صدر زرداری تو پہلے ہی میاں محمد نوزشریف کو
وزیراعظم مان چکے ہیں ،آج راقم کا دل بھی میاں نوازشریف کو وزیراعظم
پاکستان کہنے کو چاہا رہا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔عوام مسلم لیگ ن
کو مینڈیٹ دے چکے ہیں اور مسلم لیگ ن باضابطہ طور پر میاں نوازشریف کو
وزیراعظم نامزد کرچکی ہے ۔میاں نوزشریف نے ممبر قومی اسمبلی کا حلف اُٹھانے
کے بعد جو گفتگوکی وہ بہت اہم اور مثبت رہی ۔انہوں نے کہاکشکول توڑ کر ملک
کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔میاں صاحب قدم بڑھاؤ اﷲ تعالیٰ اورپوری قوم
اس نیک کام میں آپ کے ساتھ ہے ۔ میاں صاحب کایہ کہنا قابل تحسین ہے کہ خود
کرپشن کروں گا نہ کسی کو کرنے دوں گا،سب جان لیں اﷲ تعالیٰ ہم سے کوئی بڑا
کام لینا چاہتا ہے ،قومی مفاد اور عوامی اُمنگوں پر پورا اُترنا ہوگا۔میاں
نوازشریف نے عوام کا شکریہ بھی ادا کیا جو ایک اچھی روایت ہے لیکن دیکھنا
یہ ہے اب میاں صاحب عوام کو شکریہ کا موقع کب فراہم کرتے ہیں ۔میاں صاحب
اگر مسائل بڑے اور زیادہ ہیں توعوام نے بھی آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق
بغیر بیساکھیوں کا مینڈیٹ دیا ہے ۔میاں صاحب دنیا میں وہی قومیں باوقار
ہوتی ہیں جواپنی تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔کامیاب وہی قومیں
ہوتی ہیں جن کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور جو عزت نفس کا گہرا احساس رکھتی
ہیں ۔کامیابی کے ساتھ آگے وہی قومیں بڑھتی ہیں جن کی کوئی سمت ہوتی ہے ۔جب
متضاد خیالات کا طوفان قوموں کو اندھیری کھائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے تو
وہ دوسری قوموں کے وقتی فیشن کے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں۔ایسے حالات میں وہی
قومیں ڈٹی رہتی ہیں جن کے اپنے اصول اور آدرش ہوتے ہیں ،جو عزت نفس کی حامل
ہوتیں ہیں ،اور جو اپنے فیصلے خود کرتیں ہیں ۔ لیکن ہم نے سدا سے عالمی
جاگیردار یعنی امریکہ کے فیصلوں پر ہی لبیک کہا ہے۔بھلا یہ کیسے ممکن
ہوسکتا ہے کہ فیصلے تو امریکہ بہادر کرے اور ان فیصلوں میں ہمارے مفادات
محفوظ ہوں ۔آج ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں پرانے قرض کا سود چکانے کے
لئے نیا قرض لینا پڑرہا ہے۔انسانی فطرت ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنا مفاد
دیکھتا ہے اور باقی سب معاملات بعد میں۔ کچھ لوگ جن میں انسانیت باقی ہووہ
اپنا مفاد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ کسی
دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے لیکن کچھ ایسے مفاد پرست، لالچی اور خود غرض ہوتے
ہیں جن کو اپنے مفاد کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔بد قسمتی سے آج اسی قسم
کے لوگ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں ۔طاقت کے نشے میں اندھے لوگ بلا وجہ
انسانوں کو روندتے ہوئے چلتے ہیں ۔یہی حکمران ریاستوں اور ملکوں کے مفادات
کے فیصلے کرتے ہیں ۔امریکی حکمران بھی اسی قسم کے انسان ہیں ۔جنہوں نے
لاکھوں ماؤں کے جوان بیٹوں کو جنگ لڑنے دوردراز بھیج رکھا ہے ۔جن میں سے
شائد ہی کوئی زندہ سلامت واپس گھر اپنے والدین،بہن بھائیوں اور بیوی بچوں
میں جائے ورنہ ابھی ایک جنگ ختم نہیں ہوتی اور دوچار جنگیں اور شروع کی
جاچکی ہوتی ہیں ۔اور سننے میں آیا ہے کہ امریکی حکام ہلاک ہونے والے فوجیوں
کی نعشیں بھی واپس امریکہ نہیں بھیجتے تاکہ وہاں کے عوام میں اشتعال نہ
پھیلے ۔قارئین محترم غورکریں جو اپنی نسل کو صرف جنگی سامان کی طرح استعمال
کرتے ہیں وہ دوسروں کے مفادات کو تحفظ کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟جن کے نزدیک
تباہ شدہ جنگی الات کی تو قیمت ہے لیکن زندہ یا مردہ انسانوں کی کوئی قیمت
نہیں ہے وہ کس طرح کسی قوم کو تحفط فراہم کرسکتے ہیں؟مجھے حیرانی ہوتی ہے
جب پاکستانی حکومت کی طرف سے بیان جاری ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی
خودمختاری کا خیال رکھے اور قربانیوں کی قدر کرے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ
افغانستان میں جاری جنگ اور پاکستانی علاقوں میں جاری ڈورن حملوں پرڈالر تو
امریکہ خرچ کرے اور پالیساں افغانستان یا پاکستان بناے ؟ جیب تو ان کی ہلکی
ہو اور مفادات پاکستان یا افغانستان کے محفوظ رہیں ؟اگرکسی کی سوچ یہ ہے کہ
امریکہ کی نظر میں پاکستا ن ،افغانستان ،بھارت یا کسی اور ملک کے مفادات
اہم ہیں تویہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ امریکی حکمرانوں کی نظر میں کسی
کی کوئی اہمیت نہیں سوائے ذاتی مفادات کے۔امریکہ جیسے انتہائی لالچی اور
مفادپرست دوست سے کسی کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتاہے؟
۔اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنے حالات کے مطابق اپنے وسائل
اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے فیصلے کریں ۔کیونکہ خود
مختاری وسلامتی مانگنے سے نہیں ملتی چھیننی پڑتی ہیں۔ بھیک مانگنے والوں کی
نہ تو کوئی خودمختاری ہوتی ہے اور نہ ہی سلامتی ،بلکہ ان کی تو خوداری
اورغیرت بھی فوت ہوجاتی ہے۔ پیٹ بھرنے کے لئے سود پر قرض لینے سے بہترہے
بھوک سے مرجانا۔اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ جب سرمایہ دار کسی غریب کو
قرض دیتا ہے تو اپنی شرطیں منوانے کے بعد دیتا ہے ۔ قرض لینے والے کوقرض تو
سودسمیت واپس کرنا ہی پڑتا ہے لیکن نہ صرف قرض ادا کرنے تک بلکہ اس کے بعد
تک بھی سابق قرض دار پر سرمایہ دار کی شرطیں لاگو رہتی ہیں۔سرمایہ دار غریب
آدمی کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ اسے کسی وقت بھی دوبارہ قرض لینے کی ضرورت پڑ
سکتی ہے اس لیے اسے اپنی اوقات میں رہناچاہئے ۔اس طرح قرض لینے والے کی
شخصیت دوسروں کی محتاج یعنی غلام بن جاتی ہے اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلے
کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے
فیصلے خود کرتے ہیں اور پھر ان پرڈٹے رہتے ہیں ۔آج بحیثیت قوم ہمیں سخت
ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کوسمجھ لیں کہ ہم کون ہیں ،ہم کہاں ہیں اور ہماری
منزل کہاں ہے ۔ زندگی میں ہمیں ذاتی فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے ۔آج ہمیں یہ طے
کرنا ہوگا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ہم کون ہیں ،ہم کہاں سے آئے ہیں ،ہمیں کہاں
جانا ہے ،ہم کیا چاہتے ہیں ،ہماری منزل کہاں ہے اور ہمیں اپنی منزل حاصل
کرنے کے لئے کیاکرنا ہوگا ،اگرہم ان سوالوں کے جواب تلاش نہ کریں تو پھر
ہماری حالت شاخ سے ٹوٹے ہوئے اس پتے جیسی رہے گی جو ہوا کے رخ کے ساتھ چلنے
کے سوا کچھ نہیں کرسکتا (جیسی کے آج ہماری ہے )اور ہم اپنے آپ کوچاروں طرف
بھاگتا ہواپائیں گے اور پھر نہ تو ہماری کوئی سمت رہے گی اور نہ ہی کوئی
منزل ملے گی۔ |