ریاست جموں و کشمیر کو جہاں دنیا میں جنت ہونے کا فخر
حاصل ہے وہیں یہ ریاست پورے ہندوستان میں کورپشن کے اعتبار سے بہار کے بعد
دوسرے نمبر کی ریاست بھی ہے جہاں سیاست داں اور بیروکریٹ سر تا پا رشوت میں
ڈوبے ہوئے ہیں۔ رشوت کی اس لت نے یہاں اپنی جڑیں اتنی زیادہ مضبوط کرلی ہیں
کہ انہیں اُکھاڑ کر باہر پھیکنا مشکل ہی نہیں نا ممکن سی بات لگتی ہے۔ یہ
وبا ہماری ریاست میں آزادی کے بعد ہی پھیلی۔ آہستہ آستہ اس وبا نے پوری
ریاست کے سرکاری محکموں کو اپنی ذد میں لیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ مخلوط
حکومت کے گذشتہ چار سال کے عرصے میں رشوت ستانی نے اپنی تمام حدود کو پار
کرلیا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب بھی اس بات سے متفق ہیں کہ رشوت ستانی کی لت
پوری ریاست کو ایک ناسور کی طرح کھائے جارہی ہے جسکا ثبوت آئے دن اخبارات
میں شائع ہونے والے مختلف سرکاری گھوٹالوں سے بخوبی مل جاتا ہے۔ آزادی کے
بعد کئی حکومتوں کے وزرا اعلیٰ نے اس لت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن
ہر دفعہ وہ اپنی اس کوشش میں بری طرح ناکامیاب ہوئے۔ شیر کشمیر شیخ محمد
عبداللہ ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد وہ وزیر
اعلیٰ ہیں جنہوں نے اس لت سے نجات حاصل کرنے کے لئے کئی منصوبے بنائے لیکن
وہ انہیں عملی جامعہ پہنانے میں بالکل ناکامیاب رہے۔ یہاں تک کہ موجودہ
وزیر اعلیٰ بھی اس لت سے بے حد پریشان ہیں۔ اسی لئے وہ ہر روز اپنی تقاریر
میں اس بدعت کو ختم کرنے کے لئے ذور بھی دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے حکومت
کے رشوت خور اہلکاران ان کی بات پر توجہ نہ دے کر ریاستی خزانے کو لوٹنے
میں آئے دن مصروف ہیں جسکی وجہ سے ریاست آج کل زبردست مالی بحران کا شکار
ہوکر رہ گئی ہے۔
رشوت کی بڑھتی ہوئی لت کو دیکھ کر 2002ءمیں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب
مفتی محمد سعید نے سرکاری سطح پر احتساب کمیشن قائم کیا جسکا مقصد شکایات
اور الزامات کو سن کر رشوت خوروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا۔ جب اس
کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو عوامی حلقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ
گئی کہ شاید اب ریاست رشوت ستانی کی بدعت سے آزاد ہوگی اور ریاست میں رشوت
خور سیاست دانوں اور سکٹریٹ میں بیٹھے ہوئے بیوروکریٹوں کو سزائیں دی جائیں
گیں لیکن عوام کی امیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب حکومت نے اس اہم ایکٹ
میں ترمیم لاکر اسے ایک غیر فعال ادارہ بنادیا۔ ابتداءمیں اس کمیشن نے رشوت
خور سیاست دانوں ، وزیروں، ممبران قانون سازیہ اور آفیسران کے خلاف شکایات
درج کرکے تحقیقات کا عمل بھی شروع کردیا تھا لیکن ایکٹ میں ترمیم کے بعد یہ
ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا اور اس کے مقاصد وہ نہیں رہے جسکے لئے اسکا قیام
عمل میں لایا گیا تھا۔حکومت کے اس قدم پر اپوزیشن لیڈان نے کافی شور شرابا
بھی مچایا لیکن چونکہ حکومت کو اپنے کارندوں کو بچانا تھا اس لئے اپوزیشن
کا یہ شور شرابا حکومت کے لئے بے معنی رہا۔ پھر کمیشن نے جن وزرا اور حکومت
کے اہلکاروں کے خلاف کاروائی شروع کردی تھی وہ وزرا اور اہلکاران عدالت سے
حکم ِامتناعی لے آئے اور یوں احتساب کمیشن مذید مفلوج ہو کر رہ گیا جس کا
ثبوت اس بات سے بھی مل جاتا ہے کہ بڑے عرصے تک یہ کمیشن چیرمین کے بغیر ہی
چلتا رہا۔ ممبران کی تعداد بھی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ کوئی بڑے پیمانے
پر احتساب کرسکتے۔
چند روز قبل ریاستی احتساب کمیشن ایک دفعہ پھر اُس وقت اخبارات کی شہ سرخی
بنا جب اس نے سابق وزیر تعمیرات غلام محمد سروڑی کا احتساب کرنے کا فیصلہ
لیا۔ سروڑی اس وقت ممبر اسمبلی اندروال ہیں۔ وادی چناب کے ایک قد آور سیاست
داں ہونے کے علاوہ غلام محمد سروڑی ریاستی کانگریس کے سینئر لیڈر بھی ہیں۔
ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا ناجائیز استعمال کرکے بغیر
ٹینڈر کئے اپنے پسندیدہ افراد کو ٹھیکے الاٹ کئے۔ سروڑی پر رشوت خوری کا
الزام بھی عائد کیا گیا ہے جسکی تردید خود سروڑی نے اخبارات کے زریعے کر دی
ہے۔ سروڑی سے پہلے بھی کئی افراد احتساب کمیشن کی ذد میں آچکے ہیں لیکن
کمیشن اب تک کسی بھی فرد کو کوئی سزا نہیں دے سکا ہے نہ ہی کوئی جیل گیا
اور نہ کسی کو عہدے سے برطرف کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا اعتبار
احتساب کمیشن سے اُٹھ گیا اور یہ کمیشن عوام میں مذاق کا موضوع بن کر رہ
گیا۔ البتہ سروڑی سے ہی عہدہ اُس وقت چھینا گیا جب اُن پر اپنی بیٹی کو غیر
قانوی طور پر ایم۔بی۔بی۔ایس میں داخلہ دلانے کا الزام عائد کیا گیا جسکی
بعد میں سی۔بی۔آئی کے ذریعے تحقیقات بھی ہوئی پوری تحقیق کرنے کے بعد سی۔
بی۔آئی اس نتیجے پر پہنچی کہ سروڑی بے قصور ہے اور انہیںسیاسی رنجش کی وجہ
سے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا یہی وجہ ہے کہ سی۔بی۔آئی نے سروڑی کو کلین
چیٹ سے بھی نوازا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کلین چیٹ ملنے کے بعد سروڑی کو
اپنا محکمہ واپس دیا جاتا جسکا وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں وعدہ بھی کیا تھا
لیکن ہوا اس کے برعکس ایک دفعہ پھر ان پر احتساب کمیشن بیٹھا دیا گیا اور
میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمیشن اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کرپائے گا کیوں کہ
کمیشن کی ماضی کی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے جن افراد پر ماضی میں فرد جرم
عائد کیا گیا اُن کا ابھی تک کوئی بال بیکا نہیں کرسکا وہ اپنی کرسیوں سے
اب بھی چمٹے ہوئے ہیں اور ریاست کو دونوں ہاتھوںسے خوب خوب لوٹ رہے ہیں۔
موجودہ دور میں احتساب کمیشن کی حیثیت ایک بے جان ادارے کی سی ہوکر رہ گئی۔
اس ادارے کی حیثیت ایک ایسے پنچایت گھر سی کی ہے جہاں لوگ آئے دن ایک دوسرے
کے خلاف شکایات درج کرتے ہیں اور پھر ان شکایات کو حل کرنے کے لئے آئے دن
پنچائیتیں بھی بیٹھتی ہیں لیکن پھر بھی شکایات کاکوئی ازالہ نہیں ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد احتساب کمیشن سے بالکل اُٹھ گیا ہے۔ عوام کا
اعتماد بحال کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کمیشن کا بھی احتساب
کیا جائے۔ اس کو نہ صرف ایک غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے بلکہ اسے فعال
بنانے کے لئے اسے آزاد حیثیت بھی عطا کی جائے۔ اس ادارے میں کام کرنے والے
افراد نہ صرف شفاف ہوں بلکہ ہمت رکھنے والے با کردار افراد ہوں جو سیاسی
دباﺅ میں نہ آکر اپنا کام خوش اسلوبی سے ادا کریں ۔ تبھی یہ ادارہ عوام میں
اپنی ساکھ بنا سکتا ہے ورنہ اس کی حیثیت ایک پنچایت گھر کی ہی ہو کر رہ
جائے گی جہاں روز ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں ہوتی ہیں شکایات درج
ہوتی ہیں آئے دن مثلوں کو سلجھانے کے لئے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن
نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ |