جب بھی کسی لیڈر نے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہی اس نے برائے
راست سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے متعلقہ ووڈیروں کا سہارا لیا
اور یوں ٹھیکہ سسٹم کے تحت لوبیا کے بھاﺅووٹوں کا ٹھیکہ متعلقہ ٹھیکدار کے
حوالے کر دیا عوام کو مجمع کی صورت اگھٹا کر کے جھوٹی مکالمہ بازی اور خود
فریبی کے جال میں پھنسایا سبز باغ دیکھادیکھا کر سال ہا سال سے بے ووقوف
بنانا ان کا طرہ امتیاز رہا آزاد کشمیر میں الیکشن تھے 26جون کا دن بھی آکر
ایک منحوس و تلخ تاریخ چھوڑ کر گزر گیادوران الیکش یوں لگتا ہے جیسے محشر
قائم ہو چکا ہے ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے الیکشن کے بعد ہر ووٹر یا
کسی جماعت سے وابستہ شخص بلکہ عام فہم بھی ہر اجنبی سے پوچھتا ہے آپ نے ووٹ
کس کو دیا ؟اسی طرح الیکشن اپنے اختتام کو پہنچ کر زندگی رواں دواں تھی
راقم اپنے آفس میں بیٹھا تھا وآدی نیلم کے دور افتادہ علاقہ سوسل جو کے
کنڈالشاہی سے پہلے صندوق کے مقام سے سینکڑوں کلو میٹر دور ایک گاﺅں ہے جہاں
اچھی خاصی آبادی رہائش پذیر ہے وہاں چوہدری برادری کی اکثریت ہے یوں وہاں
سیدھے سادئے ،بولے بھالے ،سادح لوح برادری رہائش پذیر ہے دفتری کام میں
مصروفیت کے دوران اپنی توجہ کا محور و مرکز اپنا فرض ہی ہوتا ہے بسا اوقات
بڑئے ہی اہم لوگوں کو انسان وقت نہیں دئے پاتا اسی اثنا میں جب کام میں
انتہائی مگن تھا ایک شخص آفس کے اندر آیا بڑی اونچی آواز میں سلام کیا میں
نے ایک نظر اپنے کمپوٹر سے اٹھائی اور سلام کا جواب دیا نظر اٹھتے ہی موصوف
کی وضع قطع ،خدو حال پہ بھی معلوم ہو گئے سلام کا جواب مدہم آواز میں تھا
جس کے بعد مذکورہ شخص نے بیٹھتے بیٹھتے دوبارا سلام کیا اس دوران اپنے کام
سے یکسر توجہ ہٹ گی اور اپنے کام کو ادھورا چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوا
شاہد کسی مصیبت کا مارا ہو؟اور میڈیا کا سہارا لینا چاہتا ہو؟چند سوالات
زہین کے افق پہ بادل بن کر منڈلانے لگے جی بزرگو کہاں سے آئے ہو ؟کیا حکم
ہے؟وہ گویا ہوامیرا تعلق صندوق سوسل سے ہے چوہدری برادری سے میرا تعلق ہے ۔اس
کے بعد خاموشی سی چھا گی میں نے بات آگئے بڑھانے کے لیے شاہد یہ کچھ بات
بتانے سے کترا رہا ہے پوچھا چوہدری صاحب اب کی بار ووٹ کس کو دیا ہے اس کے
چہرئے پہ ایک ایسی رونق اور چہرہ ہشاش بشائش ہو گیا جس طرح اس نے ہی کسی کو
وزیر بنایا ہو کچھ دیر خاموشی سی چھا گی اور موصوف خیالاتی و تصوراتی دنیا
میں گم تھا میرا تجسس اور بڑھنے لگا میں نے جیسے اس کوخواب سے بیدار کیا
چوہدری صاحب میں نے کیا پوچھا تھا ؟ووٹ کس کو دیا ہے اس نے اپنی قمیض اوپر
کی اور سینہ پہ ایک پوسٹر آویزاں تھا بلکہ چپکایا ہوا تھا کہنے لگا اس کو
۔۔۔میری حیرت کچھ اور بڑھ گی سسپنس بڑھتا گیا راقم خود کنفیوز ہو گیا جی
شاہ غلام قادر صاحب کو ووٹ دیا ہے ؟جی ہاں شاہ غلام قادر صاحب کو کلام کے
تسلسل کو آگئے بڑھاتے ہوئے پوچھا شاہ صاحب آپ لوگوں کے پاس ووٹ لینے گئے
تھے ؟نہیں ناں ۔تو آپ نے بن دیکھے بن مانگے کیوں ووٹ دیا کہنے لگا میں
اکیلے نے نہیں دیابلکہ ہماری سوسل کی پوری برادری نے ووٹ دیئے ہیں پھر وجہ
پوچھنے پہ اس نے اپنی کم از کم پچاس سالہ داستان سنائی کہنے لگا ہم گجر لوگ
بہت کمزور سے لوگ ہوتے ہیں جھگڑئے فساد میں نہیں پڑنا چاہتے پچھلے جتنے بھی
الیکشن گزرئے تو دوران الیکشن ایک سیاسی لیڈر آتا اور صندوق بیٹھ کر ہمارئے
ووٹوں کا ٹھیکہ کرتا ہمیں پیغام بھیجوایا جاتا سوسل کے سب گجر نیچے صندوق
پہنچ جائیں حکم اتنا سخت ہوتا ہم اس کی تعمیل کو فرض عین سمجھتے تھے جب
صندوق آتے تو پہلے ہماری گالیوں سے خوب توضع کی جاتی بعد ازاں تاکید کی
جاتی اندر جو صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے سامنے جب آپ سے پوچھا جائے تو کہنا
ووٹ فلاں پارٹی جس کا امیدوار اندر بیٹھا ہوا ہے کو دیں گئے۔مگر اس الیکشن
کے دوران ہمیں گالیاں نہیں دی گی اور نہ ہی ایک جگہ بکریوں کی طرح ہانک کر
ہماری زبان سے یہ وعدہ لیا گیا بلکہ گاﺅں کے بڑئے بڑئے لوگ سوسل ہمارئے پاس
آئے انتہائی عجز و انکساری سے ووٹوں کا مطالبہ کیا ہر دوسری جماعت کے لیڈر
ووٹ مانگنے آئے اس دفعہ سختی کے بجائے انتہائی شائستگی اور مودبانہ طریقہ
کار سے ووٹوں کی استدعا کرتے اور تمام اہل خانہ کی خلاف معمول خیر خیریت
بھی دریافت کرتے اور عاجزی کا یہ حال کہتے اگر ہمیں ووٹ نہ بھی دیا تو
چوہدری صاحب شاہ غلام قادر کو بھی نہ دینا پہلی بار ہماری برادری کی میٹنگ
ہوئی ہم نے باہمی طور پہ فیصلہ کیا جس شخص کی بدولت ہمیں آج عزت ملی وہ شاہ
غلام قادر ہے انشا اللہ اس عزت کے عوض ہم ووٹ شاہ غلام قادر ہی کو دیں گئے
وہ عزت و تکریم جو شاہ صاحب کی بدولت ملی اس کا ہم پہ قرض بھی ہے اور حق
بھی یوں اس محبت و جنون کی وجہ سے ووٹ کا اصل حق دار جناب سابق سپیکر
اسمبلی شاہ غلام قادر ٹھہرئے ،قارئین کرام شعبہ صحافت سے وابستہ ہو کر کسی
سیاسی لیڈر کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے مگر حقائق سے انکار بھی نہیں کیا
جا سکتا شاہ غلام قادر ایک رومانس ہے جو ہر ایک میں اور آئیندہ نسلوں میں
منتقل ہو رہا ہے اور ہو تا رہے گا شاہ غلام قادر ایک فلسفہ کا نام ہے ایسے
فلسفے و نظریات ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان میں ہر عہد کے انسان کی رہنمائی کی
صلاحیت موجود ہے غریبوں ومظلوں کی حمایت ووڈیرہ شاہی کے خلاف علم بغاوت
پیدا کرنے والا یہ شخص جس کا فلسفہ یہ ہے معشیت کی برابر ی سطع پہ تقسیم کی
جائے تاکہ ہر عام و خاص کی معاشی حالت بہتر ہو سکے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
وہ اپنے نظریے و فلسفہ پہ ثابت قدم رہ کر نیلم ویلی کی بے سہارہ عوام کا
سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے ان کی نیلم ویلی کی خدمات کے عوض خدائے
زوالجلال ان کو صحت و سلامتی کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے۔(آمین) |