وزیر اعلی اور اُردو ۔۔۔۔۔۔۔ایک عجیب ستم ظریفی

منگل کو بڈگام میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ جناب عمر عبداللہ نے پہلی دفعہ اُردو پر لب کشائی کرتے ہوئے اُردو کو ایک میٹھی زبان قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے سیٹلائیٹ کیمپس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ اُردو کو کسی ایک مذہب سے جوڑنا سراسر ناانصافی ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ اُردو سے نا بلد ہیں کیونکہ ان کے پاپا نے انہیں پانچویں جماعت تک ہی اُردو پڑھائی اور اس کے بعد ہندی اور یوں نہ وہ اُردو کے رہے اور نہ ہندی کے۔ اُردو ریاست کی سرکاری زبان ہے اور اس کے جانے بغیر ریاست میں سرکاری ملازمتوں میں امیدواروں کو بھرتی ہی نہیں کیا جاتا ہے۔

وزیر اعلیٰ صاحب کا اُردو سے متعلق دیا ہوا پہلا باقاعدہ بیان اس لئے اُردو والوں کے لئے اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ اس قسم کے بیانات پورے ہندوستان میں آئے دن سیاست داں دیتے رہتے ہیں۔ اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اُردو نہ صرف ایک میٹھی زبان ہے بلکہ ایک تہذیب یافتہ زبان بھی ہے جس میں نہ صرف پورے ہندوستان کا مشترکہ کلچر موجود ہے بلکہ یہ ہماری ریاست کی آئینی زبان بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے اُردو کی تعریف تو کی لیکن اس بات کا شاید اُن کو علم نہیں ہے کہ ہماری ریاست میں ڈوگرہ حکمرانوں نے اس زبان کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی ہے وہ ریاست کی سالمیت کے زبردست حامی تھے اسی لئے انہوں نے اس زبان کو فروغ دینے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی ۔ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کی اگر ریاست کو متحدد رکھنا ہے تو اُردو کو فروغ دینا بہت ضروری ہے اس لئے ۹۸۸۱ءمیں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اُردو کو اس ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ آزادی کے بعد جمہوری حکومتوں نے اس زبان کا استحصال طرح طرح سے کیا اور موجود مخلوط سرکار وزیر اعلیٰ کی نگرانی مین اسکا جنازہ نکالنے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے۔ موجودہ سرکار کے وزیر نہ صرف حلف برداری کی تقریب میں سرکاری زبان کی بے حرمتی کرتے ہیں بلکہ اسکولوں میں اُردو اساتذہ کا تقرر نہ کرکے نئی نسل کو اُردو سے بے بحرہ کررہی ہے جو وزیر اعلیٰ اپنی ہی سرکاری زبان سے نا بلد ہو اُسے وزیر اعلیٰ رہنے کا کوئی حق ہی نہیں رہتا ہے۔ ذرا سوچئے وزیر اعلیٰ کے پاس اگر کوئی درخواست اُردو میں جاتی ہوگی اُسکا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ عمر صاحب کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے سبق سیکھنا چاہئے جنھوں نے چند سال پہلے اُن فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کردیے جو سرکاری زبان میں نہیں تھیں۔ وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بھی بے بنیاد ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں اُردو جاننے والے امیدواروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کتنا بڑا چھوٹ بول رہے ہیں وزیر اعلیٰ صاحب سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے محکمہ مال، محکمہ پولیس اور محکمہ جنگلات میں اُردو کو ختم کرکے بدیسی زبان کو رائج کردیا ہے۔ عدالتوں سے اُردو غائب ہوگئی سرکاری دفاتر کے سائن بورڈ اُردو کے بجائے ہندی اور انگریزی میں تحریر کئے گئے ہیں ۔ ائرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن پر اُردو کسمپرسی کی حالت میں ہے، سکٹریٹ میں اُردو کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ نائب تحصیلدار اور پٹواریوں کی بھرتیاں ، سائینس اسٹریم سے ہورہی ہیں پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں سرکاری ملازمتوں میں اُردو امیدواروں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب مت لیجئے جھوٹ سے کام اور مت بنائےے عوام کو بیوقوف مانا کہ آپ اُردو سے نا بلد ہیں لیکن آپ کے دادا جان اور آپ کے والد محترم تو اس زبان سے واقف تھے پھر اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کیا کیا ریاست کی سرکاری زبان کو فروغ دینے کے لئے۔ آپ کے والد محترم نے اُردو اکیڈمی قائم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا پھریہ اکیڈمی کیوںقائم نہیں ہوئی آپ کی حکومت نے بھی سرکاری زبان کے فروغ کے لئے کمیٹیاں تشکیل دئیں پھر کیوں اُن کی رپورٹوں کو ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا گیا۔ اُردو والے چیختے رہے چلاتے رہے کہ ریاست میں راشن کارڈ اب اُردو کے بجائے ہندی اور انگریزی میں شایع کئے جارہے ہیں لیکن آپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسمبلی میں مختلف ممبران نے متعدد دفع اُردو زبان کے فروغ کے لئے آوازیں بلند کیں۔ اگر اُردو واقعی میٹھی زبان ہے تو آپ ان آوازوں پر خاموش تماشائی کیوں بیٹھے رہے۔ ہماری ریاست کے گورنر 26جنوری کے دن اپنی تقریر اُردو میں تحریر کرتے ہیں اور 15اگست کو وزیر اعظم صاحب لال قلعہ کی فصیل سے شُد اُردو میں تقریر کرتے ہیں آپ ایسا کرنے سے خود کیوں کتراتے ہیں۔ اُردو میں نہیں تو رومن میں اپنی اُردو تقاریر آپ تحریر کرسکتے ہیں ایسا کرنے سے آپ کیوں قاصرہیں۔

خوشی ہوئی آپ نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے اُردو سیکھنے کے لئے یونیورسٹی میں اردو سیکھنے کی درخواست کی ہے حالانکہ آپ کا فرض تھا کہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے آپ زبان کو سیکھتے۔ خیر دیر آئددرست آیدآپ نے وائس چانسلر سے درخواست تو کی لیکن کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ اس زبان کو سیکھ سکھیں آپ اپنے سکٹریٹ کے آئی ۔اے۔ایس اور کے۔اے۔ایس آفیسرز کو اُردو سیکھنے کے لئے داخلہ دلواتے تو اچھا ہوتاکیوں کہ یہی آفیسر صاحبان اُردو کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔ اگر یہ اُردو سیکھ جاتے ہیں تو آپ کوسیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہی آفیسر صاحبان تو آپ کی سرکا کو چلاتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور کیجئے کہ اُردو میں اپنے دستخط کرنا ضرور سیکھئے کیونکہ آپ کو تو صرف فائلوں پر دستخط کرنے ہوں گے۔

بڈگام میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ صاحب نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ ہماری ریاست میں اُردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کا یہ بیان اسلئے سراسر غلط ہے کیونکہ ہماری ریاست میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے ادیب و شاعر اس زبان کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ اُردو ہماری ریاست کی رابطے کی زبان بھی ہے جو اس ریاست کے تینوں خطوں کو ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کے کارندے اُردو کو فروغ نہ دے کر خود ان فرقہ پرستوں کے جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو ریاست کی تقسیم لسانی اور مذہبی بنیادوں پر چاہتے ہیں ایسا کرکے حکومت خود اُردو کو ایک خاص مذہب تک محدود کررہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب زمینی حقایق کو سمجھ کر عملی طور پر سرکاری زبان کے حقوق کو ریاست میں جلد از جلد بحال کریں۔ صرف اُردو کا قصیدہ پڑھنے سے کچھ ہوئے والا نہیں ہے کیونکہ آئے دن یہ قصیدے سن کر اب اُردو داں طبقہ تنگ آچکا ہے۔

Professor Shohab Inayat Malik
About the Author: Professor Shohab Inayat Malik Read More Articles by Professor Shohab Inayat Malik: 7 Articles with 3775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.