ہمارے احتجاج۔۔۔

ہم کشمیری منفرد و اعلیٰ روایات کے آمین رہے ہیں ایسی روایات جنکی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ بلا شعبہ یہ ہمارے لئے ایک انمول اثاثہ ہے جو ہمیں اوروں سے ممتاز بناتا ہے ۔۔۔ اگر ہم آج اپنے شاندار ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ اس سفر میں ہم دوسری اقوام کی طرح بے شک کئی شعبہ جات میں کچھ آگے بڑھے ہیں لیکن ایسا یقین کیساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے اپنی اعلیٰ قومی اقدار کانسبتاً نقصان کیاہے اور لامحالہ یہ نقصان گزشتہ ۶۶برسوں میں زیادہ ہوا ۔۔۔

ان میں سے صرف ایک یہ کہ ماضی میں ہماری رسوئی کی تمام تر ضروریات اسی اونچی نیچی ناہموار لیکن خوبصورتی میں بے مثا ل سر زمین سے مہیا ہوتی رہیں ہیں اسلئے بھی کہ یہ مٹی بہت وفادار اور محبت کرنیوالی ہے۔۔۔اور اس مٹی ہی کی دین تھے وہ غیور ،بہادر اور شجاع لوگ جنہوں نے محبت کی تو کمال اورجو نفرت کی تو بے مثال،،،ان وقتوں میں ہماری روزانہ کی خوراک مکئی ،کڑی ،سبزیاں ،لسی ،دودھ مکھن ،دیسی گہی ،اور وہ سب جو یہاں سے ہی پیدا ہوتا تھا اور کبھی کبھارکوئی خاص مہمان آئے تب گھر میں چپاتی اور مرغ سالن بنتا مگر وہ چپاتی یہاں کی اور مرغ بھی دیسی ہی ہوتا ۔۔۔آج ہم اپنی اس انتہائی سادہ اور حسین ترین روائت سے مرحوم ہو چکے ہیں اور اسکی جگہ غیر سے ادھار لی گئی روایات نے لے لی جیسا کہ آج ہم مہمان کوچائے کے ساتھ بھی مرغ کے چند اعضاء فرائی کر کے پیش کرتے ہیں اور اس مہمان نوازی میں چائے میں استعمال ہونیوالے اجزا ء اور اس مرغ سمیت ایک بھی چیز اس سر زمین کی پیدا کردہ نہیں ہوتی حتیٰ کہ اس سارے عمل میں ظائر کیا جانیوالا خلوص خود اپنی تصدیق نہیں کر پاتاکہ ’’میں‘‘ ہوں کہ نہیں۔۔۔اور اس طرح ہماری سوسائٹی میں ہمارے خلوص کا تعین کرنے کا اختیارومینڈیٹ ’’ شیور ‘‘کے مرغ کو سونپ دیا گیا اور اس پر ستم کہ وہ بھی دیار غیر کے پولٹری فارم سے آتا ہے۔

شہر گلی محلے یا دور دراز گاؤں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جہاں سڑک ہے یا نہیں ہمیں کہیں ناں کہیں ’’شیورمرغ‘‘ کے پنجرے نظر آئیں گے جس سے یہ اندازہ لگانا انتہائی آسان ہیکہ ’’شیورمرغ‘‘ ہماری زندگی اور ہماری روایات میں کس حد تک گھس آیا ہے۔انکی اپنی زندگی بھی بڑی کٹھن ہوتی ہے ۔یہ ان چھوٹے چھوٹے پنجروں میں مونث، مذکر، جوان، بوڑے،تندرست،بیمار سب ایک دوسرے کیساتھ ٹیک لگا کرخامشی سے لیٹے یا بیٹھے ہوتے ہیں انمیں آزان دینے یا کوئی تحریر و تقریر کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتابس کھانا ’’ٹائیلیٹ‘‘اور سونا ۔۔چاہے ان پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ ہو یہاں تک کہ ہر پانچ یا دس منٹ کے بعد پنجرے کا دروازہ کھلتا ہے تو سب کی آنکھ کھل جاتی ہے سامنے ایک شخص ایک ہاتھ میں چھرا لئے کھڑا ہے دوسرا ہاتھ اندر آتا ہے ایک کو پکڑ کر لیجاتا ہے ۔۔۔اسکے جانے پرتقریباً بیس سیکنڈ تک سارے پنجرے میں ایک حرکت سی ہوتی ہے اور کچھ ہلکی پھلکی آوازیں سنائی دیتی ہیں جیسا کہ ’’ ہم نہیں مانتے ظلم کے یہ ضابطے‘‘ اور پھر خامشی چھا جاتی ہے سب آرام سے سو جاتے ہیں اور اس طرح ایک ایک کر کے انکے سارے ساتھی ان سے بچھر جاتے ہیں یہاں تک کہ پنجرہ خالی ہو جاتا ہے اور اگلے روز ایسے ہی پچاس سو اور شیور اس پنجرے میں موجود ہوتے ہیں اور بس یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔

ہمارے دیس کی جغرافیائی صورتحال بلکل ایسے ہی پنجرے کی مانند ہے ہمارا باہر کی دنیا سے کوئی ناطہ رابطہ نہیں ہے ہم چاروں اوور سے بند ہیں ناں قانون اپنا ناں حکومت اپنی ناں ہی اپنے وسائل پر اپنی دسترس،،،،گزشتہ ۶۶برسوں سے یہاں کبھی بھی کہیں سے ایک ہاتھ اندر آتا ہے اور ہم میں سے کسی کو لیجاتا ہے غائب کر دیتا ہے یا قتل کر دیتا ہے تو کچھ دیر کچھ احتجاجی صدائیں سنائی دیتی ہیں اور بھر خامشی چھا جاتی ہے اور پھرسب بھول بھال جاتے ہیں ۔

ہمیں سیاسی سر گرمیوں کی اجازت ملے ایک صدی ہونے کو آئی لیکن ہم احتجاج کرنا بھی نہ سیکھ سکے اور اتنے طویل عرصے میں اگر کچھ سیکھا بھی تو صرف یہ کہ چند روز جمع ہو کر تقریریں کرلیں نعرے لگائے ۔۔۔ہوٹلوں اور نجی محفلوں میں بحث ۔۔۔ کہ ہمیں ظلم کیخلاف آواز اٹھانا چاہیے ۔۔۔اور بس ۔۔۔ختم شد۔۔۔لیکن یہ نہ سیکھ سکے کہ احتجاج کیوں ،کیسے اور کہاں تک کرنا ہے اسکے مقاصد کیسے حاصل کرنے ہیں ؟ظالم کے ہاتھ کو کیسے روکنا ہے؟آج تک کبھی کوئی ایسا احتجاج دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا کہ جو اپنے مقاصد حاصل کر پایا ہویا جسمیں کوئی پلاننگ یا حکمت عملی نظر آئی ہو جبکہ غور کریں تو ہمارے تمام تر احتجاج اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے ۔۔۔مجرموں کو بے نقاب کیا جائے قرار واقعی سزا دی جائے جیسے روائتی و دقیانوسی قسم کے مطالبات کے ایک مخصوص دائرے کے اندر گھومتے نظر آتے ہیں اور جنکا وقت بھی متعین ہوتا ہے جسکے بعد ہم سب بھول جاتے ہیں جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ہم کسقدر غیر سنجیدہ لوگ ہیں جو کچھ تقریروں اور ڈاک ایڈیشن میں خبر چھپ جانے کو ہی اپنی قومی زمہ داری و قومی غیرت کہتے ہیں اور ہمارے اس روائتی سے احتجاج اور پنجرے میں بند ان’’ شیور‘‘مرغیوں کے احتجاج میں کچھ فرق ہونا چاہیے ورنہ یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا عصمتوں کے لٹنے کا پر اسرار قتل ہونے یا غائب ہو جانے کااور غیروں کا اس دیس پر حکومت کرنے کا۔۔۔۔اور ہم اسی طرح کے احتجاج کو اپنی قومی زمہ داری سمجھ کر پورا کرتے رہیں گے۔۔۔۔اﷲ اﷲ خیر سلا۔۔۔لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ اس نوح کی سرگرمیوں سے ’’چند لوگ ‘‘پروجیکٹ و نمایاں ضرور ہو جاتے ہیں لیکن عوام کا کبھی بھلا نہیں ہوتا۔

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.