ایران کے انتخابی مناظرے

کہنے کو تو ہم دنیا کی ایک بڑی جمہوری طاقت شمار ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں جمہوری رویہ تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے جس کا اندازہ حال ہی میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران چلائے جانے والے اشتہارات سے ہوتا ہے جس میں ایک پارٹی دوسری پارٹی کی غلط پالیسیوں پر ماہرانہ تنقید کرنے کے بجائے پارٹی کی شخصیات کا مذاق اڑاتی ہوئی نظر آتی ہے اور جواب میں دوسری پارٹیاں تقریبا اسی رویے کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں اور رہی سہی جمہوری کسر ہمارے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور دھواں دار خطابات نکال دیتے ہیں جس میں نام لے کر بلکہ نام بگاڑ کر ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنا گویا سیاسی حق شمار ہوتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے پڑوس میں واقع اسلامی جمہوریہ ایران ہےجس کی جمہوری روایت شاید ہم سے زیادہ قدیم نہیں ہے لیکن وہاں پر پایا جانے والا جمہوری رویہ صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ خطے کے اکثر جمہوری ممالک کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ ایران میں صدارتی انتخابات کی الیکشن مہم اپنے عروج پر ہے اور انتخابی مہم کے دوران ہونے والے مناظروں نے یہاں کی عوام کے سیاسی شعور میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ایک دلچسپ چیز یہ سامنے آرہی ہے کہ انتخابی مہم کی ابتدا میں ابھر کر سامنے آنے والے امیدوار ڈاکٹر سعید جلیلی کی مقبولیت میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ قرار دی جارہی ہے کہ سرکاری ٹیلی ویژن پر ہونے سیاسی مناظروں میں وہ اپنا موقف زیادہ واضح طریقے سے بیان نہیں کرپائے۔ابھی دو سیاسی مناظرے باقی ہیں جس کے بعد صورت حال مزید ابھر کر سامنے آئے گی۔ صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں اب تک اگرچہ ڈاکٹر سعید جلیلی اور محمد باقر قالیباف دیگر امیدواروں کی نسبت کچھ مضبوط نظر آرہے ہیں لیکن اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو انتخابات دوسرے مرحلے میں پہنچ جائیں گے اور موجودہ آٹھ امیدواروں میں سے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے امیدواروں کے درمیان دوسرے مرحلے کا انتخابی دنگل سجے گا۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کو ایران کے صدارتی انتخابات کے دوران ہونے والے انتخابی مناظروں کے بارے میں توقع تھی کہ یہ مناظرے ماضی میں ہونے والے ڈاکٹر احمدی نژاد کے مناظروں سے ملتے جلتے ہوں گے جو تقریبا ہمارے پاکستانی ٹاک شوز سے ملتے جلتے تھے لیکن موجودہ مناظروں میں ہونے والی تبدیلی نے نہ صرف مبصرین کو چونکا دیا بلکہ مغربی ذرائع ابلاغ کو بھی حیران کردیا ہے؛ کیونکہ یہ مناظرے امریکی صدارتی مناظروں سے ملتے جلتے اور اسلام کی اخلاقی اقدار کے مطابق ہیں جس میں کوئی امیدوار کسی دوسرے امیدوار کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالتا اور مناظرے میں شریک امیدوار ضابطہ اخلاق کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اتنی کم عمر جمہوریت سے اتنا سنجیدہ سیاسی و جمہوری عمل واقعی لائق تحسین اور خطے کے ممالک کے لیے نمونہ عمل ہے-

A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 13033 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.