عمران خان ۔۔۔۔ کرکٹ سے سیاست تک

دنیا ئے کرکٹ میں اپنی جارحانہ گیندبازی اور دھواں دھار بلے بازی کی وجہ سے پاکستانی آل راؤنڈر عمران خان نے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اُنہیں کرکٹ کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کے اس عظیم کرکٹر نے تقریباً ہر کرکٹ کھیلنے والے ملک کے ساتھ ٹیسٹ اور ونڈے میچز کھیل کر اپنی بلے بازی اور گیند بازی کی وجہ سے پاکستان کو کئی دفعہ سے جیت سے سر فراز کرایا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مخالف ٹیم کے کئی دفعہ چھکے چھڑائے ہیں نا ممکن کو ممکن بنایا ہے۔ پاکستان کا یہ تیز گیند باز جب گیند بازی کرتا تھا تو مخالف ٹیم کے اکثر بلے باز اس رفتار کی گیند کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے اور جب یہی تیز رفتار گیند باز جب دھواں دھار بلے بازی کرتا تھا تو چھکوں اور چوکوں کی بارش کرکے رنوں کے ڈھیر لگا دیتاتھا۔ پاکستان کا یہ مائیہ ناز کرکٹر اپنے کرکٹ کے کیرئیر میں نہ صرف ہزاروں رن بنا چکا ہے بلکہ سینکڑوں وکٹ بھی اپنی جھولی میں ڈال چکا ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی عمران خان نے متعدد دفعہ قیادت کی ہے۔ بحیثیت کپتان انہوں نے 1992ءمیں پاکستان کو عالمی کرکٹ کپ سے بھی سرفراز کرایا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں عمران خان کے لاکھوں شیدائی موجود ہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی عمران خان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں جب وہ لاہور میں ایک حادثے کا شکار ہوکر شدید طور پر زخمی ہوئے تو دنیا کے کونے کونے سے ان کے مداحوں نے ان کی صحت یابی کے لئے خصوصی دعائیں مانگیں ۔ پاکستان کے اکثر نوجوان کرکٹر عمران خان کو اب بھی اپنا آئیڈیل مانتے ہیں ۔ پاکستان کے مشہور شہر میاںوالی میں پیدا ہوئے عمران خان ہمت اور استقلال کا ایک مجسمہ ہیں۔ بحثیت کپتان انہوں نے ہر نئے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ہمت نہ ہارنے کی ہمیشہ ترغیب دی۔ عمران خان کی ہمت اور استقلال کی تعریف دنیا کے اکثر بڑے کرکٹر اب بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے مائیہ ناز بلے باز اور سابقہ کپتان جاوید میاں داد کا کہنا ہے کہ عمران کے ساتھ انہوں نے اکثر کرکٹ کھیلی ہے وہ نہ صرف نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے بلکہ جب ٹیم مشکلات میں ہوتی تھی تو ہمت کا درس بھی دیتے تھے۔ ان کی اس ہمت نے پاکستانی ٹیم کو کئی میچوں میں سرخرو کیا ہے۔ وہ جب کرکٹ کھیلتے تھے تو پورے جذبے کے ساتھ پاکستان کے لئے کھیلتے تھے اور اس ملک کی فتح کے لئے سر توڑ کوشش کرتے تھے۔ پاکستان کے سابقہ کرکٹر اور گوگلی گیند باز عبدالقادر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پاکستانی کرکٹ کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ہیں ۔ ان میں ایک اچھے کپتان کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کے دل میں پاکستانی قوم کا گہرا درد بھی موجود ہے۔

عمران خان نے جب تک کرکٹ کھیلی پورے جوش و جذبے کے ساتھ قوم کی امیدوں پر اُترے۔ پاکستان کے بہت سے نئے گیند بازوں نے عمران خان بننے کی متعدد کوشش کی لیکن اب تک کوئی بھی گیند باز عمران خان کے مرتبے کونہیں پہنچ سکا۔

کرکٹ سے سبکدوشی کے بعد عمران خان سیاست میں کود پڑے اور تحریک انصاف پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اسکا مقصد ایک نئے پاکستان کی بنیاد ڈالنا تھا کیوں کہ عمران خان کے مطابق پاکستانی سیاست داں مختلف طریقوں سے پاکستان کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔ ملک مقروض ہوکر رہ گیا ہے۔ امریکہ کی دخل اندازی اور رشوت خوری نے پاکستان کو مالی اقتصادی اور معاشی اعتبار سے تباہ وہ برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان ہی چیزوں کو عمران خان نے اپنی پارٹی کا منشور بنا کر ان بدعتوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔ 2008ءکے پاکستانی انتخابات میں تحریک انصاف نے متعدد حلقوں سے امیدوار کھڑے کرکے الیکشن میں حصہ تو لیا لیکن چوں کہ ان کی جماعت ابھی نو زائیدہ تھی اس لئے اس الیکشن میں وہ کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکی لیکن عمران خان نے ہمت نہں ہاری۔ وہ پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے اور زیادہ کام کرتے گئے اورا س طرح انہوں نے پورے ملک میں چوٹی کے بعض رہنماﺅں کو تحریک انصاف پارٹی سے جوڑ کر اس پارٹی کے منشور کو عام لوگوں تک پہنچایا اور یوں عوام تحریک انصاف سے جڑتے گئے۔ اسی دوران پاکستان میں عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کرکے نہ صرف ایک عظیم کام کیا بلکہ عوام کے دلوں میں گھر بھی کرلیا۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا کینسر ہسپتال ہے جسے عمران خان نے کرکٹ میں کمائے ہوئے پیسوں سے تعمیر کیا۔ اس ہسپتال کے لئے عمران خان کو چندہ بھی جمع کرنا پڑا۔ یہ ہسپتال انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر تعمیر کرایا جو خود اس مہلک بیماری میں مبتلا رہ کر اپنی جان گنوابیٹھیںتھیں۔ ہسپتال تعمیر ہونے کے بعد عوام میں عمران خان کی ساکھ ایک سماجی کارکن کی بھی بن گئی اس کے علاوہ عمران نے ملک اور بیرون ملک متعدد سماجی کاموں میں حصہ لے کر اپنی پہچان ایک سماجی کارکن کی بھی بنالی اور یوں تحریک انصاف بھی پاکستان کے طول و عرض میں مقبول ہوتی گئی۔ حالیہ پاکستانی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ایک تحریک بن کر ابھری اس جماعت کو تحریک بنانا عمران کے سر ہی جاتا ہے۔ جنھوں نے ہمت اور جرت کے ساتھ پاکستان کے کونے کونے میں انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ان کی ہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف سات دنوں میں انہوں نے 62انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خان میں تحریک انصاف نے کثیر تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑا۔ عمران نے ووٹروں کی ایک کثیر تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے انتخابی طوفان کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) بھی بھوکھلاٹ کا شکار ہوگئی اور انہوں نے عمران خان کو عیسائی ایجنٹ بھی قرار دیا اس کے باوجود وہ گھبرائے نہیں وہ عوام میں جاتے رہے اور ان میں اپنی بات پہنچاتے رہے۔ الیکشن سے چند روز قبل وہ لاہور کی غالب مارکیٹ میں سٹیج پر جاتے ہوئے لفٹر سے نیچے گر کر شدید طور پر زخمی ہوگئے انہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال میں علاج کے لئے داخل کردیا گیا۔

ان کی ہمت اور استقلال کا جذبہ دیکھئے کہ بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے الیکشن مہم جاری رکھی اور ویڈیو کے ذریعے سے عوام کو خطاب کرتے ہوئے نیا پاکستان کی تعمیر کے لئے تحریک انصاف کے لئے ووٹ مانگتے رہے۔ عمران کی سیاسی مقبولیت اسقدر بڑھ چکی تھی کہ زخمی ہونے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ شوکت خانم کینسر ہسپتال پہنچ کر ان کی صحت یابی کے لئے دعاکرتے رہے۔ دنیا بھر میں ان کے مداحوں نے ان کے لئے خصوصی دعائیں کی۔ یہاں تک کہ نواز شریف نے بھی ایک دن کے لئے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں ملتوی کردیں۔ شہباز شریف عیادت کے لئے ہسپتال گئے۔ یہ سارے واقعے اس بات کا عندیہ پیش کررہے تھے کہ عمران واقعی کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے جارہے تھے۔

11مئی کو انتخابات کے بعد جب نتائیج آنا شروع ہوئے تو تحریک انصاف پنجاب میں بڑی اپوزیشن جماعت بن کر اُبھری ۔ عمران نے اپنی شکست تو تسلیم کی لیکن ساتھ میں انتخابات میں زبردست دھندلیوں کا الزام بھی لگا دیا جس کے خلاف پورے پاکستان میں تحریک انصاف کے کارکنان نے مظاہرے اور دھرنے دئے۔ اُدھر خیبر پختون خان میں تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب کو سیاسی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ صوبہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ مانا جاتا ہے اور اس کے قائد نواز شریف کو شیر ِ پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ اسی پنجاب میں اپوزیشن جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا ابھرنا مستقبل میں نواز شریف کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ادھر بحثیت سیاست داں عمران خان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خیبر پختون خان میں جھنڈا گاڑنے کے بعد عمران باہمت سیاست داں کی طرح اپنی جماعت کو پورے پاکستان میں مضبوط کرنے کا فیصلہ لے چکے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ باہمت کرکٹر مستقبل کی پاکستانی سیاست میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے۔ یہ کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت عمران خان میں موجود ہے لیکن اس کے لئے ہمیں 2018ءکے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔
Professor Shohab Inayat Malik
About the Author: Professor Shohab Inayat Malik Read More Articles by Professor Shohab Inayat Malik: 7 Articles with 4442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.