز شریف وعدے کر سکتے ہیں ، میں نہیں۔ یعنی الیکشن کے وعدوں کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ روایتی سیاست شاید اسی کا نام ہے۔ الیکشن کے بعد بجلی کا جو شدید ترین بحران ہے لوگ کہتے ہیں کہ شاید یہ بھی باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ نواز شریف کے حلف اٹھانے سے پہلے صورتحال اس قدر بگاڑ دی جائے کہ حلف کے بعد لوگ گھنٹہ گھنٹہ کھیل ہی غنیمت جان کر خوش ہو جائیں۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ لیکن حیران ہونے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ میاں برادران تبدیلی کی نہیں ”سٹیٹس کو “ کی علامت تھے۔ اور جب لوگوں نے انہیں منتخب کیا ہے تو حالات میں قدرے بہتری کا سوچیں۔ تبدیلی کا نہیں۔

کچھ ہو نہ ہو ، ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی بیوقوف نہیں بننا چاہتا۔ اَن دیکھی خلعتِ فاخرہ سب کو دکھائی دیتی ہے یہاں۔

Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 65961 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.