لیاری کی کچھی برادری پر ظلم کی تاریک و سیاہ رات

کراچی شہر مختلف قومیتوں کا ایک ایسا خوب صورت گلدستہ ہے جس کی مثال بہت کم کسی دوسرے ملک میں پائی جاتی ہے ۔خاص طور پر کراچی شہر میں آباد تاریخی قومیت سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں افراد آباد ہیں ۔اسی طرح کراچی کے مختلف علاقے مخصوص قومیتوں کی وجہ سے ایک خصوصی امتیاز بھی رکھتے ہیں ، جس کی بنا ءپر ان کی شناخت با آسانی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پرپٹھان کالونی ، قیام پاکستان سے قبل آباد پختونوں کا مسکن ہے ، جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک اسی طرح قائم و دائم ہے۔ پٹھان کالونی جو بڑھتے بڑھتے فرنٹیئر کالونی ، بنارس کالونی ،میٹرول،، رشید آباد ، بلدیہ ، اتحاد ٹاﺅن، شیر شاہ ، میراں ناکہ ، آگرہ تاج کالونی ،پیر آباد ، دیر کالونی، قصبہ اسلامیہ کالونی ، عثمان غنی کالونی ، عمر فاروق کالونی ، اجمیری نگری سے ہوتے ہوئے پختون آباد اور سلطان آباد تک پھیلتا چلا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں رہنے والے پختون لاکھوں کی تعداد میں تبدیل ہوگئے اور ان پر مختلف سیاسی جماعتوں نے پختون قوم کے نام پر سیاست کرتے ہوئے اپنے آپ کو اقتدار تک جا پہنچایا لیکن ان کے مسائل حل کرنے میں اس لئے ناکام ہوئے کیونکہ ان کی تمام تر سیاست کا محور صرف ، قومیت کے نام پر کراچی میں سیاسی اجارہ داری کو قائم کرنا اور لسانیت کی نفرت بھری آگ کو ہوا دینا تھا۔کراچی میں پختون لانڈھی ، شیرپاﺅ، کورنگی بلال کالونی ، اسٹیل ٹاﺅن،سہراب گوٹھ ، کیماڑی سمیت مزید کئی علاقوں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں ، لیکن پٹھان کالونی اپنی ایک شناخت کی وجہ سے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی کراچی میں سندھی، بلوچ اور کچھیوں کےلئے لیاری اہمیت رکھتا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ لیاری کا جب نام آتا ہے تو گینگ وار کا واضح تاثرسامنے آجاتا ہے کہ لیاری کا نام ہی جیسے گینگ وار ہو ،یہ درست ہے کہ لیاری دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں وہی حیثیت رکھتا ہے جیسے کواری کالونی ، پختون آباد ، سلطان آباد یا سہراب گوٹھ کے بعض علاقے عسکرےت پسندوں کےلئے محفوظ پناہ گائیں ہیں جنھیں مختلف سیاسی جماعتوں کا مختلف ادوار میں آشیر باد حاصل رہا اور جب ان کے لگائے ہوئے پودے تنا ور درخت بن گئے تو ان کی لگائی ہوئی فصل ، آج کی نسل کاٹنے میں مصروف نظر آتی ہے۔لیاری بھی اپنی ایک مخصوص شناخت رکھتا ہے اور اس تاریخی قدیم علاقے کو ہمیشہ پیرس بنانے کے دعوے کے پُر فریب نعروں میں رکھ کر پورے علاقے کی حالت زار اس قدر قابل رحم بنا دی گئی کہ لیاری میں رہنے والی دیگر قومیتوں کی جانب کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔لیاری کے حوالے سے میڈیا میں عمومی طور پر گینگ وار کے حوالے سے کالعدم امن کمیٹی کا نام سامنے آتا ہے جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور اس بار جیسے ہی پی پی پی سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو حلف اٹھاتے ہی سب سے پہلے لیاری کے اُن افراد کے عشائیے میں شرکت کی جن پر اپنے سابق دور میں سر کی قیمت لگاتے رہے اور دن رات ان پر آپریشن کے نام پر نام نہاد آپریشن کرتے رہے ، جس سے تنگ آکر لیاری کی عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج بن جاتی تھی۔لیکن یہ بھی سیاست کی بڑی مقدس مفاہت تھی کہ لیاری کے نامور افراد جنھیں پی پی پی کے حکومت نے سندھ کے سب سے بڑے جرائم پیشہ گروہ سے تعبیر کرکے ان کی تنظیم کو کالعدم قرار دیکر ان کے سربراہ رحمن بلوچ(ڈکیٹ) کو مار ڈالا تھا ، اب اسی کی تصویر کے آگے اُس کی مغفرت کی دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔لیاری میں ایک طرف ایم کیو ایم کے ساتھ امن کمیٹی کا تصادم رہا جس کی وجہ سے سندھ حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ ، حکومت میں شامل اور روٹھ جانے کا عمل بھی شامل تھا ، اس نے اتنی سنگین صورتحال اختیار کرلی کہ جب پی پی پی نے امن کمیٹی کے رہنماﺅں کے سر قیمت واپس لینے اور ان کے کیس واپس لینے کا سلسلہ شروع کیا تو ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی اور اپوزیشن میں جا بیٹھی ، اور اب جیسے ہی حکومت بنی پی پی پی نے فوری طور پر امن کمیٹی کے عشائےے میں شرکت کرکے ایم کیو ایم کو واضح پیغام دے دیا کہ انھیں کراچی میں امن کمیٹی کی خوشنودی زیادہ عزیز ہے۔میڈیا کی جانب سے لیاری کے حوالے سے جہاں گینگ وار اورپولیس رینجرز کا تنازعہ دیکھایا جاتا رہا تو میڈیا نے لیاری میں آباد سب سے بڑی قدیم آبادی کچھی برادری کو بُری طرح نظر انداز کردیا۔لیاری میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں کچھی برداری سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔کچھیوں نے اپنے حقوق کےلئے کچھی رابطہ کمیٹی کے نام سے پُرامن جدوجہد کا آغاز کیا ۔کیونکہ لیاری میں رہنے کی وجہ سے انھیں مخصوص سوچ کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا تھا ، اس لئے انھوں نے جب اپنے حقوق کےلئے آواز بلند کی تو ان کے سرکردہ رہنماﺅں کا نہ رکنے والی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔بنیادی طور پر کچھی برادری مزدور پیشہ ، ماہی گیری،ٹرانسپورٹ کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ان کی آبادی آگرہ تاج کالونی، ہنگورہ آباد سے لیکر لی مارکیٹ تک آباد ہے جبکہ لیاری کے علاوہ ان کی بڑی تعداد ملیر کے علاقوں میں بھی رہتی ہے۔تاہم لیاری اپنی قدیم ثقافت کی بنیاد پر کچھی برادری کےلئے ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس لئے جرائم پیشہ افراد نے انھیں بھی کراچی کی دوسری قومیتوں کی طرح جوتے کی نوک پر رکھنے کےلئے ظلم کا بازار گرم کیا اور گذشتہ دن یہ افسوس ناک خبر منظر عام پر آئی کہ لیاری میں آباد کچھی برادری کے گھروں پر جرائم پیشہ گینگ وار کے لوگوں نے اسلحے کے زور پر قبضے شروع کردئےے ہیں اور کچھیوں کو لیاری اور اُس کے ملحقہ علاقوں سے بیدخل کیا جارہا ہے۔کراچی جیسے اہم شہر میں جہاں دیگر شہر سے آنے والے رزق کے حصول کےلئے بستے ہیں اور اپنے خاندانوں کے لئے رزق حاصل کرتے ہیں ، اسی شہر میں کراچی کی سب سے قدیم آبادی کے مستقل شہریوں اور لیاری کے وارثوں کو بیڈل کئے جانا ، ایسا روح فرسا واقعہ ہے ، جس نے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کردی ہے۔کچھی برادری کی جانب سے کراچی پریس کلب ، ماڑی پور روڈ ، وزیر اعلی ہاﺅس سمیت اہم اداروں کے سامنے احتجاج نئی نات نہیں ہے ، کچھی برادری کی جانب سے اپنی قوم پر ہونے والے ظلم کی داد رسی نہ کرنے پر گریہ و ماتم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ لاکھوں افراد کےلئے زندگی کی بنیادی سہولتیں کا حصول اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ان کےلئے سٹی گورنمنٹ کی جانب سے قائم ایک 20بستروں کا ہسپتال پر بھی اینٹی نارکوٹکس نے آفس قائم کرکے علاقے کی واحد سہولت سے محروم کردیا ہے ۔ گذشتہ دنوں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماسٹر رمضان دہشت گردوں کی اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنے ، علاقے میں طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بروقت ہسپتال نہ پہنچنے پر راستے میں ہی ہلاکت ہوگئی ، اسی طرح کچھ برادری کے علاقوں میں قائم اسکولوں میں فائرنگ کرکے اتنا خوف پیدا کردیا گیا ہے اب وہاں کوئی اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کےلئے بھیجنے کا تصور نہیں کرسکتا ۔لیاری میں جرائم پیشہ عناصر سے خوف کی بنا ءپر کچھی برداری کو میڈیا مناسب رپورٹ نہیں کرتا جس کی وجہ سے کچھی برادری میں احساس محرومی ہے اور اب کچھی برداری کے نوجوان بچے اور عورتیں ، بزرگ مرد اپنے گھر اور عزت کی حفاظت کےلئے مسلح جدوجہد کی جانب راغب ہو رہے ہیں جس کے نتائج کراچی اورکراچی سے وابستہ پاکستان کےلئے انتہائی تباہ کن ہونگے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 669096 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.