قبایلیوں کے دل ودماغ میں پکتا ہوالاوا

پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے "چہ تنگ شی نو پہ جنگ شی" جس کے معنی ہیں کہ اگر کسی کو بہت زیادہ تنگ کیا جاتا ہے تو پھر وہ جھگڑا شروع کردیتا ہے یہ محاورہ ہنگو میں ہونیوالے واقعے کے بعد پیداشدہ صورتحال کے نتیجے میں راقم کے ذہن میں آیا جس میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے علاقے کے غریب اور شریف فرید اللہ خان کی المناک موت کے بعد شہریوں نے احتجاجا گھیرائو جلائو کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ایک طالبان کمانڈر کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اس کے دو بھائی والد اور چچا کو گھر میں زندہ جلا ڈالا- اس اقدا م سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معاشرے کے شریف شہری اگر غلط اقدام کے خلاف ڈٹ جائیں تو پھر وہ نہ وہ طالبا ن سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی سیکورٹی فورسزسے کیونکہ ان کے دل و دماغ سے ہر قسم کا خوف نکل جاتا ہے اور پھر بہت سے ایسے کام ہو جاتے ہیں جس کا تصور بھی عام زندگی میں نہیں کیاجاسکتا-یہی صورتحال اس وقت باڑہ خیبر ایجنسی کے رہائشی لوگوں کی بھی ہے گذشتہ چار سالوں سے اس علاقے میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے لیکن یہ ایسا آپریشن ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا نہ ہی اس علاقے میں صورتحال پرامن بنائی جاسکی ہے لاکھوں کی تعداد میں مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ جلوزئی کیمپ سمیت مختلف علاقوں میں خانہ بدوشوں کی طرح خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں خیبر ایجنسی کے مختلف علاقوں میں تعلیمی ادارے بند ہیں کاروباری مراکز ختم ہوچکے ہیں اور یہاں کے لوگ بد سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کی طرف کسی کا خیال نہیں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قبائلی لوگ اتنے بدقسمت ہیں کہ ان کی بدحالی اور خانہ بدوشوں جیسی زندگی بسر کرنے کے باوجود نہ تو حکومت انہیں کچھ دینے کو تیارہے نہ ہی امدادی ادارے اس طرح مدد کرنے کو تیار ہیں جس طرح باجوڑ ملاکنڈ اور مومند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں کی کی گئی تھی جو جو اپنا گھر بار آپریشن کی وجہ سے چھوڑ کر جلوزئی اور دیگر علاقوں میں آئے تھے حالانکہ خیبر ایجنسی بھی اسی پاکستان کا حصہ ہے اور اس کے قبائل بھی پاکستان سے اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتناکوئی بھی شخصکرسکتا ہے لیکن ان کیساتھ ہونیوالا یہ ناروا سلوک جہاں انہیں اپنے ساتھ زیادتیوں کا احساس دلاتا ہے وہیں پر نئی نسل میں اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں پر نفرت بھی پیدا ہوتی جارہی ہے جو اس وقت تو کسی کو نظر نہیں آرہی لیکن خدانخواستہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر بلوچستان جیسی صورتحال اس علاقے میں بھی پیدا ہوگی اور اسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا-

قبائلی علاقوں میں حالات کو کنٹرول کرنے والی پولٹیکل انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے مال کمائو پالیسی کی وجہ سے پولٹیکل ایجنٹ اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ تحصیلدار روزانہ لاکھوں روپے حرام کی مد میں کما رہے ہیں پولٹیکل انتظامیہ کے واقف حال ایک ذریعے کے مطابق صرف خیبر ایجنسی کی پولٹیکل انتظامیہ کو روزانہ لاکھوں روپے سرحد پار کرنے والی گاڑیوں سے مل رہے ہیں انتظامیہ وصول ہونیوالی ان رقوم کو کس طرح استعمال کررہی ہے اس کا حساب وہ کسی کو دینے کو تیارنہیں امن وامان کی بحالی انہی کی ذمہ دمہ داری ہے لیکن حال یہ ہے کہ ایک ہفتہ قبل کارخانو چیک پوسٹ سے آگے قبائلی علاقے میں سڑک کنارے نامعلوم مسلح افراد نے خاصہ دار کمانڈر پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے دوسرے روزتحصیلدار نے پولٹیکل انتظامیہ خیبر ایجنسی کے حکم پر کارخانو چیک پوسٹ سے لیکر جمرود تک ایک ہزار کے قریب دکانیں سیل کردیں اور احکامات جاری کردئیے کہ جب تک قبائلی ذمہ داری کے تحت واقعہ میں ملوث افراد کو پولیٹکل انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا جاتا اس وقت تک دکانیں بند رہیں گی اور جو ان احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا - اپنے احکامات کوآسمانی احکامات سمجھنے والی پولٹیکل انتظامیہ کے اس اقدام کے بعد ایک ہزار کے قریب دکانیں گذشتہ ایک ہفتے سے بند پڑی ہیں اور چھوٹے تاجروں سے لیکر بڑے تاجرتک سب متاثر ہورہے ہیں کیونکہ کارخانے ان کے علاقے میں موجود نہیں رہ گیا تجارت کا ایک وسیلہ اسے بھی ڈکٹیٹرزشپ کی طرزپر پولٹیکل انتظامیہ خیبر ایجنسی نے بند کردیا اب ان ایک ہزار دکانوں کے مالکان کیا کریں گے یہ ایسا سوال ہے جو نہ تو پولیٹکل انتظامیہ دینے کو تیار ہے اور نہ ہی وفاق کی جانب سے ان کی محکوم بنائے گئے قبائلی کیا ان دکانداروں کے خاندان سانپ کی نسلسے ہیں کہ مٹی کھا کر زندگی گزاریں گے ان کی ضرورتیں کسی کو نظر نہیں آتیں - اب اگر ان حالات میں یہ لوگ دہشت گردی کی طرف مائل نہیں ہونگے تو پھر وہ کیا کرینگے-

ویسے اس صورتحال میں مقامی تاجروں کا یہ موقف بھی زبردست ہے کہ آخر کار پولٹیکل انتظامیہ خیبر ایجنسی کس مرض کی دوا ہے امن و امان کے قیام کی ذمہ داری حکومت کا کام ہے یا قبائل کا کیونکہ بقول ان قبائلیوں کے سرکار سے لاکھوں روپے تو یہ لوگ تنخواہوں کی مد میں وصول کرتے ہیں لیکن امن وامان کی بحالی کیلئیانہیں علاقائی ذمہ داری کے نام پر رگڑا دیا جاتا ہے -سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اپنے آپ کو ریاست کا چوتھا اہم ستون قرار دینے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے جن کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے اس صورتحال پر خاموش بیٹھے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کو ماہانہ بھتے پولٹیکل انتظامیہ کی جانب سے ملتے ہیں تو کئی نے پولٹیکل انتظامیہ کیساتھ مل کر خاصہ دار مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات کردئیے ہیں جن سے ان کی ہزاروں کی آمدنی ہورہی ہے اور وہ حرام کی اس کمائی اور بھتے سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے کچھ شریف قسم کے صحافی بھی ہیں لیکن انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ پولٹیکل انتظامیہ انہیں خبر چلوانے کے بعد کسی کھاتے میں دھر نہ لیں کیونکہ چالیس ایف سی آر کا قانون تو پولٹیکل انتظامیہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے سو اس صورتحال میں وہ کچھ کر نہیں سکتے ہاں اب تبدیلی کا نعرہ لگاکر آنیوالوں سے امید ہی کی جاسکتی ہے کہ کچھ تبدیلی لیکر آئیں کہ پاکستان کا ہر شہری خواہ اس کا تعلق قبائلی علاقے سے ہو یا اسلام آباد سے اگر انہیں تبدیلی محسوس ہوئی تو پھر تو حالات ٹھیک ہونگے ورنہ دوسری صورت میں اگر آج ہنگو میں کرفیو نافذ کرکے امن لانے کی کوشش کی جارہی ہیں اسی طرح پورا ملک کرفیو زدہ ہوگا اور حالات پھر بھی کنٹرول نہیں ہونگے اور پھرنہ کوئی طالبان بچے گا نہ بیورو کریسی نہ ہی لیڈر سب کاایک ہی حال ہوگا-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 591 Articles with 434669 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More