11مئی کو ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں یہ بات واضح
ہوچکی ہے کہ مرکز اور پنجاب میں ن لیگ ہی کی نئی حکومت بنے گی جبکہ خیبر
پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی ممکنہ اتحادی حکومتوں میں اُس کا حصہ
ہوگا۔اگرچہ الیکشن سے قبل پاکستان کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کا ایک مخصوص
حصہ عمران خان سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھا تھا تاہم لوگوں کی ایک بڑی
تعداد نواز شریف سے بھی کچھ توقعات لگائے بیٹھی تھی ایسے لوگوں کا خیال ہے
کہ نواز شریف اپنے پرانے تجربات کی بنا پر بہتر حکمران ثابت ہوگا۔انہی
توقعات کا پروفیسر ساجد میر نے نوازشریف کو لکھے ایک تہنیتی خط میں یوں ذکر
کیا کہ امید ہے کہ نوازشریف ملک کو امریکی غلامی اور لوڈشیڈنگ سے نجات
دلائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ نئی حکومت نوازشریف کی سربراہی میں اِن توقعات
پر پورا اُتر پائے گی یا نہیں؟اِس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جہاں تک اِس بات
کا تعلق ہے کہ نئی آنے والی حکومت ایسی خارجہ پالیسی اپنائے جو ملکِ
پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکال پائے تو اِس کے لیے سب سے پہلے ڈرون
حملوں کو روکنا ہوگا کہ جن کے اندر ہزاروں بے گناہ امریکی جنگ کی بھینٹ چڑھ
چکے ہیں دوسرا ملک بھر میں پھیلے ہوئے بلیک واٹر اور امریکی سی آئی اے کے
نیٹ ورک کو ملک سے بے دخل کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے دونوں معاملات میں ریڈیکل سوچ
اپنانے سے امریکہ خوش نہیں ہوگا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کے
ابتدائی بیانات سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ امریکہ کی ناراضی مول لینے کے موڈ
میں ہوں۔ چنانچہ اپنی جیت کے فوراً بعد مغربی اخبار ’سنڈے ٹیلی گراف‘ کو
انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے مغربی حکومتوں کو اِس بات کی یقین دہانی کرائی
کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جاری جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے گے اُن کا
کہنا تھا کہ انہیں امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور آگے مزید اُس
کے ساتھ مل کر کام کرنے میں خوشی ہوگی۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے
نام پر امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر پاکستان کام کرتا رہے گا، تو
جو لوگ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ نئی آنے والی حکومت ملک کو امریکی غلامی
سے نجات دلائے گی تو اُنہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ نئی حکومت کا ایسا کوئی
ارادہ نہیں۔اور جہاں تک لوڈ شیڈنگ سمیت انرجی کے دوسرے مسائل کے حل کا
معاملہ ہے تو یہ مسائل پاکستان میں اِس وجہ سے نہیں ہیں کہ یہاں وسائل کی
کمی ہے بلکہ اِن مسائل کاتعلق براہِ راست بین الاقوامی استعماری معاشی
اداروں کی مداخلت ہے مثال کے طور پر کبھی یہ بحث تھی کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ
نئے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سپلائی ڈیمانڈ سے کم ہوتی ہے
جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا عذاب لوگوں کو سہنا پڑتا ہے تاہم اب یہ بات واضح
ہوچکی ہے کہ پاکستان میں انسٹالڈ کپیسٹی پاکستان کی ضروریات کو پوری کرنے
کے لیے کافی ہے لیکن سرمایہ دار پرائیویٹ کمپنیاں منافع زیادہ کمانے اور
بقایہ جات حاصل کرنے کی خاطر بجلی پیدا ہی نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب
الیکشن کے دنوں میں بجلی کی مکمل ترسیل کرناچاہی تو یہ باآسانی ممکن ہوگیا۔
انرجی بحران کی اصل وجہ پاکستان میں سرمایہ دار پالیسیوں کا نفاذ ہے وہ
پالیسیاں جو آئی ایم ایف اور دوسرے استعماری ادارے قرض دیتے ہوئے اپنی
شرائط کے ذریعے نافذ کرواتے ہیں۔ اور اِس معاملے میں نواز شریف واضح کرچکے
ہیں کہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے قرض لینے میں اُنہیں کوئی اعتراض
نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک بدستور اِن اداروں کے چنگل میں گرفتار رہے
گا اور آنے والے دنوں میں شاید فوری پیمنٹ کے نتیجے میں کچھ گھنٹوں کی
لوڈشیڈنگ کم ہوجائے تاہم بجلی اور آئل کی مصنوعات میں مہنگائی کا عالم جاری
رہے گا، چنانچہ وہ لوگ جو یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انرجی بحران سے نجات
نئی حکومت میں ممکن ہے تو ایسی توقع کرنا عبث ہے کیونکہ نئی حکومت استعماری
اداروں کو ملک بدر کرنے کی بجائے اُنہیں گلے لگانے کی تیاری کررہی ہے۔
الیکشن نتائج اِس طرح کے ہیں کہ نواز حکومت سابقہ حکومت کی تمام پالیسیاں
جاری رکھے گی اور آئندہ آنے والے پانچ سالوں میں اِس بات کا رونا روتی رہے
گی کہ مکمل مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اُسے وہ تمام قبیح کام کرنے پڑرہے ہیں
جن کی وجہ سے پاکستان کے لوگ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہورہے ہونگے۔
مندرجہ بالا بحث تو صرف خارجہ اور معیشت کے حوالے سے تھی تاہم یہی معاملہ
باقی تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق بھی ہوگا۔ چنانچہ ہمیں یہ توقع نہیں
کرنی چاہیے کہ انگریز کا دیاہوا عدلیہ کا نظام تبدیل کرکے اسلام کے عدالتی
نظام کو رائج کردیا جائے گا یا پھر پاکستان کا تعلیمی نظام اسلام کے تعلیمی
نظام سے بدل دیا جائے گا، یا پھر معاشرتی لحاظ سے ایسا سکون ہوگا کہ ہماری
مائیں بہنیں مکمل تحفظ سے گھر سے باہر نکل سکیں گی۔ اِن سب نظاموں میں
تبدیلی نہ آنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کے چہرے تبدیل
ہوئے ہیں جبکہ نظام وہی سرمایہ دارانہ ہی ہے جو انگریز جاتے ہوئے دے کر گیا
تھا۔ اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بلند کرتے ہوئے سرمایہ
دارانہ نظام کی حقیقت کو سمجھیں کہ جس کی ظاہری شکل آمریت کی ہو یا پھر
جمہوریت کی دونوں میں عوام کے حصے میں مسائل ہی آتے ہیں اور ایک مخصوص طبقہ
معاشرے کے تمام وسائل ہڑپ کررہا ہوتا ہے۔ تو پھرکیوں نہ ایک ریڈیکل سوچ
اپنائیں اور پاکستان میں آمریت یا جمہوریت کی بجائے خلافت کا نظام نافذ
کردیا جائے؟ |