آئندہ سال 2014ء میں یا اس سے قبل ہم کو پھر ایک مرتبہ
اپنے قاتلوں کا انتخاب کرنا ہوگا جی ہاں ہر انتخاب سے پہلے ہم کو خوش گوار
امن و سکون اور عزت و احترام کی زندگی کا بھی انتخاب کرتے ہیں ایسے لوگ
مسیحا کی جگہ قاتل، قاتل کا محافظ اور ہم کو زندہ درگور کرنے والے ہی ثابت
ہوتے ہے اور ہر پانچ سال بعد ہم وعدوں کا شکار ہوکر ’’ہفت بلا‘‘ کا دروازہ
کھول لیتے ہیں۔ لیکن ہم مستقل یا دائمی طور پر انتخابی وعدوں کا شکار نہیں
ہوسکتے۔ ہم فیصلے کا اختیار رکھنے والے تو نہیں بن سکتے ہیں ہاں کچھ تیاری
کریں سوچ سمجھ سے کام لیں متحد ہوں اور اپنے ووٹ بینک (جو بادشاہ گر نہ سہی
لیکن بادشاہ گری میں اہم رول ادا کرسکتا ہے) کو منقسم نہ ہونے دیں اور یہی
ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ ہم ووٹ تقسیم کروانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں
بلکہ ووٹ بینک کو متحد یا غیر منقسم رکھنا ہم کو آتا ہی نہیں ہے۔
اس کی وجوہات تو بیشتر ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ اتنے بڑے ملک میں کم از کم
تقریباً18 تا20کروڑ (حقیقی تعداد تو بہت زیادہ ہوسکتی ہے ہم نے بطور احتیاط
کم سے کم لکھی ہے) مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جو ہمارے ووٹ بینک
سے فائدہ اٹھاسکے اور نہ ہی ایسی کوئی جماعت نہ سہی بلکہ ہمارے ووٹ بینک کے
صحیح طریقے سے استعمال پر کنٹرول رکھ سکے جبکہ سارے ملک کے مسلمانوں کے لئے
یہ فیصلہ کرنے والی جماعت، کسی ادارے یا گروپ کا وجود ضروری ہے پھر سوال یہ
اٹھتا ہے کہ اس قسم کا گوہر مقصود کس طرح ہاتھ آئے؟ کئی حلقوں کا خیال ہے
کہ کسی جماعت یا تنظیم یا گروپ کے لئے ایسا فرمان یا حکم یا کم از کم مشورہ
دینا بھی ممکن نہیں ہے کوئی ایسا مذہبی رہنمایا عالم بھی نہیں ہے بلکہ جب
ہم میں مولانا علی میاں ؒموجود تھے تب ہم نے کب کسی کا کہا مانا تھا جو اب
ہم مان لیں گے؟
بہر حال اگر کچھ کرنا ہے تو ہمیں ملک میں صد فیصد نہ سہی 90فیصد اتحاد (وہ
بھی محدود مسائل پر) کی واحد صورت کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ یہاں ہماری
مراد ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ سے ہے۔ اس کا ایک ’’سیاسی بازو قائم
کرکے ملک کی تمام چھوٹی بڑی مسلم جماعتوں کے نمائندوں پر ایک گروپ بناکر
باہمی مشوروں اور اختلافات کو سامنے لاکر ایک رائے نہ سہی دو رائے یا دو
مشورے دے سکے (آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت) کی ناکامیاں اب بھی ہمارے ذہن
میں ہیں لیکن اسی کے ساتھ 1996ء کے انتخابات میں کانگریس کو مسترد کرنے اور
2004ء میں کانگریس کو دوبارہ منتخب کروانے کا ’’متحدہ و مشترکہ فیصلہ‘‘ بھی
ہم کویاد ہے۔ بہر حال نا اتفاقی اور انتشار کے گھور اندھیرے میں امید کی
کرنیں بہرحال روشن ہیں۔ سارے امکانات بہت روشن نہ سہی قدرے روشن ضروری ہیں۔
مولانا آزاد اور رفیع احمد قدوائی صاحبان کی طرح مسلمانوں کی جانب سے کسی
بھی قسم کے اتحاد یا علاحدگی کی بات کو ناپسند کرکے قوم پرستی یا متحدہ
قومیت کے علمبردار غلام نبی آزاد یا ’’بغیر (م) کے مسلمان (سلمان خورشید)
ضرور موجود ہیں لیکن یہ 1947ء بہر حال نہیں ہے۔ نہ ہی آج کوئی مولانا آزاد،
رفیع صاحب جیسا بااثر قائد ہے اور یہ باتیں کانگریسی ہی بہت کرتے ہیں لیکن
وہ اثر انداز بہر حال نہیں ہوسکتے ہیں۔
بہر حال ابھی کچھ وقت باقی ہے ۔ انتخابات کے موقع پر ساری ملت کے لئے ایک
مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کے بارے میں نہ صرف غور و خوض کرنا ممکن ہے
بلکہ اﷲ کا کرم ہوتو کوئی راستہ بھی نکل سکتا ہے۔ ایسی باتیں بھلے ہی
ناقابل عمل ہوں لیکن ان پر غور و خوص کرنے میں کیا برائی ہے؟
مسلمانوں کی نمائندگی کم ہونے کا مسئلہ دو باتوں پر منحصر ہے یا اس کے
دواسباب ہیں ایک تو سیاسی جماعتیں(خاص طور پر کانگریس) مسلمانوں کو ٹکٹ کم
دیتی ہیں بی جے پی زیادہ ٹکٹ دینے کی قائل نہیں اگر دے بھی تو اس کو
شاہنواز اور نقوی جیسے مسلمان نام کے بندے کہاں سے ملیں؟ دوسری وجہ یہ ہے
کہ مسلمان کو امیدوار ایسے حلقوں سے بنایا جاتا ہے جہاں مسلمان خاصی تعداد
میں ہوں اس لئے کئی جماعتیں اسی حلقہ سے مسلمان کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ مسلم ووٹس
تقسیم ہوجاتے ہیں اور بی جے پی کا یا کوئیغیر مسلم کامیاب ہوجاتا ہے ہمارے
ملک میں رائے دہی کے وقت نہ صرف مذہب بلکہ مسلک، ذات، برادری کا بھی لحاظ
کیا جاتا ہے۔ مسلم ووٹ جہاں زیادہ تعداد میں ہوں وہاں حقیقی اور سنجیدہ
امیدواروں کے ساتھ پیسہ دے کر کھڑے کروائے جانے والے مسلم امیدوار
(باالعموم آزاد) ووٹس کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرکے بی جے پی یا اس کی
حلیف جماعتوں کے امیدوار کو کامیاب کراتے ہیں۔ بہار میں نتیش، لالو+پاسوان
کے امیدواروں میں مسلم ووٹس کی تقسیم کا فائدہ نتیش کمار اور بی جے پی کو
ہوا تھا۔ چھوٹی چھوٹی مسلم جماعتوں کو اپنا اتحاد بناکر کسی بڑی جماعت سے
اتحاد کرنا چاہئے جماعت اسلامی کی قائم کردہ ویلفیر پارٹی مسلم ووٹس کی
تقسیم کا کام کرے گی۔ اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوں گی خود تو کیا
جیتے گی ہاں کسی اہم امیدوار کو شکست میں اپنا رول ادا کرے گی ویلفیر پارٹی
کے ایک ممتاز اور سرگرم کارکن سے ہم نے سوال کیا کہ جب پاکستان میں جماعت
کے سیاسی میدان میں حصہ لینے نہ لینے کے بارے میں مولانا مودودی اور مولانا
صلاح الدین احمد جیسے اکابرین میں اختلاف تھا۔ پاکستان کی جماعت آج تک کوئی
قابل لحاظ کامیابی حاصل نہ کرسکی تو اس کا ہندوستان میں کیا حشر ہوگا؟
سیاست کی گندگی میں جماعت کے صاف ستھرے اصول بھی آلودہ ہوں گے تو یہ جماعت
کے لئے مفید ہوگا؟ جواب ملاکہ ’’یہ ہندوستان ہے آپ پاکستان کی بات نہ کریں!
تاہم ہم نے ان کو سنادیا کہ اگر کیرالا میں مسلم لیگ اور حیدرآباد میں مجلس
کو اور آسام میں مولانا اجمل کے محاذ کو کوئی نقصان پہنچاتو ’’تفرقہ بین
المسلمین‘‘ کا طوق آپ کے گلے میں ضرور ڈالا جائے گا۔ ہم نے جماعت اسلامی کی
خستہ معاشی حالت بھی دیکھی ہے اور آج دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح مضبوط
معاشی موقف کی حامل نظر آتی ہے اس کا اسٹائل ’’ہائی فائی‘‘ ہے۔
مسلمانوں کو کل ہند سطح پر ایک مشاورتی مجلس یا گروپ کی جو ضرورت (چاہے وہ
مسلم پرسنل لاء بورڈ پوری کرے یا کوئی اور تنظیم پوری کرے )وہ بے حد ضروری
ہے ورنہ بکھرا اور منتشر مسلم ووٹ بینک مسلمانان ہند کے لئے نقصان دہ ثابت
ہوگا۔
کس کو ووٹ دیا جائے کس کو نہ دیا جائے یہ فیصلہ خاصہ مشکل ہے لیکن اس کے
ساتھ ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے صاف اور
واضح الفاظ میں معاملت کی جائے عام طور پر یہی ہوتا آرہا ہے کہ کوئی بھی
پارٹی اپنے انتخابی منشور میں ا پنی مرضی کے مطابق مسلمانوں کے لئے کچھ
مراعات کا اعلان کردیتی ہے جو بہت زیادہ پرکشش نہیں ہوتی ہیں اور اگر پرکشش
ہوں تو قابل عمل نہیں ہوتیں مثلاً یو پی میں مسلمانوں کو 18فیصد تحفظات
دینے کا سماج وادی پارٹی نے وعدہ کیا جو قطعی ناقابل عمل تھا سماج وادی
پارٹی کے مخالفوں نے اس پر اعتراض تو کیا لیکن شائد ہی کسی مسلمان قائد نے
ملائم سنگھ سے پوچھا ہو کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ مسلمان ووٹوں کے طلب گار
قائدین اور جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں ان باتوں کا ذکر نہیں کرتی ہیں
جو وہ زبانی جمع خرچ میں بیان کرتی ہیں اس لئے کسی انتخابی وعدے کا نہ
بھروسہ ہوتا ہے نہ اعتبار۔
ہم بہر حال انتخابی وعدوں کے بھروسے یا سراب پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ضروری تو یہ ہے کہ پہلے ہم یہ طئے کرلیں کہ ہمیں ملک کی بڑی
سیاسی جماعتوں اور مختلف ریاستوں کی علاقائی جماعتوں سے کیا مطالبہ کرنا
ہے؟ اور کس طرح کرنا ہے؟ یہاں پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کسی مرکزی قیادت سے
محروم مسلمانان ہند کیا کرسکتے ہیں؟ اپنے مطالبات کو مرکزی حیثیت دینے،
مشترکہ ، متفقہ اور متحدہ بنانا ضروری ہے جب ہمارے مطالبات یا مسلمان ہند
کی مشترکہ آواز بن جائیں گے تو ان میں وزن ہوگا ان کو اہمیت دی جائے گی۔
ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم نریندر مودی کی مخالفت میں بھی ایک نہیں ہیں یہ
بات کچھ اس طرح ہے کہ جن ایک دو مسلمان تاجروں یا صنعت کاروں کو نریندر
مودی سے کچھ فائدہ ہوا تو انہوں نے مودی کو مسلمانوں مسیحا ثابت کرنا
(حالانکہ مودی نے ان کی مسیحائی نہیں کی) مودی نے تو ان کو خریدا تھا ان کی
قیمت لگائی تھی ان بکے ہوئے لوگوں نے کچھ اپنے ہم نوا خرید لئے کسی صحافی
نے مودی کا انٹرویو لیا۔ کسی مولوی صاحب نے مسلمانوں کو 2002ء کے گجرات کو
بھلاکر ترقی اور خوش حالی کے لئے جو کام مودی کررہے ہیں ان سے مستفید ہونے
کا مشورہ دیا۔ ہم کو ان مشورہ دینے والوں سے دور رہنا چاہئے۔ بہرحال کسی
طرح بھی ہم کو ایک مشترکہ (حقیقی معنوں میں ) کل ہند پلیٹ فارم بنانا ہے
اور کچھ کردکھانا ہے ۔ مذکورہ بالا گروپ یا پلیٹ فارم بنانا آسان نہیں ہے۔
بڑے کڑے کوس کاٹنا ہے۔ یہ ذکر اگر نکالا جائے تو سننے والے آرام سے کہہ
دیتے ہیں کہ ’’بھائی ایسا ہو نا تو مشکل ہے ایسا کہنے والوں میں ایسے بھی
لوگ ہوں گے جن پر طاری قوم پرستی کا بھوت ان کو مشترکہ قومیت سے ہٹ کر کچھ
سوچنے کی اجازت نہیں دیتا ہے یا پھر وہ لوگ ہوں گے جن کو ان جعلی و نقلی
سیکولرازم مسلمانوں کو اپنی شناخت ، اپنا وجود اپنی ضروریات کے اظہار کی
اجازت نہیں دیتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اکثریت قوم پرستی اور سیکولر ازم
کے سحر میں گرفتار ہو ایسے بھی لوگ ہیں جو سونچتے ہیں کہ مساوی حقوق ظلم
کرنے والے کا ہاتھ پکڑنا ان کا فرض ہے جو ہندوستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر
ہندوراشٹر قرار دینے کی بات کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ اگر ظفر آغا اور جاوید
اختر ہم میں ہیں تو ان کا جواب دینے والے بھی ہم میں کئی اور ہیں۔ اروندھتی
رائے اور سیتاسیتلواڈ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو اﷲ کی
رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ہے اﷲ اس کو مایوس نہیں کرتا ہے۔
2014ء کے پارلیمانی انتخابات ہمارے لئے بہت اہم ہیں ہم کو محدود پیمانے پر
اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے اپنے مطالبات کو متفقہ اور متحدہ بنانا ہے۔
انتخابی وعدوں پر بھروسہ نہیں کرنا ہے اور اپنی شرطوں پر ووٹ کا فیصلہ کرنا
ہے۔ ہر پارٹی سے ہم کو یہ طئے کرنا ہے کہ وہ کتنے مسلمانوں کو ٹکٹ دے گی؟
پارٹیوں کو آمادہ کرنا ہے کہ وہ مسلم حلقوں مسلم ووٹس کی تقسیم کو روکنے
میں تعاون کریں گی نیز کابینہ میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ ہے ایک یا زیادہ
سے زیادہ دو وزرأ سے بات نہیں بنے گی۔ غرض کہ اگر انتخابات کی حد تک
مسلمانوں میں اتحاد ہوجائے تو ہم بہت آگے جاسکتے ہیں ہم کو اپنے قاتلوں کا
نہیں بلکہ خیرخواہوں کا انتخاب کرنا ہے۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں |